چین بھارت جنگ میں انسانوں کا دھواں اڑ جائے گا؟


انڈیا اور چین کی مجموعی آبادی ڈھائی ارب سے زیادہ ہے اور اگر اس میں پاکستان کی 20 کروڑ آبادی کو شامل کر لیا جائے تو ان تین ملکوں کی آبادی دنیا کی آبادی کا 40 فیصد ہے۔

انڈیا، چین اور پاکستان تینوں ممالک ہی جوہری ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ اگر یہ تین ممالک کسی بھی طرح جنگ میں ملوث ہو گئے تو دنیا کی 40 فیصد آبادی خطرے سے دوچار ہو سکتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا اور چین کے درمیان جنگ میں پاکستان غیر جانبدار نہیں رہ سکتا ہے اور اس لحاظ سے پاکستان کا کردار کافی اہمیت کا حامل ہے۔

انڈیا اور چین نے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے حوالے سے ’خود پہل نہ کرنے‘ کے معاہدے پر دستخط کیے ہوئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر لڑائی میں کسی بھی ملک نے جوہری ہتھیار استعمال کرنے میں پہل کی تو دوسرا بھی ایسا کر سکتا ہے۔

گذشتہ برس نومبر میں انڈیا کے وزیر دفاع منوہر پاریکر نے کہا تھا کہ انڈیا کو ’خود پہل نہ کرنے کی پالیسی پر نظرِ ثانی کرنی پڑے گی۔‘ انھوں نے کہا کہ انڈیا ایک ذمہ دار ایٹمی طاقت ہے اور وہ اٹیمی ہتھیاروں کو غیر ذمہ داری کے ساتھ استعمال نہیں کرے گا۔

منوہر پاریکر نے واضح کیا کہ یہ ان کی ذاتی رائے ہے اور انڈیا کی اٹیمی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یاد رہے کہ انڈیا کے وزیر دفاع کا یہ بیان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا تھا جب انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی عروج پر تھی۔

رواں سال بھوٹان کے متنازع علاقے میں چینی فوجیوں کی آمد کے بعد سے انڈیا اور چین کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ چین کے ذرائع ابلاغ کے ذریعے انڈیا کو جنگ کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ دسمبر 2016 میں بھارت نے کامیابی سے آگئی V میزائل کا تجربہ کیا۔ یہ ایک بین براعظمی بیلسٹک میزائل ہے جس کی رینج ساڑھے پانچ ہزار سے 5،800 کلومیٹر تک ہے۔ اس کا لمبائی ساڑھے 17 میٹر اور مجموعی وزن 50 ہزار کلو ہے۔

یہ میزائل ایٹمی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور چین کے کئی شہروں کو آسانی سے نشانہ بنا سکتا ہے۔ چین کے پاس پہلے ہی اس طرح کے کئی میزائل ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان تلخی بڑھ رہی ہے۔

امریکہ کی ایک رپورٹ کے مطابق سرد جنگ کے بعد سے دنیا میں جوہری ہتھیاروں کی تعداد میں کمی آئی ہے اور سنہ 1986 میں دنیا بھر میں تقریباً 70 ہزار 300 ایٹمی ہتھیار تھے جو 2017 میں اب 14 ہزار 900 رہ گئے ہیں۔ ہتھیاروں میں کمی مختلف ممالک بالخصوص امریکہ اور روس کے درمیان 90 کی دہائی میں کیے گئے معاہدے کے تحت ہوئی۔

گو کہ جوہری ہتھیاروں کی تعداد کم ہوئی ہے لیکن اب بھی 14،930 ایٹمی ہتھیار دنیا میں موجود ہیں جو کہ ایک چھوٹی تعداد نہیں ہے۔ دنیا بھر میں تقریباً 9400 جوہری ہتھیار کی تنصیب ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ دنیا بھر میں آپریشنل فورسز کے پاس 3900 جوہری ہتھیار نصب ہیں۔ امریکہ، روس، برطانیہ اور فرانس میں 1800 جوہری ہتھیار ہائی الرٹ ہیں یعنی فیصلے کے فوری بعد انھیں چلایا جا سکتا ہے۔ دنیا کے 93 فیصد جوہری ہتھیار امریکہ اور روس کے پاس ہیں۔

