راجہ صاحب شرط ہار گئے


بات یہ ہے کہ راجہ صاحب کو اپنی عزت کا بہت خیال رہتا ہے۔ کرپشن سے بوجوہ دور رہتے ہیں۔ جو شخص دوستوں کے ساتھ گھنٹوں خوش گپیاں کرے، خوش ذائقہ خوراک کی تلاش میں شہر کے دوسرے سرے تک پہنچے، بھلے دوپہر کا کھانا شام ڈھلے نصیب ہو۔ ایسا شخص کرپشن نہیں کرسکتا۔ کچھ کینہ پرور سسرالی عزیزوں کا خیال ہے کہ راجہ صاحب ابتدا ہی سے بزدل چلے آ رہے ہیں۔ راجہ صاحب کی اہلیہ عفت بانو اس خیال کی پرزور تردید کرتی ہیں۔ راجہ صاحب کے خلاف کی جانے والی یہ واحد غیبت ہے جس سے عفت بانو کو کوفت ہوتی ہے۔ سبب اس کا اللہ بہتر جانتا ہے۔ ربا میرے حال دا محرم توں۔۔۔۔

شہر کے ایک بارونق حصے میں مسجد اور جنرل اسٹور سے مناسب فاصلے پر ایک چار منزلہ عمارت کھڑی ہے۔ صاف ستھری تعمیر ہے۔ باہر مودب چوکیدار بیٹھا ہے۔ پارکنگ کا اچھا بندوبست ہے۔ بچوں کے کھیلنے کودنے کا پارک چند قدم کے فاصلے پر ہے۔ اس عمارت میں بہت سے کنبے آباد ہیں۔ دوسری منزل پر نفاست سے آراستہ ایک گوشہ عافیت راجہ صاحب کی ملکیت ہے۔ دو ذہیں گول گپا نما بچے اس میں ہنستے کھیلتے نظر آتے ہیں۔ بیچ میں ٹیلی ویژن دیکھنے اور سیاست پر کج بحثی کے لئے جو وسیع و عریض جگہ ہے، وہیں ایک آرام دہ صوفے پر عفت بانو رونق دیتی ہیں۔ بچوں سے انگریزی میں بات ہوتی ہے، ٹیلی فون پر اردو میں رس گھولتی ہیں۔ جب راجہ صاحب کی کارستانیوں پر جی جل اٹھے تو باروچی خانے سے سویرا بی بی کو بزبان پنجابی پکار لیتی ہیں۔

سویرا بی بی نے کہنے کو باورچی خانہ سنبھال رکھا ہے۔ حقیقت میں عفت بانو کے دکھ سکھ کی ساتھی ہیں۔ زیتون کے تیل کی شیشی پلنگ کے پاس رکھی ہے۔ مہاگنی کی لکڑی سے بنے بھاری بھر کم تولیہ دان سے ایک ڈھیلا ڈھالا گاؤن لٹک رہا ہے۔ سفید پس منظر میں ہلکے سبز پھول ٹکے ہیں۔ عفت بانو کا دل زیادہ گھبرائے تو پرتکلف لباس ایک طرف ڈال کر جھبڑ جھالاگاؤن پہن لیتی ہیں۔ راجہ صاحب اس لباس کو چغل خور قرار دیتے ہیں۔ زیتون کے تیل کی اجنبی مہک سارے میں پھیل جاتی ہے۔ دروازہ بند کر لیا جاتا ہے۔ سویرا بی بی اور عفت بانو گھنٹوں اس نیم تاریک کمرے میں دل کے پھپھولے پھوڑا کرتی ہیں۔ بنیادی موضوع یہی کہ راجہ صاحب ڈھنگ سے پیسہ نہیں کماتے۔ خاندان میں ناک کٹ رہی ہے۔ عزیز رشتہ داروں کے ہاں کسی تقریب سے جانا ہو تو ایک ہی منحوس لباس بار بار پہننے کا دکھ اٹھانا پڑتا ہے۔ اگر راجہ صاحب کو زندگی میں یہی خاک اڑانا تھی تو سیروں وزنی کتابیں کیوں پڑھیں۔ نشست گاہ کی دیوار پر درجنوں ڈگریاں جہاں تہاں ٹانگ رکھی ہیں۔ کسی ہمسائی کی آنکھ بھر آئے تو دوا تجویز نہیں کر سکتے۔ کسی بچے کا گھٹنہ پھوٹ جائے تو عینک ناک پر رکھ کر فلسفہ بگھارتے ہیں کہ اللہ بہتر کرے گا۔

