پرویز مشرف کی واپسی براستہ اوسلو!


پاکستان کے سابق فوجی آمر جنرل (ر) پرویز مشرف ٹیلی ویژن اسکرینوں اور اخبار کی خبروں سے نکل کر اوسلو میں طلوع ہوئے ہیں۔ ناروے میں پاکستانی تارکین وطن کی ایک تنظیم نے انہیں یوم آزادی کی ایک تقریب میں مدعو کیا ہے۔ تاہم وہ اس تقریب سے دو روز قبل ہی اوسلو تشریف لے آئے اور اپنے میزبانوں کے تعاون سے نارویجئن سیاستدانوں سے ملاقاتوں کی تگ و دو کرتے رہے۔ ہفتہ کی شام کو اوسلو میں یوم آزادی کی تقریب میں شرکت سے قبل ایک مقامی فاؤنڈیشن نے پرویز مشرف کے لیکچر کا اہتمام کیا۔ اس تقریر کے بعد بلوچ نوجوانوں کے احتجاج کے سبب سابق پاکستانی صدر کو سوال جواب کے بغیر وہاں سے جانا پڑا۔ جمعہ کی رات کو اوسلو میں قوالی کی ایک تقریب میں ان کی آمد کا اعلان کرتے ہوئے حاضرین سے پرامن رہنے اور سابق صدر کے ساتھ بدتمیزی سے پیش نہ آنے کی اپیل کی جاتی رہی۔ تاہم پرویز مشرف نے بوجوہ اس قوالی نائٹ میں شرکت کرنے سے گریز کیا۔ البتہ جمعہ کی شام کو پرویز مشرف اوسلو سٹی ہال میں میلہ اوسلو کی افتتاحی تقریب میں شرکت کےلئے پہنچے تھے جہاں وہ ناروے کی وزیراعظم ارنا سولبرگ سے ملاقات کے خواہشمند تھے۔ البتہ نامعلوم وجوہ کی بنا پر نہ تو انہیں پہلی صف میں موجود وزیراعظم ناروے کے ساتھ بیٹھنے کی دعوت دی گئی اور نہ ہی ان سے ملاقات کا اہتمام ہو سکا۔ اس کے بعد پرویز مشرف تقریب میں شرکت کئے بغیر خاموشی سے وہاں سے واپس چلے گئے۔

یہ بات فی الحال ناقابل فہم ہے کہ سابق فوجی سربراہ اچانک ناروے کے دورہ سے کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اگر وہ اس دورہ سے قومی یا بین الاقوامی سیاسی منظر نامہ میں اپنی بنیاد ربنانا چاہتے ہیں تو اس میں انہیں مکمل ناکامی ہوئی ہے۔ البتہ وہ دوسرے درجے کے بعض نارویجئن عہدیداروں سے ملنے اور مشہور شخصیات کے ساتھ تصویریں اتروانے کے شائق پاکستانی تارکین وطن کو فوٹو شوٹ کا موقع دینے میں ضرور کامیاب ہوئے۔

پرویز مشرف پاکستان کے آئین کی خلاف ورزی کرنے والے قانون اور عدالتوں کے بھگوڑے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ سابق فوجی سربراہ جنرل (ر) راحیل شریف نے پرویز مشرف سے دیرینہ ذاتی تعلقات اور ادارے کے سابق سربراہ کے طور پر ان کی حیثیت کی وجہ سے سول حکومت اور عدالتوں پر دباؤ ڈال کر انہیں ملک سے فرار ہونے کا موقع فراہم کیا تھا۔ انہیں نواز شریف حکومت کی طرف سے قائم خصوصی عدالت میں آئین سے غداری کے الزامات کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ بے نظیر بھٹو اور نواب اکبر بگٹی کے قتل کے مقدمات میں بھی وہ اشتہاری ملزم ہیں۔ بلوچ عوام انہیں بلوچستان کے مفادات کے خلاف کام کرنے کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ انہوں نے 2006 میں نواب اکبر بگٹی کے خلاف فوجی آپریشن کرنے کا حکم دیا تھا اور اعلان کیا تھا کہ ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ حالانکہ ماہرین اور سیاستدان ہمیشہ اس بات پر متفق رہے ہیں کہ بلوچستان کا مسئلہ فوجی کارروائی اور مار دھاڑ سے حل نہیں ہو سکتا بلکہ اس کےلئے مفاہمت ، سیاسی ڈائیلاگ اور بلوچ عوام کی شکایات سننے اور انہیں دور کرنے کی ضرورت تھی۔ پرویز مشرف نے نواب اکبر بگٹی کو ختم کرنے کےلئے فوجی کارروائی کا حکم دے کر فاش سیاسی اور انتظامی غلطی کی تھی۔ اس کے علاوہ وہ بلوچستان میں صوبائی خود مختاری اور صوبے کے وسائل پر مقامی آبادی کے حق کا مطالبہ کرنے والے قوم پرست کارکنوں کو لاپتہ کرنے، تشدد کرنے اور ہلاک کرنے کی حکمت عملی اختیار کر کے بلوچستان میں بے چینی، بدامنی اور وفاق سے دوری پیدا کرنے کا سبب بنے۔ پرویز مشرف کے دور میں شروع کی گئی سخت گیر حکمت عملی ہی کا نتیجہ ہے کہ بلوچستان ایک ایسا علاقہ بن چکا ہے جہاں فوج مسلسل انتظام سنبھالے ہوئے ہے۔ بھارت اپنے ایجنٹوں کے ذریعے وہاں وہی حالات پیدا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے جو پاکستان نے 80 کی دہائی میں کشمیر میں پیدا کرکے مقبوضہ خطہ کو بھارت سے علیحدہ کروانے کی کوشش کی تھی۔ بلوچستان میں امن اور مفاہمت کےلئے باہمی احترام اور سیاسی حل کی ضرورت ہے۔ فوج کی مسلسل مداخلت سے ابھی تک یہ عمل بحال نہیں ہو سکا ہے۔

2008 میں بعد از خرابی بسیار صدارت سے علیحدہ ہونے کے بعد سابق فوجی حکمران اور طاقت کے زور پر 8 برس تک برسر اقتدار رہنے والے پرویز مشرف دو برس بعد بیرون ملک روانہ ہو گئے۔ وہ دبئی اور لندن میں اپنی عالیشان املاک میں پرتعیش زندگی بسر کرتے تھے اور طالبان کے خلاف امریکی جنگ کےلئے بھرپور سہولتیں فراہم کرنے کی وجہ سے مغرب میں ان کی آؤ بھگت بھی کی گئی تھی۔ وہ چونکہ 2001 سے 2007 تک افغان جنگ کے معاملات میں ذاتی طور پر ملوث رہے تھے اس لئے امریکہ اور یورپ کے صحافی، ماہرین اور محققین ان کی رائے جاننے اور یہ سمجھنے کی خواہش رکھتے تھے کہ افغانستان میں امن بحال کرنے کےلئے کیا اقدامات ممکن ہیں۔ انہیں متعدد یونیورسٹیوں اور اداروں میں لیکچر دینے کی دعوتیں موصول ہونے لگیں اور وہ بھاری بھر کم فیس کے عوض تقریریں کرنے اور افغانستان میں فوجی کارروائی کے حوالے سے اپنے کارنامے بیان کرنے میں مصروف ہو گئے۔ لیکن پاکستان پر حکمرانی کرنے کا خواب اور خلش بدستور قائم رہی۔ اسی لئے انہوں نے فیس بک پر اپنا فین گروپ بنایا اور اس میں شامل ہونے والوں کی تعداد سے متاثر ہو کر وہ یہ سمجھنے کی غلطی کر بیٹھے کہ وہ اگر پاکستان جائیں تو سیاسی حکومت کے طریق حکومت سے تنگ آئے ہوئے لوگ جوق در جوق ان کے ساتھ آ ملیں گے۔ فوج کو وہ ہمیشہ اپنی جیب میں سمجھتے رہے ہیں۔ اس لئے ان کا خیال تھا کہ وہ دوبارہ پاکستان میں برسر اقتدار آ سکتے ہیں اور اس بار وہ فوجی طاقت کے ذریعے آئین کو روندتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کرنے کی بجائے عوام کے ووٹوں کی طاقت سے برسر اقتدار آ جائیں گے۔

ایسا تصور کرتے ہوئے اپنے بارے میں نرگسیت کا شکار پرویز مشرف یہ بھول گئے کہ ان کے دور میں اسلام آباد کی لال مسجد سے لے کر کراچی کی شاہراہوں تک اور قبائلی علاقوں سے بلوچستان کے پہاڑوں تک ظلم و ستم کی داستانیں رقم کی گئی تھیں۔ وہ یہ بھی فراموش کر بیٹھے کہ 12 مئی 2007 کو جب سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کےلئے چلائی گئی عدلیہ بحالی تحریک کو کچلنے کی کوشش میں وہ اسلام آباد میں جلسہ کر رہے تھے تو ان کی حمایت میں اور ان کی صوابدید سے کراچی میں الطاف حسین کی ایم کیو ایم نے انسانی خون ارزاں کیا تھا۔ اس روز کراچی میں عام کی گئی دہشت گردی کا صرف یہ مقصد تھا کہ پرویز مشرف اقتدار پر قبضہ بحال رکھ سکیں اور اس کی طاقت کے اظہار کے لئے ضروری سمجھا گیا کہ افتخار چوہدری کو کراچی ائر پورٹ سے باہر نہ نکلنے دیا جائے چاہے شہر کو کنٹینر لگا کر بند کرنا پڑے یا شہر کی سڑکوں کو انسانی لاشوں سے بھر دینا پڑے۔ اس بربریت کے باوجود پرویز مشرف کو انتخاب کروانے اور اقتدار منتخب نمائندوں کے حوالے کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ وقت نے یہ بھی دیکھا کہ جو چیف جسٹس، پرویز مشرف کی حکومت اور ایم کیو ایم کی دہشت کے باجوود بحال ہونے میں کامیاب ہوا، وہ اپنے تعصب ، جانبداری اور اصول قانون کے بارے میں مشکوک تصور کی بنا پر جلد ہی عوام کی نظروں سے گرگیا۔ یہ سانحہ صرف اس حقیقت کا احساس دلاتا ہے کہ سیاسی معاملات صرف افہام و تفہیم اور لوگوں کی مرضی اور رائے کے مطابق حل کرکے ہی بہتر اور قابل عمل حل تلاش کئے جا سکتے ہیں۔

ملک پر دوبارہ قبضہ کرنے کی خواہش لئے پرویز مشرف نے مارچ 2013 میں کراچی واپس آنے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت کے آرمی چیف جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی اور خفیہ اداروں نے انہیں اس ارادے سے باز رہنے اور اپنے خلاف قانونی کارروائی کے امکانات کے بارے میں متنبہ کیا لیکن پرویز مشرف کا خیال تھا کہ وہ عوامی مقبولیت کی بنیاد پر اپنے سامنے آنے والی ہر رکاوٹ کو عبور کرلیں گے۔ وہ انہی عوام کی حمایت کا یقین کئے بیٹھے تھے جن پر 8 برس کے دوران ہر قسم کا ظلم روا رکھا گیا اور جن کی ترقی و بہبود کے تمام دروازے بند کئے گئے۔ پاکستان کے مفادات کے برعکس امریکہ کے ساتھ فوجی تعاون شروع ہوا اور اسے اپنے سیاسی عزائم کےلئے استعمال کیا گیا۔ پرویز مشرف ایک طرف امریکہ سے طالبان اور القاعدہ کے دہشت گردوں کو پکڑوانے کی قیمت وصول کر رہے تھے تو دوسری طرف امریکہ پر دباؤ برقرار رکھنے کےلئے درپردہ طالبان کے بعض گروہوں کی امداد میں بھی ملوث رہے تھے۔ یہی حکمت عملی اب تک پاکستان اور امریکہ کے درمیان اختلاف اور دوریوں کا سبب بنی ہوئی ہے۔

اس کے باوجود مارچ 2013 میں پرویز مشرف پاکستان واپس آئے اور جلد ہی انہیں اندازہ ہوگیا کہ پاکستانی عوام سادہ لوح ہونے کے باوجود ان کی حکومت کے دوران کئے گئے مظالم اور غلط فیصلوں کو نہیں بھولے تھے اور نہ ہی وہ کسی ایسے شخص کو قبول کرنے میں دلچسپی رکھتے تھے جو ملک کے آئین کا احترام کرنے سے قاصر ہو۔ واپسی پر انہیں بے نظیر ، نواب اکبر بگٹی کے قتل اور لال مسجد میں ہونے والی غارت گری کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی برس نواز شریف تیسری بار ملک کے وزیراعظم بننے میں کامیاب ہو گئے اور تمام تر دباؤ کے باوجود نومبر 2007 میں آئین معطل کرنے کے الزام میں پرویز مشرف کے خلاف آئین سے غداری کے مقدمہ کی سماعت کےلئے خصوصی عدالت قائم کر دی گئی۔ فوج کی مدد سے گرفتاری سے بچنے اور کراچی و اسلام آباد میں اپنے محلات میں محدود زندگی بسر کرنے کے بعد وہ بالآخر مارچ 2016 میں یہ وعدہ کرتے ہوئے ملک سے فرار ہوئے کہ وہ ہر مقدمہ کا سامنا کریں گے۔ اور میڈیکل چیک اپ کے بعد وہ دو ہفتے میں وطن واپس آ جائیں گے۔ اس کے بعد سے پرویز مشرف دبئی میں مقیم ہیں اور قید و بند کی صعوبتوں کے خوف سے ایک مفرور ملزم کے طور پر زندگی گزار رہے ہیں۔

گزشتہ ماہ نواز شریف کے معزول ہونے کے بعد پرویز مشرف ایک بار پھر یہ سمجھنے لگے ہیں کہ اب قوم سیاستدانوں اور جمہوری عمل سے تنگ آ چکے ہیں، اس لئے وہ ملک واپس جا کر سیاسی خلا کو پورا کر سکتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ فوج اب بھی ان کی پشت پر ہے اور اب عوام بھی انہیں 2013 کی طرح مسترد نہیں کریں گے۔ تاہم یہ اندازہ کرتے ہوئے وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اب پاکستان اور دنیا مزید دس برس کا سفر طے کر چکے ہیں۔ افغانستان کی جنگ متعدد عوامل اور حالات و واقعات کے باعث نیا رخ اختیار کر چکی ہے۔ خطے میں چین اور روس کی حکمت عملی تبدیل ہوئی ہے اور ان کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد زیادہ سخت گیر حکومت برسر اقتدار ہے۔ پرویز مشرف کی معلومات فرسودہ اور پرانی ہیں۔ اسی لئے ان کے تجزیوں کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔ دہشت گردی کے حوالے سے بحث اور ان کے حل کےلئے اقدامات کی صورتحال تبدیل ہو چکی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں اب حالات کو مختلف طریقے سے دیکھا اور سمجھا جاتا ہے۔ ایران ایک بار پھر علاقائی معاملات میں اہم ہونے لگا ہے۔ اسی طرح پاکستانی فوج دو دہائی قبل کمان سنبھالنے والے جنرل کی سیاسی حرکتوں اور قلابازیوں سے عاجز آ چکی ہے۔ جب بھی کوئی آرمی چیف مقررہ مدت پر ریٹائر ہونے سے انکار کرتا ہے تو وہ سینئر آرمی جرنیلوں کی حق تلفی کا سبب بنتا ہے۔ اقتدار پر قابض رہنے کےلئے 8 برس تک فوج کی سربراہی اپنے پاس رکھنے والے پرویز مشرف کے بارے میں اب خیر سگالی کے جذبات کی وہ نوعیت نہیں ہوگی جو جنرل (ر) راحیل شریف کے دور میں موجود تھی۔

ان حالات میں پرویز مشرف نہ قومی سیاست میں کوئی کردار ادا کرنے کے قابل ہیں اور نہ بین الاقوامی سطح پر کسی دلچسپی کا باعث ہیں۔ اوسلو کے دورہ کے ذریعے اگر وہ سیاسی واپسی کا سفر طے کرنا چاہتے ہیں تو اب انہیں نوشتہ دیوار پڑھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اوسلو میں وہ کسی سیاسی شخصیت سے ملنے میں ناکام رہے۔ ایک نواحی شہر کے میئر اور اوسلو و آکرس ہس کاؤنٹی کی گورنر سے ملاقاتیں پرویز مشرف کے سیاسی عزائم کی تکمیل میں معاون نہیں ہو سکتیں۔ دبئی واپس پہنچ کر پرویز مشرف کو یہ جائزہ لینے کی کوشش کرنی چاہئے کہ انتہائی عروج دیکھنے کے بعد انہیں اوسلو میں اس بے توقیری اور ذلت کا کیوں سامنا کرنا پڑا ہے۔ اگر وہ سچ سمجھنے کے قابل ہوں تو ایک اعتراف نامہ لکھ کر مستقبل کے لیڈروں کےلئے سامان عبرت بننے کی کوشش کریں۔ اب وہ پاکستان کے لئے اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کر سکتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali