رزاق پوستی سے روتھ فاؤ تک


کچھ لوگوں کو تصویر میں رہنے کا فن آتا ہے۔ جیسے رزاق پوستی۔ محلے کی کوئی شادی، عقیقہ، ختنہ، موت، کارنر میٹنگ ایسی نہ تھی جس کی کوئی تصویر ہو اور اس میں رزاق پوستی کی منڈی نہ ابھری ہو۔ اللہ جانے اس کا نام پوستی کیسے پڑا حالانکہ تصویر کھچھوانے کے اعتبار سے وہ چیتا تھا۔
مشہور تھا کہ اگر آپ اپنے کمرے کے دروازے، کھڑکیوں اور روشندان کو کالی ٹیپ سے سیل کر کے فیملی گروپ فوٹو بنوائیں تو جب فوٹو دھل کے آئے گا تو اس میں رزاق پوستی بھی دائیں بائیں یا درمیان میں ہوگا۔

رزاق پوستی مجھے یوں یاد آیا کہ آپ ٹی وی پر کوئی بھی پریس کانفرنس یا کسی بھی لیڈر کا خطاب دیکھیں۔ کچھ لوگ ہمیشہ سپاٹ چہرے لئے پیچھے کھڑے ہوں گے۔ کوئی نہیں جانتا کہ وہ کون ہیں، نام کیا ہے، عہدہ کیا ہے، روزگار کیا ہے یا پریس کانفرنس کرنے والے وزیر، افسر یا تقریر کرنے والے عالم، سیاستداں یا وزیرِ اعلی و وزیرِ اعظم سے کیا تعلق ہے۔

رزاق پوستیوں کی ایک نسل سیلفی کی ایجاد نے پیدا کی اور اس کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ کسی بھی تقریب میں یہ نسل بکثرت پائی جاتی ہے اور عقاب کی نگاہ رکھتی ہے کہ کن کن کے ساتھ زیادہ لوگ سیلفی بنا رہے ہیں۔ اور پھر سب لپک پڑتے ہیں۔ کئی تو سیلفی بنانے کے بعد یہ بھی پوچھ لیتے ہیں سر آپ کا نام کیا ہے، آپ کیا کرتے ہیں؟

کئی لاعلم بھولے سیلفی بنانے کے بعد خاموشی سے نکل جانے کے بجائے منہ کھولنے کے سبب پکڑے جاتے ہیں۔ مثلاً ایک پختہ عمر کے صاحب نے سیلفی بنانے کے بعد کہا ’سر میں آپ کو باقاعدگی سے پڑھتا ہوں آپ بہت اچھا لکھتے ہیں۔ ‘ میں نے جواباً شکریہ کہا۔ سر آپ کی دو کتابیں تو کمال ہیں شیر دریا اور جرنیلی سڑک۔ میں نے کہا بھائی یہ دونوں کتابیں رضا علی عابدی کی ہیں۔ اوہو ہو اچھا تو آپ رضا علی عابدی نہیں ہیں۔ سوری۔ ایک منٹ سر۔ مجھے بھی کچھ شک ہو رہا تھا۔ بالکل یاد آ گیا۔ آپ ڈیفینٹیلی محمد حنیف ہیں۔ ہیں ناں سر۔

ایک نسل وہ بھی ہے جو تصویر بازی پر نہیں خبربازی پر زندہ ہے۔ مگر ڈیجیٹل میڈیا اور سیلفی کے سیلاب میں یہ نسل بقائی خطرے سے دوچار ہے۔ ایک صاحب کو میں جانتا ہوں جو کسی چھوٹی موٹی فلاحی انجمن کے سرپرست، صدر، سیکرٹری اور خزانچی ہیں۔ ان کی فلاحیت سنگل کالم خبر میں ہی نمایاں ہوتی ہے۔ وہ تب سے خبریں لگوا رہے ہیں جس زمانے میں سفینہ حجاج سے سعودی عرب جانے والے حاجیوں کو کیماڑی پر الوداع کہنے والوں کی تصویری خبریں چھپتی تھیں۔

ان صاحب کی آخری تصویری خبر میں نے پرسوں ہی ایک اخبار کے صفحہ دو پر دیکھی ’ممتاز سماجی کارکن مسٹر فلاں فلاں شاہراہِ فیصل پر ایک فلائی اوور میں پڑنے والے شگاف کا معائنہ کرتے ہوئے۔ ‘
یہ نہ سمجھیے گا کہ ریاست اس خبرناک سیلفیانہ مرض میں مبتلا نہیں۔ ریاست بھی تصویر کھچوانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی۔ بھاشا ڈیم کا پرویز مشرف سے نواز شریف تک ہر حکمران سنگِ بنیاد رکھ چکا ہے۔

ایدھی زندگی بھر ون مین آرمی بنا رہا، ڈاکٹر روتھ فاؤ ریاستی تعاون سے بے نیاز جذامیوں کی تعداد کم کرتی رہیں مگر دونوں کی آخری تصویر میں ریاست بھی دائیں سے بائیں تیسرے نمایاں ہے۔
روتھ فاؤ والی تصویر میں حکومتِ سندھ کچھ دبی دبی سے نظر آ رہی تھی لہذا اس نے حساب برابر کرنے کے لیے سول اسپتال کراچی کا نام ڈاکٹر روتھ فاؤ سول ہسپتال رکھنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا اور خود ہی بھول گئی کہ دو برس پہلے سندھ اسمبلی نے اسی سول اسپتال کا نام ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کے نام پر رکھنے کی متفقہ قرار داد منظور کی تھی کیونکہ اسی ہسپتال کے ایک وارڈ سے ادیب صاحب نے اپنی فلاحی جدوجہد شروع کی تھی۔
چلو خیر ہے۔ ادیب صاحب ماشا اللہ حیات ہیں۔ وقت آنے پر لیاری جنرل ہسپتال کو ان کے نام کردیں گے۔ ایک اور تصویر ہو جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).