جمہوریت کے سو برس (دوسرا حصہ)


\"wajahat\"جمہوری تصورات کے ارتقا اور جمہوریت کے عملی اطلاق کی تاریخ میں دل چسپ فرق پایا جاتا ہے۔ یورپ میں علوم کا احیا سولھویں اور سترھویں صدی میں ہوا۔ اٹھارھویں اور انیسویں صدی میں دنیا دریافت سے ایجاد کے عہد میں داخل ہوئی ۔ اس عہد کی اہم ترین ایجادات میں چھاپہ خانہ، آبی توانائی (کپڑا بننے کی لوم ) ، دخانی توانائی (بھاپ سے چلنے والا ریلوے انجن) اور برقی توانائی (بجلی) کو شمار کیا جاتا ہے۔ ان عہد آفریں ایجادات کے صنعتوں میں ظہور سے پیداواری ڈھانچو ں، ، فکری سانچوں اور معاشرتی تعلقات کی نئی صورتیں سامنے آنے لگیں۔ روزگار کی نئی صورتوں سے نئے معاشی طبقات پیدا ہوئے تو حکمرانی کے طور طریقوں پر سوالات اٹھنے لگے ۔ دریافت اور ایجاد کے دوراہے سے علم کے نئے آفاق نمودار ہوئے تو قدیم اخلاقی اقدار پر بھی ازسرِ نو غور و فکر شروع ہوا ۔

1688ءمیں برطانیہ میں آئینی بادشاہت قائم ہوئی اور اس کے ٹھیک سو برس بعد فرانس میں انقلاب برپا ہوا۔ عین اس وقت بحیرہ اوقیانوس کے اُس پار امریکا میں انسانی تاریخ کا پہلا باضابطہ جمہوری دستور تشکیل دیا جا رہا تھا۔ تھامس پین اپنی تحریروں سے نسلِ انسانی کو حریت کا درس دے رہا تھا۔ جرمنی میں کانٹ اور ہیگل فلسفہ اور فکر کو نئی جہتیں بخش رہے تھے۔ برطانیہ میں ہیوم اور لاک نے جمہوریت کے بنیادی اصولوں اور مفروضات پر تاسیسی کام کیا، رود بار انگلستان کے پار فرانس میں روسو، والٹیر، دیدرو اور مانٹیس کیو اپنی تحریروں سے انسانی فکر اور عوامی شعور میں انقلاب برپا کر رہے تھے۔ فکرِ انسانی کے خمیر میں انسان دوست اور جمہوری عناصر کی آمیزش کی جا رہی تھی۔ انیسویں صدی کے آخر تک جمہوریت کے فکری خدوخال اور مفروضات بہت حد تک واضح شکل اختیار کر چکے تھے تاہم کرئہ ارض پر جمہوریت کی عملی صورت گری کا خواب اپنی تکمیل سے بہت دور تھا۔

1901-1910

\"1900\"بیسویں صدی شروع ہوئی تو افریقا، ایشیا اور لاطینی امریکا کے وسیع خطے نو آبادیاتی استحصال کے چنگل میں گرفتار تھے۔ براعظم یورپ کے بیشتر حصوں پر مطلق العنان بادشاہت یا شخصی حکومتوں کا چلن تھا۔ 1908 میں سویڈن سے آزادی کے بعد ناروے نے بھی بادشاہت قائم کر لی۔ ترکی سے آزادی کے بعد البانیہ نے بھی یہی راستہ اختیار کیا۔

اس دہائی کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ گذشتہ دوصدیوں میں ارتقا پانے والے فلسفیانہ افکار عوام تک پہنچ رہے تھے۔ چنانچہ ہر جگہ عوام اور محکوم طبقات میں آزادی ، مساوات اور معیار زندگی میں بہتری کے لیے بے پناہ جوش و خروش پایا جاتا تھا ۔ جمہوریت کی اقداراور جمہوری طرزِ حکومت کے عملی پہلو بڑی حد تک واضح ہوچکے تھے۔ تاہم جمہوری طرزِ حکومت کا کوئی کامیاب عملی نمونہ موجود نہیں تھا۔

