طاق پر جزدان میں لپٹی دعائیں رہ گئیں


قوموں کی تاریخ میں ستر سال کی عمر کوئی عمر نہیں ہوتی۔ انسانوں کے حساب سے ستر سال ایک بڑی عمر ہے۔ پاکستان کے وجود میں آنے کے وقت جو انسان اس دنیا میں آئے۔ وہ اس طویل عمر کے ساتھ ساتھ بڑی مایوسی سے اپنے ماضی کو دیکھتے ہیں۔ ماضی میں کوئی ایسی گھڑی نظر نہیں آتی جو آپ کو مطمئن کرسکے۔ آزادی کے ابتدائی سال فخر قوم محمد علی جناح کی وفات کے بعد سےسیاسی بدآمنی کا شکار رھا۔ اس وقت ملک میں جمہوریت کے لیے سیاست اور رقابت کا دوردورہ تھا۔ تقسیم ہند کا فیصلہ انگریز بہادر نے دنیا کی سیاست اور جمہور کی آواز پر کیا تھا۔ اس وقت بھی متحدہ بھارت میں کچھ لوگ مسلمانوں کی آزاد حیثیت کو پسند نہیں کرتے تھے۔ اس وقت ملک گیر ریفرنڈم تو نہ ہوسکا اور فرنگی کافیصلہ درست تھا۔ مسلمانوں نے ایک علیحدہ ملک اور زمین تو حاصل کرلی۔ مگر ان کو ترکیب ہاشمی کا کبھی بھی خیال نہ آیا اورآزادی کے ابتدائی سالوں میں اقلیتوں کے ساتھ سلوک پرسیاست ہونے لگی۔ ہماری سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کی روایت نہ تھی۔

اب اتنے سال گزرنے کے بعد ہماری سیاسی اشرافیہ اپنی اپنی سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کے فلسفہ پر کارآمد نہ رہ سکے۔ اس وقت بھی ہماری سیاسی جماعتیں اس دعوے پر سرگرم عمل ہیں کہ ملک میں جمہوریت کو بچانا ہے۔ جمہوریت کے وجود کا احساس ملکی نظام میں نظر نہیں آتا۔ تقسیم پاکستان کے بعد اندازہ ہوا کہ ہم سب لوگ جمہوریت پسند نہیں کرتے۔ تاریخ میں سیاسی مارشل لاءکے پہلے سالار ایک سیاست دان جناب ذوالفقار علی بھٹو ہی تھے۔ انہوں نے مشرقی پاکستان کے مسلمانوں کی آوازوں کو نظر انداز کیا اور ان کو سیاسی بوجھ جانا۔ پاکستان کی قسمت میں تقسیم لکھی تھی جو ٹالنی مشکل تھی۔ وہ وقت بھی بیت گیا۔ مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں کے سیاسی لوگوں نے 1973ءمیں ایک آئین بنا ہی لیا۔ اس آئین کی تیاری میں جمہوری روایت کو ضروری بھی خیال نہیں کیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو ایک جمہوریت پرست جاگیردار تھے۔ اس وقت کی اسمبلی میں جاگیردار قابض تھے اورجاگیردار اورسرمایہ دار کسی بھی زمانہ میں جمہوریت کی گاڑی کو چلنے نہیں دیتے اور اس وقت کی اسمبلی بھی ایسی ہی خرافات کی وجہ سے اپنی حیثیت منوانے میں ناکامی کا شکار ہے۔

پاکستان ستر سال گزرنے کے بعد بھی معاشی اور سماجی انتشار کا شکار ہے۔ ملک کو شدید دہشت گردی کا سامنا ہے۔ پاکستان پر قرضوں کا بوجھ اس کی آزادی کو مشکوک بھی بنا رہا ہے۔ اب ساری قوم دعا مانگتی نظر آتی ہے۔ دہشت اور وحشت کا دور ختم ہونے میں نہیں آرہا۔ میں ایسے میں دعا مانگتا ہوں:

میں بھکاری ہو داتا
مجھے امن کی بھیک دے
یہ زمین میرا کشکول ہے
میں بھکاری ہوں داتا
مجھے امن کی بھیک دے
میری نسل انساں ہے

میں بھکاری ہوں داتا خدارا مجھے امن کی بھیک دے۔ مایوس اور مجبور لوگ فقط دعا مانگ سکتے ہیں۔ اگرچہ امت پر عجیب وقت پڑا ہے!
مجھے سابق وزیراعظم نوازشریف پر ترس آتا ہے۔ وہ کیوں اتنے پریشان ہیں۔ ربّ نے ان کو اپنی تمام نعمتوں سے مسلسل نوازا ہوا ہے۔ وزیراعظم کا عہدہ کوئی نعمت نہیں اوریہ تو جمہوریت کا ایک معمولی پرزہ ہے۔ جو ہر وزیر اور وزیراعظم کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور وہ اس سے ہی جمہوری کل پرزوں کی جانچ کرتا ہے اور پیچ کستا ہے۔ آپ کو اگریقین ہے کہ آپ نے غلط نہیں کیا اورآپ سے غلط نہیں ہوا تو خوف اور خطرہ کیسا۔ آپ کو اپنی صفائی بہادری سے دینی ہوگی اور جمہوریت کی وجہ سے ہی آپ کی جماعت کا ا یک شخص آپ کی جگہ وزیراعظم بنا ہے۔ آپ کو تو اس کی مشاورت کرنی چاہیے اور اس کندھا نہ دیں۔ یہ وقت مسلم لیگ (نواز گروپ) کے لیے بھی مقابلے اور محاسبے کا ہے۔

آپ کے پرانے حلیف اوراب کے حریف سابق صدر آصف علی زرداری جمہوریت کی کشتی کو کنارے لگانے آگئے ہیں۔ وہ آپ کی تکلیف کو زیادہ محسوس کرسکتے ہیں۔ اگرچہ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ آپ سے مایوس ہیں ایسے دعوے صرف جمہوریت میں ہی ہوسکتے ہیں۔ ان کوآپ کی اب زیادہ ضرورت ہے۔ وہ بھی آئین سے زیادہ خوش نہیں ہیں۔ ہاں اس پرسودے بازی ہوگی اورآج کل جمہوریت میں یہ ضروری بھی ہے۔ میاں صاحب مایوسی گناہ ہے۔ آپ بالکل مایوس نہ ہوں۔ زرداری صاحب واحد سیاست دان ہیں جو مسائل کوحل کرنے کے لیے وعدہ کرنا جانتے ہیں ہاں وعدہ پورا کرنا ان کے لیے لازم نہیں۔ مگران کی مدد سے آپ اس بحرانی کیفیت سے کل سکتے ہیں۔

آپ بلاول زرداری سے تو سیاسی مفامت نہیں کرسکتے۔ وہ بے نظیر کا سپوت ہے۔ اس میں سندھی اوربلوچی خون ہے۔ مگر زرداری صاحب تو صاحب زر ہیں۔ انہوں نے ایک عرصہ تک اپنی پارٹی میں جمہوریت رکھی اوران کو صدرکا عہدہ بھی جمہوریت کے کارن مل سکا۔ ان کی کوششوں اورترکیب خاص کے بعد ہی آپ وزیراعظم بن سکے۔ انہوں نے سیاست کے ذریعے صدارت کا وقت مکمل کیا۔ وہ غیر جمہوری مزاج کے ہر دل عزیز جمہوری رہنما ہیں۔ ان کے ساتھ آپ کو آسانی ہی مل سکے گی۔ آپ کے وزیر خارجہ خواجہ آصف بعض خاندانی رشتوں کی وجہ سے آصف علی زرداری کے قریبی ہونے کا دعویٰ بھی کرتے رہے ہیں۔ ان کی وجہ سے آپ کو زرداری صاحب سے بات کرنے میں مشکل بھی نہ ہوگی اور مسلم لیگ کسی بڑی تقسیم سے بچ سکتی ہے۔

ہمارے ایک دوست کا کہنا تھا کہ پارٹی ختم ہوچکی ہے۔ مگر نئے حالات میں یہ پارٹی تو زیادہ عرصہ چلتی نظر آرہی ہے۔ آپ کی شکوہ اور شکایت سے عوام بھی مایوس ہوسکتے ہیں۔ آپ کو اپنا مقدمہ خود لڑنا ہے۔ اس ہی عدلیہ پر انحصار کرنا ہوگا۔ عدلیہ کے بارے میں رائے دینا مناسب نہیں۔ اس وقت دہشت گردی کی جنگ میں آپ کا مثبت کردار بہت ہی اہم ہوسکتا ہے اورآپ کو اپنے پری وار کی وجہ سے اپنی زیادہ حفاظت کرنا ہوگی۔ یہ مشکل وقت ضرور ہے مگر اتنا بھی مشکل نہیں۔ جو ربّ کی نعمتیں آپ کو اس ملک کے دیگر لوگوں کے مقابلے پر مل رہی ہیں، ان پر شکرادا کریں۔ گنج بخش آپ سے خوش نہیں آپ سوچیں کہ ایسا کیوں ہوا ہے۔ ستر سالوں کے بعد نظام اورسیاست دونوں ہی ناکام نظرآتے ہیں۔ قوم کی تربیت میں خرابی ہے۔ درست کرنے کا وقت گزر رہا ہے۔ درستگی ممکن ہے۔ اس وقت،

بندگی افضل ہے۔ مگر ہم سب ”فریب بندگی دے کر“

جسے معبود کہتے ہو اسے تسخیر کرتے ہو۔
اس ہی قید میں رہ کر اسے زنجیر کرتے ہو
کبھی تم نے سوچا ہے نہیں تم نے نہیں سوچا
اسے تم نے نہیں سوچا۔ “

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).