آمریت کا پروردہ ہونا کامیابی کی ضمانت نہیں


آمریت کے دلدادہ بھلے سے کہتے رہیں کہ آمر اس ملک میں بہت مقبول رہے ہیں، حقائق اس کی تائید نہیں کرتے۔ مقبولیت کے کسی پیمانہ پر وہ پورے نہیں اترتے۔ اپنی نگرانی میں انھوں نے ریفرنڈم کرائے، جن میں ووٹر لسٹوں کا تکلف اٹھا دیا گیا، ووٹر کو ایک سے زیادہ ووٹ ڈالنے کی سہولت میسررہی، سرکاری وسائل اور مشینری کا بے محابا استعمال ہوا، اس سب کے باوجود ووٹر ٹس سے مس نہیں ہوئے، اور اتنے لوگ بھی ووٹ ڈالنے گھر سے نہیں نکلے جتنوں نے آمر کے ورود مسعود پر مبینہ طور پر مٹھائی بانٹی۔ فوجی حکمران جس منتخب وزیر اعظم کو ہٹا کر اقتدار پر ناجائز قبضہ کرتا ہے، اس کی سیاسی پارٹی نیست ونابود کرنے میں کوئی کسرنہیں چھوڑتا۔ ضیاالحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی، پیپلز پارٹی کے کارکنوں پر عرصہ حیات تنگ کیا، لیکن ہوا یہ کہ، آمرکا طیارہ بستی لال کمال گرنے کے کچھ ہی عرصہ بعد بھٹو کی بیٹی وزیر اعظم بن گئی، جس کا لاہور میں تاریخی استقبال تو مرد مومن حین حیات میں دیکھ گئے تھے۔

12 اکتوبر 1999 کو پرویز مشرف نے وزیراعظم نواز شریف کو اقتدار سے بے دخل کیا۔ جیل میں ڈالا۔ ان کو ہائی جیکر بتایا۔ سزا دلوائی۔ جلاوطن کیا۔ پارٹی میں نقب لگائی۔ اور بھی بہتیرا کچھ کیا۔ پرویزمشرف ابھی صدر ہی تھے کہ ان کی نگرانی میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں مسلم لیگ ن پنجاب میں برسراقتدار آگئی، مرکز میں دوسرے نمبر پر رہی۔ 2013 میں نواز شریف وزیر اعظم بن گئے، اور اسی وزیر اعظم ہاؤس میں انھیں گارڈ آف آنر پیش کیا گیا جہاں سے چودہ برس پہلے وہ گرفتار ہوئے تھے۔ یہ کسی فرد کی نہیں، سیاسی عمل کی جیت تھی۔ پرویز مشرف نے آل پاکستان مسلم لیگ بنائی،جس کی مقبولیت عالم پر آشکار ہے۔ باقی تین ڈکٹیٹروں کے مقابلے میں اقتدار سے ہٹنے کے بعد سب سے رسوا مشرف ہوئے، ان پر سنگین غداری کا مقدمہ چلا، جس سے مہربان ان کو صاف بچا لے گئے، بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق، دھرنوں کا بنیادی مقصد پرویز مشرف کی مشکل آسان کرنا تھا۔

پرویز مشرف ملک میں ہوں یا باہر، ان کو زبان پر قابو نہیں۔ اقتدار سے ہٹنے کے بعد سے رواں ہے اور اب تک بولے چلے جا رہے ہیں۔ آٹھ سال پہلے ممتاز ادیب انتظار حسین نے کالم میں لکھا تھا :

’’ پر آشوب زمانوں میں لوگ زیادہ بولنے لگتے ہیں۔ جیسے آج کل ہو رہا ہے کہ جنھیں بالکل نہیں بولنا چاہیے وہ سب سے بڑھ کر بول رہے ہیں۔ ہمیں سب سے بڑھ کر حیرت ہوتی ہے اس وقت جب پرویز مشرف بیان دیتے ہیں۔ ان سے پہلے ہماری تاریخ میں ایک ڈکٹیٹر گزرا تھا جنرل ایوب خان۔ اقتدار سے علیحدہ ہونے کے بعد اس نے ایسی چپ سادھی کہ پھر اس کے لیے بولنے کے موقعے آئے مگر اس نے زبان نہیں کھولی۔ ہمارے اس سادہ دل ناکام ڈکٹیٹر نے اس سمجھ دار ڈکٹیٹر سے کچھ بھی تو نہیں سیکھا۔ ‘‘

آمروں نے قوم کی خدمت کی ہوتی تو عوام کم از کم ان کے بیٹوں کی الیکشن میں کامیابی ہی یقینی بنا دیتے، لیکن نہیں، اس لیے انھیں اکثر صورتوں میں سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ کا محتاج ہونا پڑتا ہے۔ فیلڈ مارشل کے فرزند ارجمند گوہر ایوب، مسلم لیگ کے ٹکٹ پر منتخب ہوکر سپیکر اور وفاقی وزیر بنے۔ ضیا الحق کے بیٹے کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر وہ شہری حلقے سے ایم این اے بنتے تھے۔ مسلم لیگ ضیا بنائی تو یہ ممکن نہ رہا، دوردراز کا علاقہ چھانٹا،جہاں سے ایک مرتبہ الیکشن جیتے، دوسری بار ہارے اور تیسری بار مسلم لیگ ن کی حمایت سے کامیابی حاصل کی، سب جتنوں کے باوجود ان کو کامیاب ہونے کے لیے ذات برادری کا کارڈ کھیلنا پڑتا ہے۔ معروف کالم نویس اظہار الحق کے بقول:

’’ قدرت کا انتقام عجیب وغریب ہوتا ہے، جس شخص نے مذہب کے نام پر ملک کو دوزخ بنا دیا، اس کا فرزند مذہب کے نام پر نہیں،ایک دو افتادہ علاقے سے ذات برادری کے نام پر ووٹ لیتا ہے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہوگا اس حقیقت کا کہ مذہب کا استعمال خالص ایک سو فی صد ذاتی مفاد کے لیے تھا۔ فاعتبروا یا اُولی الأبصار! عبرت پکڑو اے آنکھ والو!‘‘

مسلم لیگ (نواز) کے موجودہ دور میں اعجاز الحق حکومت کے ساتھ ہیں یا اس کے مخالف سمجھ نہیں آتی، کبھی ہاں کبھی ناں والی صورت حال ہے۔ نواز شریف کے نااہل ہونے سے سے قبل وہ ان سے ملے اور تعاون کا یقین دلایا۔ دھرنوں میں بھی ان کا ساتھ دیا۔ لگتا ہے کہ وہ کسی خاص مقصد جو وزارت اور حلقہ کے لیے ترقیاتی فنڈز کے سوا کیا ہو سکتا ہے، اس کے چکر میں رہتے ہیں اور جب امید بر نہیں آتی تو ناراض ہوجاتے ہیں۔ ان دنوں وہ نواز شریف کے آمریت مخالف بیانات پر ٹچی ہو رہے ہیں اور فرماتے ہیں، نواز شریف یہ نہ بھولیں کہ وہ ضیا دور میں سیاسی اعتبار سے پروان چڑھے۔

اس باب میں شک نہیں کہ نواز شریف کو ضیا کی سرپرستی اور اعتماد حاصل رہا، اسی باعث وہ صوبائی وزیر خزانہ اور وزیر اعلیٰ بنے، جونیجو کی اسمبلی ٹوٹی تو ضیا کا ساتھ دیا۔ ان کا مشن پورا کرنے کا اعلان کرتے رہے۔ یہ سب اس دورکی باتیں ہیں جب نواز شریف فوج کے سہارے سیاست کر رہے تھے، رفتہ رفتہ نواز شریف نے جان لیا کہ ضیا سے ناتاجوڑنا فائدہ کے بجائے سیاسی بوجھ ہے تو انھوں نے محسن کا نام لینا چھوڑ دیا۔

غلام اسحاق خان سے لڑائی اور کاکڑ فارمولے کے تحت اقتدار سے رخصتی سے نواز شریف کے نئے سیاسی سفر کا آغازہوا۔ ضیا کے تحفہ خاص اٹھاون ٹو بی کا خاتمہ، جمعہ کے بجائے اتوار کی چھٹی ایسے اقدامات اشارہ دے رہے تھے کہ وہ روایتی سیاسی کمبل سے جان چھڑا رہے ہیں۔ ہندوستان کے ساتھ دوستی کی خواہش اور انتخابی مہم میں مذہب کا نام استعمال نہ کرنے نے جہاں انھیں ضیائی حلقے سے دور کردیا وہیں لبرل حلقوں میں ان کے لیے نرم گوشہ پیدا ہوا۔ مشرف کے اقتدارمیں آنے کے بعد وہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاستدان کے طور پراپنی پہچان بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ میثاق جمہوریت پر محترمہ بینظیر بھٹو کے ساتھ اتفاق سے بھی ان کا سیاسی رتبہ بڑھا۔ بیچ بیچ میں وہ ڈنڈی مارتے رہے، خاص طور سے کالا کوٹ پہن کر میمو گیٹ کیس میں سپریم کورٹ کے حضور ان کا پیش ہونا جمہوریت پسند حلقوں کو اچھا نہ لگا۔ اسی طرح یوسف رضا گیلانی کی نااہلی پربھی ان کا رویہ جمہوری نہیں تھا۔

نوازشریف کی سیاست میں ابتدائی کامیابیوں میں ضیا کا ہاتھ تھا، لیکن کچھ گن اور صلاحیت ان میں بھی تو ہوگی کہ وہ تین دفعہ وزیر اعظم بنے اورپہلی دفعہ دائیں بازو کی کسی جماعت نے پاپولر ووٹ بینک بنایا۔ پاکستان میں یہ پہلی مسلم لیگ ہے جس کو ووٹ بھی ملتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ نے تو اور بھی سیاسی گروہوں کو آگے بڑھایا لیکن وہ الگ سے سیاسی حیثیت قائم نہیں کرسکے۔ سامنے کی مثال چودھری برادران کی ہے، پرویز مشرف کے سائے تلے انھوں نے سیاسی قوت حاصل کی، پنجاب میں اقتدار ان کے پاس رہا، تو مرکز میں ان کی مرضی کا وزیر اعظم، پرویز مشرف کی خواہش کے باوجود ہمایوں اختر انہی کی مخالفت کے باعث وزیر اعظم نہ بن سکے۔ مشرف کی رخصتی نے مسلم لیگ ق کو کہیں کا نہ چھوڑا کیونکہ چودھری برادران نواز شریف کی طرح اپنی سیاسی عصبیت پیدا نہ کرسکے۔ عمران خان کو بھی اسٹیبلشمنٹ کی مسلسل حمایت حاصل رہی ہے لیکن فی الحال وہ وزیر اعظم بننے کی منزل سے دور ہیں، ان کی عمر بڑھ رہی ہے اور ساتھ میں فرسٹریشن بھی۔ وہ اس وقت عمر کے جس حصے میں ہیں، نواز شریف اس عمر میں تین وزیر اعظم بن گئے، محترمہ بینظیر بھٹو زندہ رہتیں تو وہ 55 برس کی عمر میں تیسری بار وزیراعظم منتخب ہو جاتیں۔

اعجاز الحق کی بات ہو رہی تھی۔ ان سے عرض ہے کہ ان کے والد کا منظور نظر ہونا سیاست میں دائمی کامیابی کا تعویذ ہوتا تو ان کو اپنی سیٹ کے لالے نہ پڑے ہوتے۔ ان کے نواز شریف کو طعنوں نے ظفر علی خان کی عبدالمجید سالک اور غلام رسول مہر سے ہونے ہونے والی صحافتی معرکہ آرائی یاد دلا دی۔ مؤخرالذکر دونوں اصحاب نے مولانا سے اختلافات کے باعث ’’ زمیندار ‘‘ چھوڑ کر’’ انقلاب ‘‘ نکالا۔ دونوں اخبارات میں ٹھن گئی۔ ایک دوسرے پر قلمی تیر برسنے لگے۔ ظفر علی خان کہتے تھے کہ مہروسالک میرے خلاف بڑھ بڑھ کر باتیں کرتے ہیں جبکہ میں نے انھیں رموز صحافت تعلیم کئے، مراد ان کی یہ تھی کہ ہماری بلی اور ہمیں میاؤں۔ مہر وسالک بھی کہاں نچلے بیٹھنے والے تھے، اینٹ کا جواب پتھر سے دیتے۔ ایک بار تو یہ کہہ ڈالا کہ اگر ہمارے صحافی ہونے کا سارا کریڈٹ مولانا کو جاتا ہے اور اس میں ہماری لیاقت کو دخل نہیں تو پھر وہ اپنے فرزند دلبند مولانا اختر علی خاں کو بھی کچھ سکھا دیتے کہ وہ اردو کی چار سطریں ہی صحیح لکھنے پر قادر ہو جاتے۔ کہنے کا مطلب یہ کہ اعجاز الحق صاحب اگر آپ کی والد کی مقبولیت حقیقتاً وجود رکھتی تو اس سے آپ ہی کچھ فائدہ اٹھا لیتے، نواز شریف میں کچھ تو ذاتی جوہر ہوگا کہ وہ ضیاء کا سہارا استعمال کر کے آگے بڑھ گئے اور آپ حقیقی اولاد ہوتے ہوئے، سیاسی یتیم ہیں، کبھی نواز شریف کے دست نگر اورکبھی مشرف کے۔

آخر میں مہر وسالک کے ’’ انقلاب ‘‘ میں مولانا ظفر علی خان کو دیا جانے والا جواب ملاحظہ ہو:

’’ تعجب ہے کہ جس ’’ استاد جہاں ‘‘ نے علامہ عمادی اور مولانا سلیم کو لکھنے پڑھنے کے قابل بنایا۔ جس نے سالک و مہر کو خاک مذلت سے اٹھا کر ادیب و اخبار نویس اور شاعر بنایا۔ جس شخص کے ’’ فیضان صحبت پر ’’ زمیندار ‘‘ کا نیا مدیر اس قدر لٹو ہو رہا ہے کہ دو مہینے کی تنخواہ نہ ملنے کے باوجود مگن ہے بلکہ جس شخص کے ایک گوشہ چشم سے شیخ محمد اقبال سیالکوٹی، ڈاکٹر شیخ سرمحمد اقبال ایم اے، پی ایچ ڈی، بیرسٹر ایٹ لا، مصنف اسرار خودی، رموز بے خودی، پیام مشرق، بانگ درا، زبور عجم بن گئے، وہ اپنے فرزند ارجمند کو 34سال کی صحبت و تربیت میں اردو کی چار صحیح سطریں لکھنا بھی نہ سکھا سکے۔ خدا جانے بیج ہی ناقص ہے یا زمین ہی شوردار ہے۔ بعض لوگ کتنے محروم القسمت ہیں کہ گھر میں گنگا بہ رہی ہے اور وہ پیاسے بیٹھے ہیں۔ ‘‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).