ہمیں مولوی ڈراتے ہیں


جب ایک بچے کی عمر دوسال کے قریب ہوجاتی ہے تو عموماً گھر والے اُسے ڈرانا شروع کردیتے ہیں۔ کیونکہ اس عمر میں بچہ شرارتیں شروع کردیتا ہے۔ اُسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اچھا کیا ہے اور برا کیا ہے۔ وہ سانپ کو بھی ہاتھ میں پکڑتا ہے اور وہ آگ میں بھی ہاتھ ڈال لیتا ہے، اسے گند کا بھی پتہ نہیں ہوتاکہ یہ کھانا میرے لئے فائدہ مند ہے یہ نقصان دہ۔ وہ ہر چیز کو ہاتھ میں لے کر اُسے منہ میں ڈالتا ہے۔ اور تب سے گھر والے خاص کر ماں کی جانب سے اسے ڈانٹ شروع ہوجاتی ہے۔ اور ماں جو بچے سے زیادہ محبت کرتی ہے۔

وہ اپنے بچے کو غلط کام کرنے پر مارنے سے بھی دریغ نہیں کرتی جس کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ بچہ مستقبل میں وہ کام نہ کرے جو اُس کے لئے خطرے کا باعث ہو مگر بچہ پھر بھی باز نہیں آتا تو اسے کہا جاتا ہے کہ یہ کام مت کرو ورنہ بابا، پاپا، ڈیڈی، آبو کو بتا دوں گی۔ جس سے بچہ سہم جاتا ہے کیونکہ اُس نے ماں کی مار دیکھی ہوتی ہے اور وہ سوچنے لگتا ہے کہ اگر ماں ایسے مارتی ہے تو باپ کس طرح مارتا ہوگا۔ پھر ڈر پختہ ہوجاتا ہے، اور ایک وقت آتا ہے کہ بچہ باپ سے بھی نہیں ڈرتا پھر دادا جان سے ڈرایا جاتا ہے مگر دادا جان بھی اُسے اپنا ہی لگتا ہے جس سے ڈرنا اُس کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتا

پھر ایک وقت اتا ہے جب سکول یا مدرسے جانے کی ابتدا ہوتی ہے، تو ماں کے ہاتھوں میں ایک اور ہتھیار ہاتھ آجاتا ہے وہ بچوں کو استاد یا مولوی صاحب سے ڈرانے لگتی ہے جس میی کبھی کبھار باپ بھی شامل ہوتا ہے۔ مولوی صاحب کی جس انداز میں منظر کشائی کی جاتی ہے۔ وہ دنیا کا سب سے خطرناک شخص ہوتا ہے جس کے سینے میں دل نہیں بلکہ پتھر ہوتا ہے۔ اور استاد سے زیادہ بچہ مولوی سے ڈرنے لگتا ہے۔

مجھے بھی گھر میی مولوی کے نام سے ڈرایا گیا اگر دیکھیں تو یہ صرف میرے ساتھ نہیں ہوا بلکہ ہر بچے کے ساتھ ہوتا ہے کہ وہ مولوی سے ڈرنے لگتا ہے۔ سکول میی ہم اتنا انگلش کے ٹیچر سے نہیں ڈرتے تھے جتنا ڈر ہمیی اسلامیات کے ٹیچر سے لگتا تھا۔ اُس کی کلاس میی حاضری بھی لگتی اور اسی ڈر کے باعث سارے کلمے ازبر ہوتے۔ اُسی کی بدولت کوئی نماز قضا نہیی ہوتی تھی حتی کہ بعض اوقات ہمارے دوست بغیر وضو کے بھی نماز پڑھ لیتے تھے۔

جب بڑے ہوتے گئے اسلامی مسائل سے سامنا ہوا۔ تو مولوی صاحبان اور مفتی صاحبان سے پالا پڑا۔ جمعہ کے خطبات میی جو دوزخ کی منظر کشی کی جانے لگی تو خود کو بس دوزخ ہی میی تصور کرنے لگے کہ ہم تو اس قابل ہی نہیں کہ جنت کا راستہ دیکھیں کہ ہمارے اعمال اس لائق نہیں ہیں۔ آج بھی جمعہ کے خطبے سے جب بھی واپسی ہوتی ہے ایک لرزہ طاری ہوتا ہے۔ اب تو ماشاء اللہ سے مولوی صاحبان بھی خود رو پودوں کی طرح اُگ گئے ہیں جن کو ہم نام نہاد مولوی کہہ سکتے ہیں جو کہ خطرہ ایمان ہیں ان صاحبان کی اب سوشل میڈیا پرجھڑپیں دیکھتا ہوں تو سوچ میی پڑ جاتا ہوں کہ یہ سب کیا ہے یہ صاحبان ایک دوسرے کی باتوں کو غلط ثابت کرنے میی لگے ہوئے ہیں۔ مولوی صاحبان آن لائن فتاوی جاری کر رہے ہیں کہ فلاں چیز حرام ہے اور فلاں نہیں۔

مولانا فضل الرحمان صاحب خود کے لوگوں کے لئے فوٹوز کو جائز قرار دیتے ہیں تو دوسروں کے لئے اسے ناجائز قرار دے رہے ہیں۔ فیس بک کے استعمال کو خود کے لئے اچھا دوسروں کے لئے برا کہا جاتا ہے۔ ابھی حال ہی میی لڈو سٹار جو کہ آن لائن لڈو ہے کے بارے میی فتوی آگیا کہ یہ حرام ہے کسی نے اسے ایک گیم سے تشبیح دی کہ حضور صلعم کے دور میں لوگ وہ گیم کھیلتے تھے تو اسے حرام قرار دیا گیا۔ اور لڈو بھی اسی طرح حرام ہے۔ کچھ نے کہا کہ ہر وہ چیز جو وقت ضائع کرے وہ حرام ہے۔ مولوی صاحبان نے اسلام اور دین کو اتنا سخت بنا دیا ہے کہ ڈر ہے کہ جاتا ہی نہیں۔

غامدی صاحب کے فالوورز کو فتنہ غامدیت کہا جاتا ہے تو شیعہ کو کافر۔ ایک فرقہ خود کو 73واں فرقہ قرار دے رہا ہے کہ ہم راہ پر ہیں۔ مولوی صاحبان خود ایک لائن پر نہیی ہیں بس عام لوگوں کو ڈرانے میی لگے ہوئے ہیی اور سب ڈرتے ہیی کہ ایسی کوئی بات زبان سے نہ نکلے ورنہ فتوی تو مولوی صاحبان کے جیب میی پڑے ہوتے ہیں۔ خدا ان مولوی صاحبان کو ہدایت نصیب کرے اور ہمیں دین پر چلنے کی ہدایت دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).