راجہ صاحب کو اپنی عزت پیاری ہے۔ دل ہی دل میں منصوبے بناتے ہیں کہ چار پیسے کمانے کی کچھ ایسی سبیل نکل آئے کہ عزت بھی قائم رہے۔ عزت بچا کر پیسہ کمانے کا خواب راجہ صاحب ہی دیکھ سکتے ہیں۔ پیسہ کمانے کا یہ نسخہ مجرب ہوتا تو دنیا میں کوئی سیانا غریب نہ ہوتا۔

مہر النسا ڈھلتی عمر کی قبول صورت بیوہ ہیں۔ چند مہینے قبل سامنے کے گھر میں منتقل ہوئی ہیں۔ کوئی بال بچہ نہیں۔ اطلاع ہے کہ کوئی دو برس پہلے مہر النسا کا میاں اس علاقے میں جہاد کرتا مارا گیا تھا جہاں آڑھے ٹیرھے پہاڑوں میں معلوم نہیں ہوتا کہ کہاں پاکستان ختم ہوتا اور افغانستان شروع ہو جاتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ملا شہباز مومند شہید ہو گیا تو ایک رات دو نیک سیرت نوجوانوں نے دروازہ کھٹکھٹا کر مہر النسا کو لمبی رقم پہنچائی تھی۔ یہ گھر اسی دولت سے خریدا گیا ہے۔ حاسدوں کا حساب روز قیامت ہو گا۔ ان کی زبان کوئی نہیں روک سکتا۔ یہاں تک زبان درازی کرتے ہیں کہ راجہ صاحب کے معلوم مالی وسائل سے ایسا خوبصورت گھر خریدنا ممکن نہیں تھا۔ آپ بتائیے کہ کسی کے رہن سہن اور قابل ٹیکس آمدنی میں کوئی تعلق ڈھونڈنا کہاں کی شرافت ہے؟

گھر سے باہر بکائن کے دو چھتنار پیڑ کھڑے ہیں۔ اکثر دیکھا گیا کہ راجہ صاحب نے دھلا دھلایا لباس پہن رکھا ہے۔ بدیسی پرفیوم کی خوشبو سے گلی مہک رہی ہے۔ گورے گورے پیروں میں کالی چپل بہار دے رہی ہے۔ مہنگے سیگرٹ کے مرغولے اڑاتے ہوئے تادیر مہر النسا سے مسکوٹ ہوا کرتی ہے۔ اس افتاد پر عفت بانو پریشان ہیں۔ اکثر فرماتی ہیں کہ بخت ماری کے دن اچھے ہیں۔ چار بول پڑھوا لے، کہیں منہ کالا کرے۔ میرے میاں پر ڈورے کیوں ڈالتی ہے۔ اسے خبر نہیں کہ میرے میاں صاحب کو گرمی بہت لگتی ہے۔ سویرا بی بی نے سمجھایا کہ راجہ صاحب تو منہ زبانی آدمی ہیں۔ مہر النسا کے دیدوں کا پانی کیسا ہی ڈھل جائے مگر ان تلوں میں تیل نہیں۔ بدنصیب کو ڈھنگ سے جوتا پہننا تک نہیں آتا۔ اللہ رکھے راجہ صاحب بندہ بشر ہیں۔ مگر عفت آپا، مہرالنسا والا معاملہ صاف ہے۔ دونوں مل کر کچھ اور ہی ہنڈ کلھیا پکا رہے ہیں۔ ایسی ویسی بات نہیں۔ جاننا چاہپے کہ کل ملا کے چاہتے کیا ہیں دو سیانے۔۔۔

اب ادھر کی سنیے۔ مہر النسا نے راجہ صاحب کو بتایا کہ چار پیسے کمانا ہیں تو خالد محمود سے بات کر لیں۔ خالد محمود نے موبائل فون کی دکان کھول رکھی ہے۔ پچھواڑے میں دو بڑے مکان کرائے پر لے کر ورزش کرنے اور اچھی شام گزارنے کا بندوبست کر رکھا ہے۔ سامنے کے کمروں میں بڑی اسکرین والے ٹیلی ویژن پر کھیلوں کے مختلف مقابلے مسلسل دکھائے جاتے ہیں۔ پردے کا انتظام ہے۔ محلے کی لڑکیاں وہیں ایک بڑے کمرے میں سکواش کھیلتی ہیں۔ پائیں باغ میں باسکٹ بال کا میدان جمایا جاتا ہے۔ نوجوان لڑکے نیکر پہنے ہاکی سے گیند ڈربل کرتے گزر جاتے ہیں۔ کوئی کسی کو آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا۔ پرانے صوفے پر جاوید پہلوان آنکھیں موندے بیٹھے ہیں۔

میچ پر شرطوں کا حساب جاوید پہلوان رکھتے ہیں۔ روپے پیسے کا حتمی لین دین خالد محمود طے کرتے ہیں۔ اگر راجہ صاحب ڈھنگ سے شرط بدنا سیکھ لیں تو چار پیسے بنانا مشکل نہیں۔ مہر النسا کو اگلے میچوں کی سب تفصیلات معلوم ہیں۔ عقل اور صبر سے کام لیا جائے تو چند ہزار روپے کو لاکھوں اور لاکھوں کو کروڑوں کے ہندسے میں پھیلانے کا کام چند ہفتے میں ہو سکتا ہے۔ راجہ صاحب تو پڑھے لکھے آدمی ہیں۔ ومبلڈن میں عورتوں کے سنگل اور ڈبل مقابلے انہماک سے دیکھتے ہیں۔ اس میں کرنا کیا ہے، آبنوس سے تراشی ہوئی صحت کی مورت سرینا ولیمز چار گرہ کپڑے کی تہمت لگائے ٹیلی ویژن پر اچھل رہی ہے۔ خدا نے سب کو آنکھیں دی ہیں۔ راجہ صاحب بھی آنکھ کا قرض ادا کرتے ہیں تو کیا برائی ہے۔ مگر یہ کہ ۔۔۔ فون اٹھا کر خالد محمود کو بتا دیں کہ ایک ڈبی یا ڈبا یا تھیلی ان کی طرف سے لکھ لی جائے۔ ڈبی میں پچاس ہزار روپے ہوتے ہیں۔ ڈبے میں ایک لاکھ شمار ہوتے ہیں اور تھیلی میں دس لاکھ۔

راجہ صاحب کو ان دنوں ایک خاص ذریعے سے 50 ہزار روپے ملنے کی امید تھی۔ بھرے میں آ گئے۔ کرکٹ میچ پر خالد محمود کو ایک ڈبی کا بول دے دیا۔ کرکٹ پورا لباس پہن کر کھیلی جاتی ہے۔ ایسے کھیلوں میں راجہ صاحب چنداں دلچسپی نہیں لیتے مگر دھندے کا معاملہ تھا۔ ٹی وی کے سامنے ڈٹ گئے۔ کچھ دیر ڈبی کو ڈبا بنتے دیکھا۔ پھر اندازہ ہوا کہ ڈبا گول ہو رہا ہے۔ خالد محمود سے ملنا ضروری ہو گیا۔ راجہ صاحب نے فون اٹھایا۔ فون کو ایمرجنسی میں توانائی دینے والا آلہ بھی جیب میں رکھ لیا۔ اس آلے کو فون سے جوڑنے والی تار کسی عادی دیانت دار کی تسبیح کی طرح ہاتھ میں جھول رہی تھی۔ ہانپتے ہوئے خالد محمود کی دکان پر پہنچے۔ دکان پر بیٹھے لمڈے نے بتایا کہ خالد محمود جم کے کمرہ نمبر تین میں براجمان ہیں۔ راجہ صاحب نے غڑاپ سے دروازہ کھولا اور جھنجھلائے ہوئے بھینسے کی طرح اپنے ہی زور میں اندر گھستے چلے گئے۔ وہاں باسکٹ بال کھیلنے والی لڑکیاں لباس تبدیل کر رہی تھیں۔ راجہ صاحب نے بازی بگڑتی دیکھ لی، انگریزی میں معذرت کی۔۔۔ الٹے پاؤں پھرنا چاہا، غلط کمرے میں گھس گئے تھے۔ جاوید پہلوان کہیں آس پاس ہو سکتا تھا۔ عینک اتار کر ہاتھ میں پکڑ لی۔ کوئی پوچھے تو عذر کیا جائے کہ صاحب عینک ہاتھ میں ہے، اپنی ناک سے آگے نہیں دیکھ سکتا۔ محلے کی بچیوں کو تاڑنے کی نیت نہیں تھی۔ خبیث خالد محمود کو ڈھونڈ رہا ہوں۔ شرط بد چکا ہوں۔ میچ کی حالت خراب ہے۔

ہڑبراہٹ میں دروازے سے نکلے، برامدے میں چند قدم پر عفت بانو کھڑی راجہ صاحب کو گھور رہی تھیں۔ ہم جانتے ہیں کہ راجہ صاحب کو عزت پیاری ہے۔ ایسی بے غیرتی کے مکان میں راجہ صاحب کا داخل ہونا مناسب نہیں تھا۔ سویرا بی بی نے عفت بانو کو بتایا تو گھبراہٹ میں اصل بات معلوم کرنے یہاں تک آئی تھیں۔ عفت بانو کو راجہ صاحب  سے، وہ کیا کہتے ہیں، محبت بہت ہے۔ لاکھ کمائیں یا خاک اڑائیں، عفت بانو راجہ صاحب کے سب خانہ خراب کھاتوں سے آگاہ ہیں۔ عفت بانو آس پاس موجود ہوں تو راجہ صاحب کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ رونگٹے وہ مہین مہین بال ہیں جو ایک خاص عمر کے بعد بغیر اطلاع کے ہاتھ پاؤں پر نمودار ہو جاتے ہیں۔ راجہ صاحب نے مری ہوئی آواز میں عفت بانو کو بتایا کہ میچ کی خبر اچھی نہیں۔ پچاس ہزار روپیہ داؤ پر لگ چکا۔ مشکل یہ کہ پچاس ہزار روپے تو ابھی وصول ہی نہیں ہوئے۔ اس حرام خور خالد محمود کو ڈھونڈنے آیا ہوں۔ اگر اس وقت کچھ رقم کی الٹی شرط بد لیں تو حساب برابر ہو سکتا ہے۔ عفت بانو نری تعلیم یافتہ نہیں، معاملہ فہم بھی ہیں اور یہ کہ راجہ صاحب سے محبت بھی ہے۔ سربازار اپنے قدیمی نمک خوار کی بے عزتی نہیں کرتیں۔ غصے کو دبا کر کہا، چلو یہاں بیٹھو، فون نکالو اور بخت مارے خالد محمود کا نمبر ملاؤ۔ ایسے وہ نہیں ملے گا، 50 ہزار روپیہ داؤ پر ہے۔ رات تم سونے سے پہلے ایرکنڈیشنر بند کرنا بھول گئے، وہ رنڈوا رات بھر فضول میں روپے پھونکتا رہا۔

راجہ صاحب وہیں ایک بنچ پر بیٹھ گئے، عفت بانو مناسب فاصلے پر بیٹھیں۔ راجہ صاحب نے عینک ناک پر رکھی۔ فون نکالنے کے لیے جیب میں ہاتھ ڈالا۔ جیب سے فون کو ایمرجنسی میں توانائی پہنچانے والا آلہ برامد ہوا۔ نوجوان لڑکیوں کو ناقابل دید حالت میں پا کر راجہ صاحب نے گھبراہٹ میں الٹے سیدھے ہاتھ چلاتے ہوئے فون کہیں رکھ دیا تھا۔ فون کو توانائی پہنچانے والا آلہ موجود ہے، فون کی خبر نہیں۔ اب اس بد بخت خالد محمود سے رابطہ کیسے ہو گا۔ اتنی بڑی رقم کی شرط ہارنا معمولی بات نہیں۔ اوور پر اوور گزرتا جا رہا ہے۔ ٹیلی ویژن کی اسکرین پر تارے ناچ رہے ہیں۔ عین اس وقت کہیں سے مہر النسا نمودار ہوئیں۔ میاں بیوی کو دیکھ لیا۔ مجاہد کی بیوہ ہیں، دل میں کوئی چور نہیں۔ اپنا فون نکال کر راجہ صاحب کی طرف بڑھا دیا۔ منہ عفت بانو کی طرف موڑ رکھا تھا۔ دھیرے سے کہا، اس فون سے نمبر ملا لیں۔ راجہ صاحب کو عزت بہت پیاری ہے۔ عفت بانو ہمراہ تھیں۔ مہر النسا کے فون پر خالد محمود سے بات کرنا مناسب نہیں تھا۔ قصہ مختصر راجہ صاحب کی ٹیم میچ ہار گئی۔ راجہ صاحب شرط ہار گئے۔ عزت بچ گئی۔ غریب ہیں مگر عزت دار کہلاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).