سیاسی ڈھانچوں کے ارتقا اور معاشی ومعاشرتی تبدیلیوں میں گہرا تعلق پایا جاتا ہے۔ جہاںتک معاشی ترقی کا سوال ہے بیسویں صدی کے ابتدائی برسوں میں گذشتہ صدی کی حیران کن سائنسی ایجادت اور دریافتوں کے باعث ترقی کا اکہرا تصور پایا جاتا تھا۔ یہ سادہ لوح خیال عام تھا کہ انسانی علوم و فنون اپنے انتہائی عروج کو پہنچ چکے ہیں۔ بہترین انسانی معاشرے کا نمونہ حاصل کیا جاچکا ہے۔ آئندہ انسانی ارتقا کا راستہ ہموار ہوگا۔ یہ تصور انسانی معاشرے کی پیچیدگی کو نظرانداز کرنے کے علاوہ انسانی امکان کے بے پناہ تنوع اور وسعت پر عدم اعتماد بھی ظاہر کرتا تھا۔ مثال کے طور پہ شہری منصوبہ بندی کے ماہرین موٹرکار کو محض ایک عجوبہ سمجھتے تھے اور یہ ماننے پر تیار نہیں تھے کہ مستقبل قریب میں گھوڑا گاڑی کا استعمال متروک ہوجائے گے۔ حربی امور کے اعلیٰ ترین اساتذہ جنگ میں ہوائی جہاز کی اہمیت کو سمجھنے سے قاصر تھے۔ ترقی اور جدت کے اس محدود تصورکا سیاسی پہلو یہ تھا کہ جمہوریت کو ایک پیچیدہ سیاسی نظام کی بجائے گویا بجلی کا بلب قسم کی کوئی چیز سمجھا جاتا تھا جس کا کھٹکا دبانے سے پک جھپکتے میں روشنی ہوجائے۔ اس سے ایک طرف تو جمہوریت پسندوں کو فوری نتائج کی عدم موجودگی میں مایوسی ہوتی تھی دوسری طرف جمہوریت دُشمن عناصر کو جمہوریت کی ابتدائی ناکامیابیوں کو دلیل بناکر جمہوری تصورات کو لتاڑنے کا موقع ملتا تھا۔

اس عشرے میں دُنیا بھر میں بیک وقت جمہوری، اشتراکی اور نراجی تصورات مقبول ہورہے تھے۔ رجعت پرست طبقہ ان تمام فکری تحریکوں میںکوئی فرق کیے بغیر انہیں یکساں طور پر استبداد اور استحصالی نظام کے لیے خطرناک سمجھتا تھا۔ چنانچہ مراعات یافتہ طبقات جمہوریت کے خلاف پراپیگنڈے اور گٹھ جوڑ کی ایک وسیع مہم کا حصہ تھے۔

پورے یورپ میں سوائے برطانیہ کی آئینی بادشاہت کے کہیں بھی جوابدہ جمہوری حکومت کا وجود نہیں تھا۔ برطانیہ میں بھی دارالعوام کے لیے حقِ رائے دہی میں حسب نسب ، جنس، جائیداد اور تعلیمی حیثیت کی بنیاد پر امتیازات موجود تھے۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت تھی کہ برطانیہ کے نوآبادیاتی مقبوضات دیگر تمام نو آبادیاتی ریاستوں سے زیادہ تھے ۔ صنعتی طور پر ترقی یافتہ امریکا میں رنگ کی بنیاد پر بدترین امتیازی سلوک موجود تھا ۔ عورتوں اور سیاہ فام شہریوں کو حقِ رائے دہی حاصل نہیں تھا۔ دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ بیسویں صدی کے آغاز پر سوائے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے ، دنیا میں کہیں بھی مکمل بالغ رائے دہی اور جمہوری حکومت کا مثالی نمونہ موجود نہیں تھا۔

1911-1920

\"1910\"1914ءتک براعظم یورپ میں صرف تین جمہوریتیں موجود تھیں ۔یعنی فرانس ، سویٹزرلینڈ اور پرتگال۔ جہاں تک ریاستی بندوبست کے خدوخال کا تعلق ہے انیسویں صدی سے بیسویں صدی کی پہلی دہائی تک عالمی سطح پر تین قابل ذکر رجحانات پائے جاتے تھے ۔

-1 ریاستی تنظیم سے آزاد علاقوں کو قومی ریاستوں کے دائرہ کار میں لانا۔ بیسویں صدی کے آغاز پر دنیا بھر میں صرف صحرائے عرب کے کچھ ایسے حصے باقی رہ گئے تھے جو کسی ریاستی نظم کے پابند نہیں تھے جہاں لوگ خانہ بدوش طرز کی زندگی گزارتے تھے اور جو کسی قومی ریاست کا حصہ نہیں تھے۔

-2 طاقت ور ریاستوں کی طرف سے کم زور مگر آزاد ریاستوں کو اپنا حصہ بنا لینا مثلاً زارِ روس نے وسط ایشیائی ریاستوں کو روس کا حصہ بنا لیا۔

-3 چھوٹی ریاستوں کا مِل جُل کر ایک بڑی ریاست تشکیل دینا مثلاً جنوبی یورپ میں بہت سی چھوٹی چھوٹی ریاستوں کے انضمام سے اٹلی کا قیام اور شمالی یورپ میں جرمنی کا اتحاد۔

ان تینوں رجحانات کے نتیجے میں ریاستوںکی مجموعی تعداد میں قابل ذکر کمی واقع ہوئی۔

بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں پرانا عالمی نظام گویا زلزلوں کی زد میں رہا۔ تعلیم کے فروغ ، کسی قدر خوش حالی نیز ذرائع پیداوار میں وسعت اور معیشت کے ابھرتے ہوئے رجحانات نے قدیم سیاسی ڈھانچوں میں دراڑیں ڈالنا شروع کر دیں۔ 1910ءمیں پرتگال میں بادشاہت کا خاتمہ ہوا ۔ چینی بادشاہت انسانی تاریخ میں کسی خطے پر مسلسل حکمرانی کا قدیم ترین ادارہ تھا۔ 1911ءمیں چین میں بادشاہت ختم ہوئی۔ 1917میں زارِ روس کو تخت سے دست بردار ہونا پڑا۔ 1918میں جرمنی اور آسٹریا میں بادشاہت ختم ہو گئی۔ ترکی میں عثمانیہ خاندان کی حکومت رسمی طور پر 1923تک جاری رہی۔ تاہم حقیقی معنوں میں پہلی عالمی جنگ ترک بادشاہت کے لیے بھی نقارئہ کوچ ثابت ہوئی۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد دھویں کے بادل صاف ہوئے تو معلوم ہوا کہ دنیا کے نقشے سے چار مضبوط ترین بادشاہتوں کا خاتمہ ہو چکا تھا۔

پہلی عالمی جنگ ایک سیاسی قتل سے شروع ہوئی تھی اور متحارب فریق مختلف مقاصد کے ساتھ اس جنگ میں شریک ہوئے تھے۔ کسی کو عالمی منڈیوں پر اجارہ درکار تھاتو کوئی نو آبادیاتی نظام کا تحفظ چاہتا تھا۔ کسی کو جمہوریت کا فروغ عزیز تھا تو کسی کو نئے جنگی ہتھیاروں کی آزمایش مطلوب تھی۔ امریکا اس جنگ کے اختتامی مرحلے میں میدان میں اُترا تھا۔ امریکی صدر ولسن نے عالمی جنگ کو جمہوریت کے فروغ کا ذریعہ قرار دیا۔ عالمی طاقتیں خاص طور پر فاتح اقوام پہلی عالمی جنگ کے تاریخی، سیاسی، معاشرتی اور معاشی عواقب سمجھنے میں ناکام رہیں۔ عالمی جنگ میں کامیابی کو جدید سیاسی و معاشی حقائق نیز بدلتے ہوئے عالمی تناظر میں سمجھنے کی بجائے ازکار رفتہ جنگی اصطلاحات میں پرکھا گیا۔ جنگ میں فتح کو گویا اپنے قومی دعووں اور ہنگامی نعروں کی کامیابی گردانا گیا۔ شکست خوردہ ملکوں پر بھاری تاوانِ جنگ عائد کیا گیا ۔ان کے حصے بخرے کرنے کے علاوہ انہیں معاشی اور سماجی طور پر کمزور کرنے کی کوشش کی گئی۔ ان ہتھکنڈوں سے مفتوح ممالک میں پیدا ہونے والا غم و غصّہ دوسری عالمی جنگ پر منتج ہوا۔

اس پورے عشرے میں دنیا کا نقشہ اُتھل پتھل کا شکار رہا۔ انسانی معاشرہ بادشاہت، تحکم اور مطلق العنانی کے تاریک غاروں سے نکل کر لرزیدہ قدموں کے ساتھ نئی   پگڈنڈیوں کی طرف بڑھ رہا تھا تاہم بے داغ سبزے کی بہار اور رواں پانیوں کے چشمے ابھی کچھ دور تھے۔

(جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments