چچا چھکن نے عدالت لگائی


ہمارے دیس میں یہ رواج ہے کہ کوئی تنازع ہو تو محلے کے بابے بزرگ وغیرہ اپنی عدالت لگا کر فوراً ایسا انصاف مہیا کر دیتے ہیں جس سے فریقین کی تسلی ہو جاتی ہے۔ امتیاز علی تاج کے مشہور کردار چچا چھکن بھی ایک ایسے ہی بزرگ تھے جو عدالت لگا کر ایک مقدمہ سن بیٹھے۔ پھر کیا ہوا؟ آئیے جانتے ہیں۔

چچا چھکن نے جھگڑا چکایا

سید امتیاز علی تاج۔

پچھلی گرمیوں میں اتوار کا روز تھا۔ ہمارے ہاں چراغ میں بتّی پڑتے ہی کھانا کھا لیا جاتا ہے۔ بچے کھانا کھا کر سو گئے تھے۔ چچی نے کھانا نمٹاکر عشاء کی نماز کی نیت باندھی تھی، نوکر باورچی خانے میں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے، چچا چھکّن بنیان پہنے، تہمد باندھے، ٹانگ پر ٹانگ رکھے، چار پائی پر لیٹے مزے مزے سے حقے کے کش لگا رہے تھے کہ دفعتہ گلی میں سے شور وغُل کی آواز آئی۔

بُندو، امامی، مودا کھانا چھوڑ دروازے کی طرف لپکے، چچا بھی لپک کر اٹھ بیٹھے اور کوئی نظر نہ آیا تو چچی کی طرف دیکھا، چچی نے سلام پھیرتے ہوئے منہ اُدھر موڑا، آنکھیں چار ہوئیں تو چچا نے پوچھا۔

”یہ شورکیسا ہے؟ ‘‘چچی ماتھے پر تیوری ڈال کر وظیفہ پڑھنے لگیں۔

چچا چھکّن کچھ دیر انتظار کرتے رہے کہ شاید کوئی نوکر لڑکا پلٹ کر آئے اور کچھ خبر لائے۔ ویسے چچی سے برابر پوچھتے رہے۔

”کوئی آتا نہیں! کہاں بیٹھ رہے سب کے سب؟ دیکھتی ہو ان کی حرکتیں؟ معلوم نہیں کیا واردات ہو گئی!‘‘

لیکن جب نہ چچی نے جواب دیا اور نہ کوئی لڑکا واپس آیا تو مجبوری کو اٹھے اور جوتا پہن کر خود باہر نکلنے کی تیاری کی۔

چچی بولیں”چلے ہوتو کسی کے جھگڑے میں نہ پڑنا۔ ‘‘

چچا بولے”میرا سر بھرا ہے۔ بازاری لوگوں کے جھگڑے سے ہمیں کیا سروکار۔ ‘‘

زنان خانے سے نکل مردان خانے میں آئے۔ ڈیوڑھی میں قدم رکھا تو دیکھا گھر کے سامنے بھیڑ جمع ہے۔ چچا کو توقع نہ تھی کہ اتنی جلدی موقع پر جا پہنچیں گے۔ کُچھ گھبرائے۔ آگے بڑھنے کے لئے ابھی تیّار نہ تھے، واپس ہٹنے کو جی نہ چاہتا تھا۔ چنانچہ آپ نے جلدی سے دیّا گُل کرکے ڈیوڑھی کا دروازہ بھیڑ دیا اور دیر تک درز سے آنکھ لگائے صورت حال ملاحظہ فرماتے رہے۔

معلوم ہوا جھگڑا دو ہمسایوں کے درمیان ہے جو سامنے کے مکان میں رہتے ہیں، ایک اوپر کی منزل میں، دوسرا نیچے کی منزل میں۔ ہاتھاپائی تک نوبت پہنچ گئی تھی لیکن لوگوں نے اب دونوں کو الگ الگ کر کے سنبھال رکھا ہے اور میر باقر علی انہیں سمجھا بجھا کرتقریباً ٹھنڈا کر چکے ہیں۔

چچا سے رہا نہ گیا۔ یہ بات انہیں کیوں کر گوارا ہو سکتی تھی کہ ان کے ہوتے ساتے محلے کا کوئی اور شخص اس قسم کے قصوں میں پنچ بن بیٹھے، چنانچہ آپ تہمد کس بنیان نیچے کھینچ دروازہ کھول باہر کھڑے ہوئے اور سرپرستانہ انداز میں بولے۔ ”ارے بھئی کیا واقعہ ہو گیا؟ ‘‘

