کلئیرشدہ فاٹا کی بارودی سرنگیں اور معصوم بچے


کچھ الفاظ محض الفاظ نہیں ہوتے بلکہ وہ ﮐﯿﻔﯿﺎﺕ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺗﺐ ﮨﯽ ﺳﻤﺠﮫ ﻣﯿﮟ ﺁﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺟﺐ خوﺩ ﺁﭖ ﭘﺮ ﮔﺰﺭی ہوں۔ گزشتہ 14 سال سے یوں تو باشندگان فاٹا کو بہت سی اعصاب شکن کیفیات کا سامنا ہے پرلفظ ”نقل مکانی“ تقریباً ان سب پر اس لئے بھاری ہے کہ ان قلعہ نما گھروں جن کا ایک ایک پتھر باپ دادا کے ہاتھوں نگینوں کی صورت جڑا تھا، جن کے گارے اور مٹی میں خلیجی ممالک میں سلگتی ہمارے جوانوں کے خون پسینے کی کمائی شامل تھی، کو سامان اور مال مویشیوں سمیت چھوڑنا نہایت ہی کڑوا گھونٹ تھا۔ تقسیم برصغیر کی نقل مکانیوں کے بعد آپریشن راہ نجات اور ضرب عضب کی نقل مکانیاں پاکستانی تاریخ کی سب سے بڑی نقل مکانیاں تھیں جن میں کتنے بچے لاپتہ ہوئے، کتنے سردی اور گرمی سے مرگئے، کتنے بوڑھے ماں باپ بندوبستی علاقوں تک سفر میں ساتھ نہ دے سکے، کتنے مائیں بہنیں بیوہ ہوئیں، کتنے نامی گرامی خاندان غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے، کتنے تعلیمی سال ضائع ہوئے، ان کی شرح خواندگی پر کیا اثر پڑا، ان کی معیشت کیسی ملیامیٹ ہوئی یہ سب اعداد شمار اگر اکھٹی کی جائیں تو ناممکنات میں شمار ہوں گی مگر یہ سب حقائق جتنے تلخ ہیں اتنے ہیں اٹل ہیں۔

یہ سب کچھ اس وعدے کی قیمت تھی جو ان نقل مکانیوں کا محرک تھا یعنی قیام امن کی وہ امید کہ جس کے بعد ان جنت نظیر وادیوں نے بارود کی بدبو سے آزاد ہوکر زندگی کے رنگوں سے کھیلنا تھا۔ یہ امید کوئی تخیل یا قیاس نہ تھا بلکہ ریاستی اداروں کے ”پرامن فاٹا، پرامن پاکستان“ کا وہ وعدہ تھا کہ جس پر اہالیان فاٹا نے من و عن اعتبار کرکے ایک بہتر کل اور پرامن پاکستان کے لئے تاریخ قربانی دی۔

باشندگان فاٹا نے اُس وقت بھی ریاستی وعدہ درست جان کر بارود سے امان کے لئے اپنا علاقہ چھوڑا تھا اور آج بھی ریاستی وعدے پر تقیہ کرکے بارود سے چھٹکارے کے یقین پر اپنے کھنڈر علاقے میں واپس گئے ہیں، مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ نہ نکالتے وقت کے وعدے سچے ثابت ہوئے اور نہ واپس بھجوانے کے حکم کے وقت کلئیرنس کے دعوؤں میں کوئی صداقت ہے۔ کل جو بارود گولوں کی صورت آسمان سے برس رہا تھا آج وہ لینڈ مائن کی صورت زمین کے نیچے سے مار رہا ہے۔

دو ہفتے قبل احسان اللہ داوڑ حسوخیل تحصیل میرعلی شمالی وزیرستان کا آٹھ سالہ بیٹا زرعی زمینوں میں لگی مائن کا بے دردی سے شکار ہوا۔ وزیرستان کے ہسپتالوں اور شعبہ صحت کی ابتر صورتحال کے پیش نظر مجبوراً متاثرہ بچہ پشاور تک کٹے ہاتھوں، پھٹی آنکھوں اور باہر نکلے پھیپڑوں میں زندگی کی امید پر پشاور لے جایا گیا جہاں وہ پورے رستے چار گھنٹے ماں کی گود میں تڑپتا رہا اور آخر کار جان بحق ہوا۔

محسود قوم نے کم از کم نو سال تک ریاستی حکم کے مطابق اپنا علاقہ چھوڑا جو بالآخر کھنڈر بن گیا۔ علاقہ کلئیر ہونے کے اعلانات ہوئے، واپسی کا حکم ملا مگر جس بارود سے بچنے کے لئے اتنی بڑی قربانی دی وہ اینٹی پرسنل لینڈ مائنز کی صورت میں ان کا منتظر تھا۔ مائنز صاف کرنے کے لئے احتجاجی تحریک کے رکن منظور محسود کے مطابق واپسی سے اب تک 68 محسود بچے، خواتین اور مرد بارودی سرنگوں کا شکار ہوچکے ہیں، جن میں 50 افراد کے پاؤں اور دو کی آنکھیں مکمل طور پر ضائع ہوچکی ہیں اور 11 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ جبکہ صحافی نصیر اعظم محسود کے مطابق جنوبی وزیرستان میں اب تک لگ بھگ چالیس افراد بارودی سرنگوں کے بموجب جان سےہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ نصیر اعظم کے مطابق صرف جون 2017 کے ابتدائی ہفتے میں بارودی سرنگوں کے چار دھماکے ہوئے۔ پہلا دھماکہ تحصیل تیارزہ کے علاقے پٹ ٹوک میں ہوا، جس میں تین بچے جاں بحق اور ایک بچی زخمی ہوگئی، دوسرا واقعہ تحصیل سراروغہ کے علاقے سپین مذک میں ہوا جس میں سات بچے جاں بحق اور دو بچے زخمی ہوئے، اسی طرح تیسرا واقعہ تحصیل سروکئی کے علاقے بروند میں ہوا، اس میں ایک سیکورٹی اہلکار زخمی ہوا اور چوتھا واقعہ وانہ کے علاقے وچہ خواڑا میں ہوا جس میں ایک فرد زخمی ہوا۔ واضح رہے کہ مال مویشی پالنا مذکورہ علاقوں کا واحد ذریعہ آمدن ہیں جو کثیر مقدار میں ان بارودی مائنز کا شکار ہورہے ہیں۔

گوگل میں Mines blast in FATA لکھیں تو فاٹا کی ہر ایجنسی میں باردوی سرنگوں سے جان بحق ہونے والی خبروں کی فہرستیں آجاتیں ہیں پر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق باجوڑ ایجنسی میں ہر پانچ سو میں سے ایک شخص بارودی سرنگ پھٹنے کے حادثات میں معذور ہو چکا ہے۔
باجوڑ ایجنسی کے اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ محمد علی خان کہتے کہ سنہ 2008 سے اب تک بارودی سرنگیں پھٹنے کے مختلف واقعات میں 1400 سے زائد ہلاکتیں ہوئی ہیں جبکہ اسی عرصے میں 1800 سے زائد افراد معذور ہوئے ہیں۔

پاکستان میں بارودی سرنگوں پر کام کرنے والی تنظیم Sustainable Peace And Development Organization: SPADO کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر رضا شاہ خان نے بی بی سی کو انٹریو دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں بارودی سرنگوں کو ناکارہ بنانا اس لیے بڑا مسئلہ نہیں کہ پاکستانی فوج کی کور آف انجنئیرز اس سلسلے میں دنیا بھر میں مانی جاتی ہے، تاہم سب سے بڑا مسئلہ بارودی سرنگوں کے متعلق آگاہی پیدا کرنا ہے۔ ڈائریکٹر صاحب کا مزید کہنا تھا کہ ”بارودی سرنگوں سے متاثرہ علاقوں میں اس وقت تک ترقی نہیں ہو سکتی جب تک یہ مکمل طور پر کلیئر نہیں کر لیے جاتے۔ جبکہ متاثرہ افراد کی بحالی کے لیے بھی حکومت کام نہیں کرتی“۔

بارودی سرنگ صاف کرنے کے جرمن فوج کے ماہر گُنڈر پٹسکے کہتے ہیں کہ ” کسی بھی قسم کی بارودی سرنگ ہو اس کا ایک حصہ دھماکہ خیز مواد TNT یا آر ڈی ایکس پر مُشتمل ہوتا ہے۔ یہ دھماکہ خیز مواد وقت کے ساتھ ساتھ اپنی لچک کھو دیتا ہے۔ اس طرح یہ غیر مستحکم ہو جاتا ہے۔ کبھی کبھی تو ایک معمولی سی رگڑ دھماکے کا سبب بنتی ہے۔ اس طرح بارودی سرنگ 80 سے90 سال تک زیر زمین کارآمد رہ سکتی ہے اور اس کے خطرات باقی رہتے ہیں۔ اس کی ایک مثال فرانس میں وردون کا مقام ہے جو پہلی عالمی جنگ کا ایک میدان ہے۔ وہاں موجود بارودی سرنگوں کے ڈیٹونیٹر اب زنگ آلود ہو گئے ہیں مگراب بھی فعال ہیں۔

یہاں ایک بات طے ہے کہ یہ سب مائنز پاک فوج کی دہشتگردی کے خلاف لڑی گئی جنگ کی باقیات ہیں۔ واضح رہے کہ اس جنگ نے جہاں قبائلی علاقوں کو ادھیڑ کر رکھ دیا ہے وہاں افواج پاکستان کی قربانیاں بھی تاریخ کا حصہ ہیں پر یہاں دکھ کی بات یہ ہے کہ مذکورہ سب نقصانات اور قربانیوں کے باوجود موت مائن کی صورت قبائلی بچوں کے تعاقب میں ہے لہذا ”مکمل امن و امان“ کے دعوے معنویت کھو بیٹھے ہیں۔ بارودی سرنگوں کی بابت اداروں اور پولیٹیکل انتظامیہ کی لاتعلقی کا یہ حال ہے کہ مواد کی صفائی و تلافی تو دور کی بات ان کے پاس بارودی مائینز کی پہچان اور حفاظتی تدابیر کے لئے عوام میں آگاہی پیدا کرنے سے متعلق کوئی لائحہ عمل تک موجود نہیں۔ جس پر بی بی سی نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ”یہاں بارودی سرنگوں کی موجودگی بتاتی ہے کہ طویل جنگ کے اثرات اب بھی باقی ہیں اور ان سے نمٹنے کے لیے وسائل اور منصوبہ بندی، دونوں ہی موجود نہیں ہیں۔ “

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).