رتھ فاؤ کا قرض اتار دیا۔۔۔ عقیل عباس کا کوئی علاج نہیں


ڈاکٹر رتھ فاو کا انتقال ہوا تو جہاں بہت سوں نے انھیں خراج تحسین پیش کیا، وہیں ہماری دوست فرحانہ صادق نے ”مسیحا“ کے عنوان سے اپنے خیالات کا اظہار کچھ یوں کیا:

”تم ڈاکٹر رتھ فاو کو جانتے ہو؟

شاید!

یہ وہی عمر رسیدہ خاتون ہیں ناں، جو ملک میں جذام کے خاتمے کی مہم میں مصروف تھیں؟

ہاں! اُن کا انتقال ہوگیا ہے!

اوہ! اچھا! کب؟

یہی کوئی دو تین دن پہلے، جب ملک کے نوجوان ڈاکٹرز تنخواہ بڑھوانے کی ہڑتالی مہم میں مصروف تھے۔“

اس مختصر کہانی پر تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں، نہ تبصرہ کرنا چاہیے۔ ڈاکٹر بھی انسان ہیں، ان کی بھی ضروریات ہیں؛ سوشل اسٹیٹس ہے۔ ڈاکٹر رتھ فاؤ سے کسی نے یہ تھوڑی کہا تھا، وہ بے لوث خدمت کریں۔ ان کا بار سب ڈاکٹروں پر ڈال دینا نا انصافی ہے۔ لاکھوں کروڑوں خرچ کر کے ڈاکٹر اس لیے تو نہیں بنا جاتا کہ اپنی تنخواہ بڑھوانے کے لیے ہڑتال نہ کی جائے۔ ہمیں اس بات پر خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرنا چاہیے کہ ڈاکٹر رتھ فاؤ کی آخری رسومات سرکاری اعزاز سے ادا کی گئیں۔ یہ سرکار کا اچھا اقدام تھا۔ یہ بھی نہ کرتے تو بڑی شرم ساری کی بات ہوتی۔ وہ رتھ فاؤ جنھیں ان کی زندگی میں گنتی کے چند لوگ جانتے ہوں گے، اسی رتھ فاؤ کے مرنے کا رنج لاکھوں کروڑوں پاکستانیوں کو ہوا۔ بہت سے ابھی نہیں جانتے کہ وہ کیا تھیں اور بہت سے ابھی یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ کبھی تھیں۔ جو جانتے ہیں وہ یہ کہیں گے، بس یہ ہے کہ رتھ فاؤ کوئی ایسی تھیں جنھوں نے اپنا جیون دکھی لوگوں خدمت کرنے کے لیے تیاگ دیا۔ رتھ فاؤ کو اس سے مطلب بھی نہ تھا، کہ انھیں جانا جاتا۔ وہ شہرت کی بلندیوں جیسے القابات کی متمنی بھی نہ تھیں۔ نہ ٹیلے ویژن اسکرین کی بھوکی، نہ اخباروں میں اپنی خدمات گنوانے کا شوق، نہ حکومت کی بے حسی کی شکایت۔

دیکھیے! حکومتوں کو بہت کچھ کرنا پڑتا ہے، جس سے اس کی ساکھ اچھی ہو۔ باقیوں کو تو رہنے دیجیے، خاص طور پر سیاست دانوں کو کہ ان میں خود نمائی کی ہوس ہوتی ہے، بہت سے ایسے ہوتے ہیں جو نمود و نمایش سے کوسوں دور ہیں۔ جیسا کہ یہی دیکھ لیجیے کہ چیف آف آرمی اسٹاف، چیف ایر مارشل نے بھی بہ نفس نفیس مادام رتھ فاؤ کی جنازے میں شرکت کی۔ انھیں نمود و نمایش سے مطلب نہ ہوگا۔ پھر تمام ٹیلے ویژن چینل نے ان رسومات کو کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کیا، اور دُنیا کو پیغام گیا کہ ہماری حکومتیں کتنی چوکس، کتنی مستعد ہیں۔ ادھر ہماری سندھ سرکار نے سوچا، کہ محض سرکاری اعزاز سے دفنانا ہی کچھ بڑی بات نہیں، اس سے بڑھ کر کچھ کرنا چاہیے۔ چناں چہ انھوں نے کراچی کے سول اسپتال کا نام تبدیل کرنے کا اعلان کیا، کہ آیندہ سول اسپتال کو ڈاکٹر رتھ فاؤ سول اسپتال کہا جائے گا۔ آپ کسمسایے نہیں؛ یہ معمولی اقدام نہیں۔ بہت بڑی بات ہے کہ سول اسپتال جیسے بڑے اسپتال کو ڈاکٹر رتھ فاؤ سے منسوب کر کے اس اسپتال کی شان بڑھائی گئی ہے۔ کچھ لوگ اس پر بھی اعتراض کریں گے، کیوں کہ اعتراض کرنا ہمارا قومی شعار ہے۔ کچھ نابکار کہتے ہیں، پہلے سے موجود اسپتال کا نام تبدیل کر دینا کون سا کارنامہ ہے، اچھا ہوتا ایک نیا اسپتال بنایا جاتا، جس کا نام ڈاکٹر رتھ فاؤ اسپتال ہوتا۔ وہ نابکار بھول گئے ہیں، کہ ابھی کل ہی کی بات ہے سینٹرل اسپتال راول پنڈی کا نام تبدیل کر کے بے نظیر شہید اسپتال رکھ کر ایک انقلابی قدم اٹھایا گیا تھا۔ یہ لوگ بے خبر ہیں، کہ حکومت کے اتنے وسائل کہاں، وہ کوئی نیا پروجیکٹ شروع کرے؛ وہ بھی اسپتال جیسا منصوبہ۔ جب پہلے سے اتنے اسپتال موجود ہیں تو انھی کی حالت زار کیوں نہ بہتر کی جائے۔ مان لیجیے کہ سول اسپتال کا نام رتھ فاؤ اسپتال ہوتے ہی صحت کے شعبے کے بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے۔

بھائی عقیل عباس جعفری محقق ہیں؛ محقق بھی ایسے جو غلط فہمیاں دور کرنے کے چکر میں لوگوں کو پریشان کرتے رہتے ہیں۔ بندہ تحقیق کرے، لیکن اپنے تک رکھے اس کو پھیلانے سے کتنے نفلوں کا ثواب ہوتا ہے۔ وہ ہمیشہ کوئی ایسی بات لے کر آ جاتے ہیں، جس سے لوگوں کا دھیان اصل طرف سے ہٹ کر کسی اور طرف چلا جائے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ پاکستان پندرہ اگست 1947ء کو معرض وجود میں آیا۔ حالاں کہ پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے، کہ پاکستان چودہ اگست 1947ء کو آزاد ہوا۔ بھائی عقیل عباس جعفری محض دعویٰ ہی نہیں کرتے، ثبوت بھی پیش کرتے ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد ابتدائی برساوں میں شایع ہونے والا وہ ڈاک ٹکٹ دکھاتے ہیں، جس میں یوم آزادی کی تاریخ پندرہ اگست چھپی ہوئی ہے۔ اسی طرح اس تاریخ کے اخباروں کے تراشے دکھاتے ہیں، کہ رمضان المبارک کی ستائیسویں شب جسے تیرہ اور چودہ اگست کی درمیانی رات بتایا جاتا رہا ہے، وہ چودہ اور پندرہ اگست 1947ء کی درمیانی رات ہے۔ اب جب کہ سندھ حکومت نے اتنا خوش آیند فیصلہ کیا ہے، کہ سول اسپتال کو ڈاکٹر رتھ فاؤ سول اسپتال کے نام سے یاد کیا جائے گا۔ عقیل عباس جعفری یہ شکایت کرتے پھرتے ہیں، کہ سندھ اسمبلی نے دو سال پہلے سول اسپتال کا نام ڈاکٹر ادیب رضوی سول اسپتال رکھنے کی منظوری دی تھی۔ ثبوت کے طور پر روزنامہ ڈان میں شایع ہونے والی خبر کا لنک پیش کرتے ہیں۔

کوئی پوچھے یہ ڈاکٹر ادیب رضوی کون ہیں؟ جناب! رُتھ فاو سے بڑھ کے کون ہوگا، جس کے نام کی تختی سول اسپتال کی پیشانی پر آویزاں کی جائے؟ اگر تو بھائی عقیل اس سرجن ادیب رضوی کی بات کر رہے ہیں، جن کے بارے میں اڑتی اڑتی کچھ افواہیں سنی ہیں کہ وہ گردوں کی بیماری کا علاج کرتے ہیں۔ اور ان کے اسی طرح کے کچھ الٹے سیدھے دھندے ہیں، تو بھائی عقیل عباس جعفری، وہ سرجن ادیب رضوی تو ابھی زندہ ہیں۔ میں نہیں سمجھ پایا کہ کسی اسپتال یا کسی مقام کا نام، کسی زندہ ہیرو پر رکھا جانا کوئی معنی رکھتا ہے۔ اگر زندہ لوگوں کے نام پر کسی اسپتال، اسکول، بلڈنگ، قصبے، شہر کا نام رکھا جانے کی غلط روایت پڑ گئی، تو بہت سے دعوے دار آ جائیں گے، کہ کسی ادارے کا نام ان کے نام پر ہو۔ ولے ایسا ہونے لگا، تو کون نیا ادارہ بنانے پر زور دے گا؟ ہر کوئی پرانی بلڈنگ پر اپنے نام کی تختی لگانے کی قبیح رسم کا آغاز کر دے گا۔

جناب! زندہ لوگوں کے نام پلاٹ لگائے جاتے ہیں۔ انھیں بڑی بڑی ہاوسنگ سوسایٹیاں بنانے کے لیے سرکاری زمین الاٹ کی جاتی ہے، اس کے لیے چاہے قوانین میں تبدیلی کرنا پڑے، کی جا سکتی ہے، کی جاتی ہے۔ نہیں یقین تو حیدرآباد سے کراچی آتے دائیں ہاتھ پر دیکھیے کتنی شان دار ہاوسنگ اسکیم بن گئی ہے، جس میں ایک بہت بڑی مسجد بنائی جا رہی ہے، تا کہ جنھیں اس زمین سے بے دخل کیا گیا ہے، وہ اس مسجد میں با آسانی پنج وقتہ نماز ادا کر سکیں۔ سب سے اچھے اسپتال کی ضرورت وہاں اس ہاوسنگ اسکیم میں بھی نہیں محسوس کی گئی۔ یہ سادہ سی بات اگر آپ کی سمجھ میں آ جائے، کہ ایک آدم زاد پیدا ہوا ہے تو ایک نہ ایک دن اسے مر ہی جانا ہے۔ پیدا ہو گیا ہے تو نمازیں پڑھے روزے رکھے، بچے پیدا کرے، انھیں پرائیوٹ اسکولوں میں داخل کروائے، اپنی جیب کاٹ کے انھیں پالے پوسے، بیمار ہو تو اپنے خرچ پر علاج کروائے، رقم نہیں ہے تو بھی کوئی بات نہیں، موت اپنے وقت پر آنی ہے، مریض انتظار کرے کہ ملک الموت آئے، لے جائے۔ ایسا بیمار سیدھا جنت میں جائے گا۔ جو بیماری سے مرا۔ رہی بات سرکار کی تو نیا اسپتال نہیں بن سکتا، سرکار کا خزانہ تقریبا خالی ہے۔ وہ صوبائی حکومت ہو، یا وفاقی؛ نئے اسپتالوں کے لیے، نئے اسکولوں کے لیے بجٹ کی شدید کمی ہے۔ آپ خود سوچیے اگر سرکار کے پاس سرمایہ ہوتا تو وہ دیگر سرکاری اداروں کی بہتری پر نہ خرچ کرتی!؟ جیسا کہ عدلیہ۔ آپ کو معلوم بھی ہے، کتنے مقدمات ہیں جن کے فیصلے صرف پیسے کی کمی کی وجہ سے رکے ہوئے ہیں؟

جہاں تک ڈاکٹر ادیب رضوی کے نام پر کسی اسپتال کا نام رکھے جانے کی بات ہے، تو اللہ تعالیٰ انھیں صحت دے، تن درست رکھے، عمر خضر عطا فرمائے؛ جب انھیں سرکاری اعزاز سے دفنائے جانے کی باری آئی، تب دیکھیں گے کون سا سرکاری اسپتال ایسا ہے، جسے ادیب رضوی اسپتال کہ کر کام چلایا جا سکے۔ اگر اس وقت تک کوئی ایسا اسپتال باقی نہ رہا، جس کا نام تبدیل کر کے ادیب رضوی اسپتال رکھا جا سکتا ہو، تو اسی سول اسپتال کو جسے ڈاکٹر رُتھ فاو سول اسپتال کا نام دیا جانے والا ہے، اس کو ادیب رضوی سول اسپتال کا نام دے کر سرجن صاحب کے احسانوں کا بدلہ چکا دیا جائے گا۔ تب تک ہم یہ بھی بھول چکے ہوں گے کہ کوئی ڈاکٹر رتھ فاو تھیں، جو جرمنی سے آئی تھیں؛ ان کے قوم پر کچھ احسانات تھے۔ ابھی تو رُتھ فاو کے احسانوں کا بدلہ چکانے کی باری ہے، وہ چکانے دیں؛ کل کی کل دیکھیں گے۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran