جنس کا متلاشی رانگ نمبر یا پھر سچا عاشق؟


اس سوال پر کان اتنے زیادہ کھڑے ہو جاتے ہیں کہ انہیں باقاعدہ ہاتھوں سے پکڑ کر بٹھانا پڑتا ہے۔ آپ نے بھی دیکھا ہو گا کہ اول تو یہ لفظ کوئی بول نہیں سکتا اور بھولے سے کوئی اس کا نام لے ہی بیٹھے تو لوگ اپنے دونوں کانوں کو پکڑ کر توبہ کا ورد کرتے ہیں تاکہ وہ لفظ سن کر انہیں جو گناہ ملا ہے اس کی اسی لمحے معافی مانگ لیں۔ ویسے ہمارے ہاں اس کا جو مطلب سمجھا جاتا ہے اس کے تحت تو یہ پورا عمل، شاید، بنتا بھی ہے۔

کئی ایسے معاشرے بھی ہیں جہاں اس پر کان اتنے کھڑے نہیں ہوتے۔ وہاں یہ عام سی بات ہے۔ وہاں یہ صرف خواہش بن کر دل میں نہیں رہتی بلکہ اس خواہش کو اسی زندگی میں اور خاص طور پر جوانی کے اوائل میں ہی پورا کر لیا جاتا ہے۔ اور پھر آپ جب تک اپنی زندگی میں باقاعدہ سیٹل نہیں ہو جاتے جاری رہتا ہے۔ چھپانے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ آپ کا ذاتی معاملہ ہے اور پھر آپ عورت ہیں ہیں یا مرد، دونوں کے لیے بات برابر ہے۔ سیٹل ہونے سے یاد آیا کہ وہ لوگ، یعنی مردوں سمیت، ایک خاص عمر میں، سیٹل بہر حال ہو ہی جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں مردوں کی ایک بھاری اکثریت ساری زندگی سیٹل نہیں ہو پاتی اور اسی کی تاک میں رہتے ہیں۔ پاکستان اور یورپ دونوں جگہوں پر باقاعدہ زندگی گذارنے کے تجربے کے بعد میرا یہ ذاتی مشاہدہ ہے کہ ایکسٹرا میریٹل ریلیشنشپ یعنی شادی کے ساتھ ساتھ لوو افئیرز کی جو عیاشی پاکستان میں حاصل ہے یورپ والے اس کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے۔

بہرحال موضوع پر واپس آتے ہیں۔ تقریبا ہر دوسری چیز کی طرح اس کی بھی کچھ خوبیاں ہوتی ہیں اور کچھ مسائل بھی ہو سکتے ہیں۔ انہی خوبیوں اور مسائل پر وہ لوگ بات بھی کرتے رہتے ہیں تاکہ اس کے مضر اثرات کو کم کیا جا سکے۔ ایسے معاشروں کے لوگ اس سلسلے میں دلچسپ باتیں بھی سوچتے اور لکھتے رہتے ہیں۔ اس سے لوگوں کی رہنمائی بھی ہو جاتی ہے اور کسی حد تک میڈیا کا پاپی پیٹ بھی بھرتا رہتا ہے۔

میں وضاحت کرتا چلوں کہ ان معاشروں میں اور ہم میں بنیادی فرق تو اس کے جائز یا ناجائز ہونے کا ہے۔ ورنہ یہ ہوتا تو ہر جگہ ہی ہے۔ لیکن اسے ”چھپانے“ کی مجبوری سے اس کی ساری ہیئت اور سارا سٹائل ہی بدل جاتا ہے۔ مثلا جہاں یہ جائز یا تقریبا جائز ہے وہاں اس کا سلسلہ عام طور پر ریسٹورنٹ یا کافی ہاؤس سے شروع ہوتا ہے اور فطری نتائج کو فالو کرتے ہوئے وہیں ختم ہو سکتا ہے یا کسی زیادہ پرائیویٹ جگہ تک جا سکتا ہے۔ یا اس سے بھی آگے یعنی پوری زندگی کے بندھن میں بھی بدل سکتا ہے۔ لیکن جہاں اس پر سخت پابندی ہے اور ساتھ میں غربت بھی ہے تو وہاں یہ کماد یا جھاڑیوں کے درمیان چھپ کے شروع ہوتا اور وہیں ختم ہو جاتا ہے۔

خیر ہم بات کر رہے تھے اس سلسلے میں عام طور پر دی جانے والی رہنمائی کی۔ گارڈین اخبار نے ایک بلاگ شائع کیا اور اس میں سترہ سوال دیے کہ جن پر پہلی ڈیٹ کے دوران بات ہو سکتی ہے تاکہ دونوں فریق ایک دوسرے کو بہتر طور پر سمجھ سکیں اور مستقبل قریب کے لئے کسی فیصلے پر پہنچ سکیں۔ ان سوالوں میں سیکس پر کوئی سوال نہیں ہے کیونکہ پہلی ملاقات میں یہ بات کرنا معیوب لگتا ہے۔ وہ سترہ سوالات ہمارے لیے کوئی خاص دلچسپی کے حامل نہیں ہیں۔ ہاں البتہ پاکستانی لڑکیوں کے لیے کچھ اور باتیں زیادہ دلچسپ اور اہم ہو سکتی ہیں۔

سب سے پہلی بات لڑکیوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستانی لڑکے کے لیے یہ ایک گیم سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ اور اگر ایک گیم سے زیادہ کچھ ہے تو وہ فتح کا احساس ہے۔ یعنی ہم پاکستان لڑکے برابری کی بنیاد پر لڑکی سے دوستی اور محبت نہیں کرتے بلکہ لڑکی ”پھنساتے“ ہیں۔ میں نے سنا ہے کہ آج کل کالج یا یونیورسٹی کے لڑکے عام زبان میں ”لوو افیر“ کرنے کو کہتے ہیں کہ ”بچی ڈاؤن“ کی ہے۔ لہذا اگر کوئی لڑکا ایک سے زیادہ لڑکیاں ”پھنسانے“ کی کوشش میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس کے دوست کہیں گے کہ فلاں لڑکے نے ”بڑی بچیاں ڈاؤن“ کی ہوئی ہیں۔ یہ اہم بات ہے اور اس حقیقت سے ہماری بچیوں کو واقف ہونا چاہیے۔

لیکن صرف یہی بات ٹھیک نہیں ہے۔ پاکستان میں معقول لڑکوں کی تعداد بھی کافی ہے۔ جو حقیقتا عزت دیتے ہیں اور قابل اعتبار ہوتے ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ آپ کیسے جان پائیں گے کہ کون سا لڑکا معقول ہے اور اس کی پروپوزل برابری، حقیقی جذبات اور باہمی احترام پر مبنی ہے یا کون سا لڑکا معقول نہیں ہے اور وہ لڑکی کو ایک جنسی سمبل سمجھ کر صرف ”ڈاؤن“ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

تو ملین ڈالر سوال یہ رہا! کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے آپ لڑکے سے پوچھیں کہ وہ اپنی بہن کے بارے میں کیا سوچتا ہے۔ اگر وہ اپنی بہن کو اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کا وہ حق نہیں دیتا ہے جو وہ خود استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ ایسا کرنے سے اس کے خاندان کی بے عزتی ہو جائے گی تو اس کا مطلب ہے کہ وہ رانگ نمبر ہے اور آپ کی بھی بے عزتی کر رہا ہے، آپ کو صرف ”ڈاؤن“ کر رہا ہے۔ وہ اپنے اور اپنی بہن کے لیے دوہرے معیار رکھتا ہے۔ اس کی تربیت میں اچھی خاصی کمی رہ گئی ہے اور ایسا شخص اعتبار کے قابل ہر گز نہیں ہے۔

اگر وہ کہتا ہے کہ اس کی بہن کو بھی اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کا ویسا ہی حق ہے جیسا خود اسے ہے تو پھر وہ اپنے اور اپنے بہن کے لیے دوہرے معیار نہیں رکھتا۔ وہ قابل اعتبار ہو سکتا ہے۔ کیا وہ اس سوال کا جواب دینے میں سچ بول رہا ہے یا نہیں اس بات کو آپ نے خود ٹیسٹ کرنا ہے۔ صورت حال کے مطابق کچھ ذیلی سوالات بھی پوچھے جا سکتے ہیں۔ وہ سوالات کیس ٹو کیس مختلف ہوں گے لہذا آپ نے خود ہی ان سوالوں کے بارے میں سوچنا ہے۔

ظاہر ہے کہ یہ ساری بحث صرف اس مراعات یافتہ طبقے کے لیے ہے جنہیں کسی معقول جگہ پر بیٹھنے اور بات چیت کرنے کے مواقع میسر ہیں۔ ہماری آبادی کا ایک بڑا حصہ جو بے پناہ غربت میں پھنسا ہوا ہے اس کے لئے یہ ساری بحث بیکار ہے۔ صرف یہی نہیں ان کے لیے تو جنسی صحت کی تعلیم بھی کسی کام کی نہیں۔ کماد یا جھاڑیوں میں حفاظتی تدابیر یا سامان کون لے کر جاتا ہے۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik