سپریم کورٹ کے لئے اقلیتوں کی شادی بھی دہشت گردی ہے


اگر ملک کی اعلی ترین عدالت کی اقلیتوں سے واضح دشمنی کی مثال سامنے آئے تو اس کا کیا مطلب ہے؟ اگر کسی ملک میں انصاف فراہم کرنے والا سب سے بڑا ادارہ بھی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والوں کو فسطائی انداز میں نشانہ بنائے گا تو وہ انصاف کہاں سے پائیں گے؟ کیا اقلیتی مذہب و مسلک سے تعلق رکھنے کا یہ مطلب ہے کہ کسی شہری کو انسان نہ سمجھا جائے، آئینی ادارے اس کے بنیادی انسانی حقوق دینے سے انکار کر دیں، اقلیتوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھیں، ان کا جینا حرام کر دیں اور ان کا نام تک اپنی پوتر زبان پر نہ لائیں؟

اقلیت دشمنی کی یہ بھیانک مثال قائم کرتے ہوئے بھارت کے سپریم کورٹ نے مسلمان نوجوانوں کے ساتھ ہندو لڑکیوں کے شادی کرنے کے معاملے پر شدید ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے ان شادیوں کی تحقیقات انسداد دہشت گردی کے ادارے سے کروانے کا حکم دیا ہے۔

بھارتی میڈیا کے مطابق بھارتی سپریم کورٹ نے کیرالہ سے تعلق رکھنے والی نومسلم لڑکی کی مسلمان نوجوان سے شادی کی منسوخی کے خلاف دائر اپیل کی سماعت کی۔ معزز جج حضرات کو اس انکشاف سے شدید دھچکا پہنچا کہ ادھر پوتر بھارت ورش میں اکثریتی مذہب ہندو مت کی چنچل کنیائیں اقلیتی مذہب اسلام کے نوجوانوں پر لٹو ہو رہی ہیں۔ سپریم کورٹ کے معزز جج حضرات نے بجرنگ دل اور ہمنواؤں کی ”لو جہاد“ کے متعلق پریشانی کو برحق جانا اور ہندو لڑکیوں کے اسلام قبول کر کے مسلمان نوجوانوں سے شادی کرنے کے رجحان پر شدید تشویش ظاہر کرتے ہوئے معاملے کی تحقیقات نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) سے کروانے کا حکم جاری کر دیا اور کہا کہ تحقیقات کی جائیں کہ کیا مسلمان نوجوان ہندو لڑکیوں کو مسلمان کرکے انہیں دہشت گرد بنا رہے ہیں۔ این آئی اے کے وکیل نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ بھارت میں اپنے والدین سے بدظن نوجوان ہندو خواتین کو پیار کے جال میں پھنسا کر مسلمان کرکے ان سے شادیاں کی جارہی ہیں۔

مسلمان جوڑے کے وکیل نے استدعا کی کہ لڑکی نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا ہے اور اس کا بیان سنا جائے مگر سپریم کورٹ نے استدعا مسترد کرتے ہوئے لڑکی کا بیان سننے سے انکار کر دیا۔ ججوں نے کہا کہ کسی بھی شخص کو اس کی مرضی سے کوئی خطرناک کام کرنے پر آمادہ کرنا آسان ہوتا ہے۔

پس منظر اس کیس کا یہ ہے کہ کیرالہ سے تعلق رکھنے والی 24 سالہ کنیا آخیلا اشوکاں نے اسلام قبول کر کے مسلمان نوجوان شفیع جہاں سے شادی کر لی۔ آخیلا کے پتا جی نے شادی کی تنسیخ کا مقدمہ کر دیا۔ کیرالہ ہائی کورٹ نے شادی منسوخ کرتے ہوئے فیصلہ سنایا کہ یہ ”لو جہاد“ کا کیس ہے۔ ہندو انتہا پسندوں نے ”لو جہاد“ کی اصطلاح ایجاد کی ہے جس کا مطلب وہ یہ بتاتے ہیں کہ ایک سازش کے تحت مہان بھارت میں ہندو اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی خاطر مسلمان نوجوان ہندو لڑکیوں کو پیار کے جال میں پھنسا کر ان سے شادی رچا لیتے ہیں۔