میر باقر علی نے کہا”اجی کچھ نہیں۔ یوں ہی ذرا سی بات پر ان خان صاحب اور مولوی صاحب میں جھگڑا ہو گیا تھا، میں نے سمجھا دیا ہے دونوں کو۔ ‘‘

وہ تو سمجھ گئے مگر چچا بھلا کہاں سمجھتے تھے، موقع پر جا پہنچے، بولے”مگر کیا بات ہوئی؟ یہ تو کچھ ایسا نظر آتا ہے جیسے خدا نخواستہ فوجداری تک نوبت پہنچ گئی تھی۔ ‘‘

میر باقر علی نے ٹالنا چاہا۔ ”اجی اب خاک ڈالئے اس قصے پر، جو ہونا تھا ہو گیا۔ ہمسایوں میں دن رات کا ساتھ، کبھی کبھار شکایت پیدا ہو ہی جاتی ہے۔

اب بھی چچا کی تسکین نہ ہوئی، بولے”پر زیادتی آخر کس کی طرف سے ہوئی؟ ‘‘

خاں صاحب بولے۔ ”پوچھئے ان مولوی صاحب سے جوبڑے متقی بنے پھرتے ہیں۔ ڈاڑھی تو بالشت بھر بڑھا رکھی ہے لیکن حرکتیں رذیلوں کی سی ہوں توڈاڑھی سے کیا فائدہ؟ ‘‘

چچا چونک کر بولے۔ ”اوہو یہ قصہ تو ٹیڑھا معلوم ہوتا ہے!‘‘

اب مولوی صاحب کیسے چپ رہ سکتے تھے، بولے”صاحب ان کو کوئی چپ کرائے۔ میں بڑی دیر سے طرح دیے جا رہا ہوں اور یہ جو منہ میں آئے بکے چلے جاتے ہیں۔ اس کا نتیجہ ان کے حق میں اچھا نہ ہوگا۔ ‘‘

خان صاحب کڑک کر بولے۔ ”ابے جا، چار بھلے آدمی بیچ میں پڑ گئے جو میں رک گیا، نہیں تو نتیجہ تو آج ایسا بتاتا کہ چھٹی کا دودھ یادآجاتا۔ ‘‘

مولوی صاحب نے تن کر فرمایا۔ ”طاقت کے گھمنڈ میں نہ رہناخان صاحب! انگریز کا راج ہے، جی ہاں، اور یہاں بھی کوئی ایسے ویسے نہیں ہیں۔ ہم بھی ایسے ہتھیاروں پر اتر آئے تو یاد رکھیے ورنہ، جی ہاں۔ ‘‘

خان صاحب بے قابو ہو گئے۔ مکا تان کر آگے بڑھا چاہتے تھے کہ لوگوں نے بیچ بچاؤ کرکے روک لیا۔ مولوی صاحب آستینیں چڑھاتے چڑھاتے رہ گئے، باقرعلی صاحب نے پریشان ہو کر چچا چھکّن سے کہا۔ ”دونوں کے دونوں اچھے خاصے سمجھ گئے تھے۔ آپ نے پھر دونوں کو بھڑا دیا۔ ‘‘

چچا بولے۔ ”لاحول ولا قوۃ۔ کہنے لگے کہ آپ نے بھڑا دیا۔ اجی حضرت میں تو صرف اتنا پوچھ رہا تھا کہ قصور کس کا ہے۔ آپ جو بڑے پنچ بن کر گھر سے نکل کھڑے ہوئے تو اتنا معلوم کر لیا ہوتا کہ زیادتی کس کی ہے اور اصل واقعہ کیا ہے؟ ‘‘

باقر علی نے پھر بات ٹالنی چاہی۔ ”اجی کہاں اب سرِراہ قصہ سنیے گا، جانے دیجیے، جو ہوا سو ہوا، میں تو ان دونوں کی شرافت کی داد دیتا ہوں کہ جو ہم نے کہا، انہوں نے مان لیا، بات رفت گزشت ہوئی، اب آپ کیا گڑے مردے اکھیڑنے آگئے۔ ‘‘

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4