جنس محض رات کی بات نہیں


میں خود کو ادیب نہیں سمجھتی اور نہ مجھے سیاسی و معاشرتی مسائل پر گرفت کا دعویٰ ہے۔  لیکن پچھلے ہفتہ نیوز فیڈ میں جناب وجاہت مسعود کی ایک تحریر نے مجھے جکڑ لیا۔ میں نے بظاہر اس سادہ سی تحریر کو کئی بار پڑھا ۔۔پھر اس کو اپنی ٹائم لائن پر دوستوں کے ساتھ شیئر کیا۔۔۔

عنوان تھا

کچھ جنسی معاملات کے بارے میں

 حسب توقع چند دوستوں کے سوا کسی نے اس بحث میں حصہ نہیں لیا۔

میں خود چند دنوں سے سوچ رہی تھی کہ اپنے بڑے بیٹے کو (جو کہ خود اعلی تعلیم  یافتہ ہے۔) کس طرح سے سے تعلیم دوں ۔۔ کہ زندگی میں شریک انسان کے ساتھ کیسا سلوک کیا جائے، کیا رویہ اختیار کیا جائے۔ ضروری معاملات پر کیسے بات کی جائے۔

ایک عورت ہونے کے ناطے ۔۔ اپنے بیٹے کو کیسے بتاؤں کہ ایک عورت کیا چاہتی ہے؟

وجاہت مسعود نے بہت ہے عمدہ مثالوں سے اپنی بات گوش گزار کی لیکن میرا خیال ہے ایک بڑا طبقہ بات کی گہرائی تک نہیں پہنچ سکا۔

1987 سے  2000 تک ایک ٹی وی سیریز ٹیلی ویژن پر راج کرتی رہی۔ اس کا مرکزی کردار انسپکٹر مورس میرا پسنددیدہ ترین کردار تھا۔ انسپکٹر مورس کے بنیادی خدوخال یہ تھے کہ اچھی موسیقی سنتا تھا، آب جو کا ذوق بہت عمدہ تھا اور یہ کہ جرم کو گویا ہوا میں سونگھ لیتا تھا۔ مجھے انسپکٹر مورس اور اس طرح کے کچھ اور کردار بہت پرکشش لگتے تھے۔ آج تک سوچ میں ہوں کہ اس میں حقیقی کشش کس پہلو سے پیدا ہوئی تھی۔

دلچسپ بات یہ کہ یہ کردار ایک نوجوان اداکار نہیں۔۔ بلکہ سفید بالوں والے جان تھاہ مرحوم کا ہے۔ ان کی ٹانگ میں بھی لنگ تھا۔ پھر ایسی کیا بات تھی؟

بات ان کی شخصیت کی تھی۔۔۔ ان کے مضبوط کردار کی۔۔۔ اور ان کے موسیقی کے رچے ہوئے علم کی ۔۔۔ وہ خواتین کے لئے بڑھ کر کار کا دروازہ کھولتے  تھے۔ وہ ڈائننگ ٹیبل پر خاتون کی کرسی کے پاس کھڑے ہو کر ان کو بیٹھنے کے لئے کہتے تھے۔ وہ دوستوں کے دوست تھے مگر نہایت انصاف پسند۔۔۔۔ ایسی ان گنت باتیں تھیں جو مجھے اس کردار کا دیوانہ بناتی تھیں۔

ایسی جنس میں کبھی آسودگی نہیں مل سکتی جو صرف ایک لمحاتی آسودگی  کے حصول کو نظر میں رکھے ۔

جنس محض رات کی بات نہیں۔۔۔ اس کا تعلق روزمرہ کے رویوں سے ہے ۔ میرا خیال ہے ۔۔ اور ارد گرد کی بہت سی خواتین سے بات  چیت سے مجھے علم ہوا ہے۔۔۔ کہ کسی بھی ذہین خاتوں کو آپ صرف جنسی فعل سے آسودہ نہیں کر سکتے۔ جو مرد شادی کی رات کو کمرے میں گھستے ہی خود کو عورت کے اندر گھسیڑ دیتا ہے وہ ساری زندگی کے لئے اس عورت سے محروم رہ جاتا ہے۔

یہ زندگی کا اہم حصہ ہے۔ اسے کیسے بروئے کار لانا ہے۔ یہ تعلیم حاصل کرنا ضروری ہے۔

میں ایسی بہت سی خواتین کو جانتی ہوں جو شادی شدہ ہونے کے باوجود ایک  غیر شادی شدہ زندگی گزار رہی ہیں۔

میرا خیال بہت سے مرد حضرات اس آئینے خود اپنا چہرہ دیکھ سکتے ہیں ۔ اگر اپ دن کا ماحول جہنم بنائیں گے تو داخلی مسرت کی توقع کیسے کر سکیں گے۔ اس بات کی خواہش جو زندگی کو خواب کا حصہ بنا دے؟

یہ بہت وسیح مضمون ہے۔ کھانے کی میز پر اگر آپ کھانے کا بہترین حصہ اپنی پلیٹ میں بھر لیں اور پھر رات گئے زندگی کی ساتھی سے جنسی آسودگی حاصل کرنے کی خواہش  بھی پالیں۔۔۔ ان حالات میں رات کی بات کا مذکور ہی کیا۔۔۔۔ خدا معلوم یہ کس دنیا کی باتیں ہیں؟ اگر آپ کے بستر کی شریک ایسی جنسی سرگرمی میں دلچسپی نہ لے تو اسے کیسے الزام دیا جائے؟

مرزا غالب میری زندگی کا اوڑھنا بچھونا ہیں۔ میں وہ شعر پڑھ کر داد داد دیے بغیر نہ رہ سکی جس کا حوالہ وجاہت مسعود نے دیا ہے۔۔۔

 زور وہ اور ہے، پاتا ہے بدن جس سے نمو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).