امریکی سائنسدانوں کی تنظیم فیڈریشن آف امریکن سائیٹسٹ کی رپورٹ کے مطابق امریکہ، روس اور برطانیہ اپنے جوہری ہتھیاروں کو کم کر رہے ہیں لیکن گذشتہ 25 برسوں میں ہتھیار کم کرنے کی رفتار میں کمی آئی ہے۔ فرانس اور اسرائیل کے جوہری ہتھیاروں کی تعداد تقریباً مستحکم ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق چین، پاکستان، شمالی کوریا اور انڈیا جوہری ہتھیاروں میں اضافہ کر رہے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان کے پاس جوہری ہتھیاروں کی مجموعی تعداد 120 سے 130 ہے جبکہ انڈیا کے جوہری ہتھیاروں کی تعداد 110 سے 120 کے درمیان ہے۔ چین کے پاس 270 جوہری ہتھیار ہیں۔ ایف اے ایس کی رپورٹ کے مطابق جوہری طاقت رکھنے والے ممالک اور ہتھیاروں کو مزید جدید بنا رہے ہیں اور ان ممالک کا موقف ہے کہ وہ اپنے غیر مستحکم مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے ایسا کر رہے ہیں۔ درحقیقت کسی ملک کے پاس کتنے جوہری ہتھیار ہیں یہ کافی خفیہ معاملہ ہے۔ ایف اے ایس کا کہنا ہے کہ ماضی میں افشا ہونے والی معلومات کی روشنی میں بہت محتاط طریقے سے ہتھیاروں کی تعداد کا جائزہ لیا گیا ہے۔

ماہرین کے مطابق اگر چین اور انڈیا کے درمیان جنگ ہوتی ہے تو یہ بہت جدید جنگ ہو گی اور اس یہ جنگ صرف زمین پر نہیں ہو گی بلکہ آسمان پر سمندروں میں بھی اس کی گرمی محسوس کی جا سکے گی۔ فضا میں میزائل اور لڑاکا طیاروں کی گونج ہو گی۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ جغرافیائی طور پر بہتر جگہ پر ہونے سے سمندر پر انڈیا کا غلبہ ہو گا اور وہ اس طرح چین کی معشیت کو متاثر کر سکتا ہے۔

ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو کنٹرول کرنے والے ادارے آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ دنیا میں بھر نو ممالک کے پاس جوہری ہتھیار ہیں۔ امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس، اسرائیل، پاکستان، انڈیا، چین اور شمالی کوریا جوہری طاقت رکھتے ہیں۔

امریکہ دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے دوسری جنگ عظیم میں جاپان پر دو ایٹمی بم پھینکے۔ اُس وقت سے دنیا میں ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہو گئی۔ اس دوڑ میں امریکہ اور سویت یونین پیش پیش تھے۔ اب بھی امریکہ اور روس کے پاس سب سے زیادہ جوہری ہتھیار ہیں۔ کیوبا کے میزائل بحران کے بعد سے ایٹمی جنگ کا خوف طاری ہو گیا۔ اس کے آٹھ برس بعد جوہری عدم ترسیل کا معاہدہ این پی ٹی طے پایا۔

اس معاہدے کے تحت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل رکن کو جوہری ممالک قرار دیا گیا۔ ان ممالک کے علاوہ باقی ممالک صرف تحقیق کے لیے جوہری ٹیکنالوجی استعمال کر سکتے ہیں اور جوہری ہتھیار نہیں بنا سکتے۔ اسرائیل، انڈیا اور پاکستان نے این پی ٹی پر دستخط نہیں کیا ہے۔

اگرچہ اسرائیل خود کو ایک کبھی بھی ایٹمی طاقت نہیں کہا لیکن اسرائیل کے پاس کم سے کم 80 ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔ شمالی کوریا نے این پی ٹی پر دستخط کیے تھے، لیکن 2003 میں اس نے یہ معاہدہ ختم کر دیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32187 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp