اتفاق کہیے یا جو بھی کہیں؛ گزشتہ ہفتے ”ہم سب“ پر میرے تین آرٹیکل شایع ہوئے، جس کے عنوان میں لفظ ”سیکس“ یا ”جنس“ شامل رہا۔ انھی دنوں‌ محترمہ لینہ حاشر کی ایک تحریر ”بیوی کی بستر پر تذلیل“ اور اس کے بعد برادرم وجاہت مسعود کی ایک تحریر ”کچھ جنس کے بارے میں“ دو حصوں میں شایع ہوئی۔ ان میں سے کسی ایک تحریر پر اعتراض بنتا ہے تو وہ میری تحریر تھی، بلکہ ان سب تحریوں پر اعتراض ہو سکتا ہے۔ وہ یہ کہ یہ تحریریں بے ربط تھیں۔ میں اپنا مقدمہ رکھ دیتا ہوں۔ میں جو نہیں کہ پایا اس کو کہنے کا سوچ رہا تھا کہ اعتراض اٹھا، کہ ”ہم سب“ والے پچھلے کچھ عرصے سے غیر اخلاقی تصاویر، سنسنی خیز اور ہیجانی خبروں اور جنس پر مبنی کالموں کی جھڑی لگائے ہوئے ہیں۔
کہنے کو بہت کچھ کہا جا سکتا ہے، لیکن پہلے کچھ اعتذار پیش کرتا ہوں۔ ”ہم سب“ برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کے ساتھ معاہدے میں شریک ہے۔ ذمہ داری کے ساتھ متن شائع کرتا ہے۔ بی بی سی نے تاحال کسی تحریر میں تحریف یا ناشایستگی کی شکایت نہیں کی۔ ساتھ ہی یہ بھی کہ دیں کہ اگر کوئی تصویر بے بنیاد حوالے یا بے بنیاد تنسیخ کے ساتھ شایع ہوئی ہو، تو نشان دہی کی جائے۔ مناسبت ایک موضوعی معاملہ ہے۔ یہ صحرائی منطقہ ہے۔ جسے دعویٰ ہو، بات کرلے۔
میں اور یہ ادارہ (ہم سب) نہ صرف یہ کہ اپنی تحریر کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں، بلکہ محترمہ لینہ حاشر اور بھائی وجاہت مسعود کی مذکورہ تحریروں کا بھرپور دفاع  کرنے کو تیار ہیں۔ان تحریروں میں شامل حقائق یا دلائل میں کوئی اعتراض ہے، تو بیان کیا جائے؛ اخلاقی لحاف پر مکے بازی بے معنی ہے۔
انسانی معاشرہ ایک پھیلی ہوئی، پے چیدہ اور ہر لمحہ بدلتی ہوئی تصویر ہے۔ ان گنت موضوعات موجود ہیں۔ لکھنے والے کے لیے فہرست مضامین مرتب نہیں کی جاتی۔ ”ہم سب“ کے رفقا کے پاس ممکنہ ضرورت مندوں کے طبی معائنے اور متعلقہ لیبارٹری امتحانات کے لیے مالی وسائل دست یاب نہیں ہیں؛ اس کوتاہی پر معذرت چاہتے ہیں۔
لکھنے والا کسی تیسرے فریق کی  (گویا پڑھنے والے کے استثنیٰ کے ساتھ) پس ماندہ سوچ، ژولیدہ خیالی، غدودی حوائج یا نفسیاتی عوارض کے لیے جواب دہ نہیں۔