کیا اب ہم بھارتی سپریم کورٹ سے یہ توقع بھی رکھیں کہ انتہا پسند مذہبی جنونیوں کی قیادت اس کے جج حضرات کریں گے؟ کیا سپریم کورٹ اب شدھی کی تحریک چلائے گا؟ شدھی کی تحریک کو بی جے پی کے جنونی “گھر واپسی” کا نام دیتے ہیں اور مطلب اس کا یہ ہے کہ اقلیتی مذاہب کے افراد کا مذہب تبدیل کر کے ان کو اکثریتی مذہب کا پیروکار بنا دیا جائے۔ اس مقصد کے لئے وہ لالچ سے لے کر دہشت گردی اور خوف کے ہتھیار تک ہر حربہ استعمال کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

کسی بھی ملک میں سپریم کورٹ آئین اور قانون کا پاسبان ہوتا ہے۔ تمام شہریوں کو برابر سمجھنا اور انہیں بنیادی انسانی حقوق فراہم کرنے کی آخری ذمہ داری سپریم کورٹ پر آتی ہے۔ اگر سپریم کورٹ خود جنونیت کی راہ پر چل پڑے تو کیا وہ انصاف کر پائے گا؟ اگر سپریم کورٹ کے جج اقلیتی مذاہب سے تعلق رکھنے والوں سے بیزاری کا اظہار کریں تو کیا وہ انصاف فراہم کر پائیں گے؟ بھارتی سپریم کورٹ کو ان باتوں پر غور کرنا چاہیے۔

کیا بھارت یہ بات تسلیم کر رہا ہے کہ وہ تمام شہریوں کو برابر نہیں سمجھتا؟ وہ انسانوں میں رنگ، نسل اور عقیدے کی بنیاد پر تفریق کا قائل ہے؟ کیا ادھر قانون کی نگاہ میں بھی کچھ شہری برہمن اور کچھ اچھوت قرار پائے ہیں؟ کیا بھارت اب ان اقلیتی شہریوں کے بالائے قانون قتل کی قانونی طور پر اجازت دینے لگا ہے؟ کیا اب اقلیتی بستیوں پر مذہبی جنونیوں کے حملوں کو شہ دی جائے گی؟ کسی ملک کو تباہی و بربادی کے گڑھے میں گرانے کے لئے یہ عوامل کافی ہیں۔ گو بھارت پاکستان کا ازلی دشمن ہے مگر بدقسمتی سے اس میں اتنے ہی مسلمان آباد ہیں جتنے پاکستان میں رہتے ہیں اور وہی اقلیتوں کے خلاف ریاستی مذہبی دہشت گردی کا سب سے بڑا نشانہ بن رہے ہیں۔

بھارت کے ہر شعبہ زندگی میں جنونیت سرائیت کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ اقلیتی مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کو جس طرح اکثریتی مذہب ہندو مت سے تعلق رکھنے والا ہجوم قتل کر رہا ہے وہ ایک خوفناک امر ہے۔ سکھ، مسیحی اور مسلمان جس طرح نشانہ بن رہے ہیں وہ قابل افسوس ہے۔ وہ گائے تو دور کی بات ہے، مرغی کا گوشت کھانے پر بھی بے دردی سے قتل کیے جا سکتے ہیں۔ سڑک پر نکلیں تو کوئی پتہ نہیں چلتا کہ زندہ گھر واپس پہنچیں گے بھی یا نہیں۔ اب اس مذہبی جنونیت میں بھارتی سپریم کورٹ کے ججوں کے شامل ہو جانے پر وہ ہمیں جس گروہ سے متعلق دکھائی دیتے ہیں، اس کا نام لینا بھی ہم گوارا نہیں کرتے ہیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar