کلثوم نواز اور ڈاکٹر یاسمین راشد کی اہلیت کا تقابل


آج صبح سویرے ہی ایک تصویر نظر سے گزری۔ نواز شریف صاحب کے نا اہل ہونے کے بعد قومی اسمبلی کے حلقہ 120 کے ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کی ڈاکٹر یاسمین راشد صاحبہ کی کمپین کے اس پوسٹر میں ان کی تعلیمی قابلیت کا کلثوم نواز صاحبہ سے تقابل کیا گیا تھا۔ پوسٹر میں دیا گیا تعلیمی تقابل دیکھ کر ہم تو سوچ میں ہی پڑ گئے کہ حلقہ 120 میں عوامی نمائندے کی اسامی نکلی ہے یا دائی کی۔

ڈاکٹر صاحبہ کے متعلق بتایا گیا ہے کہ وہ پنجاب سے ایم بی بی ایس، پاکستان سے ایم سی پی ایس، برطانیہ سے ”ایف آر سی او جی“ کرنے کے بعد ماہر بچگان و زچگان بن چکی ہیں اور پروفیسری کیا کرتی ہیں۔ دوسری طرف بیگم کلثوم نواز صاحبہ کے متعلق بتایا گیا ہے کہ ان کی قابلیت یہ ہے کہ وہ میاں نواز شریف صاحب کی اہلیہ ہیں، مریم نواز صاحبہ کی اماں جان ہیں، شہباز شریف صاحب کی بھابھی ہیں اور درجنوں وزیروں کی آنٹی ہیں۔

اب اگر صرف سیاسی بنیادوں پر ان دونوں کے اس ”سی وی“ کا تقابل کیا جائے تو دیکھا جائے گا کہ اس سیاسی جاب کے لئے کون بہتر ہے۔ ایک وہ جس نے صرف ڈاکٹری کرنے کی تربیت ظاہر کی ہے یا وہ جس نے سیاسی گھرانے میں زندگی گزاری ہے اور پچھلے تیس پینتیس برس سے سیاست کے رموز سیکھ رہی ہے۔ ڈاکٹر یاسمین راشد صاحبہ کا یہ پوسٹر دیکھ کر تو یہ لگتا ہے کہ انہوں نے اسے محترمہ کلثوم نواز کے حق میں بنوایا ہے۔

چند احباب کی رائے یہ ہے کہ پڑھا لکھا شخص ایک بہتر عوامی نمائندہ ثابت ہوتا ہے اور بندہ اگر اتنا زیادہ پڑھا لکھا ہو کہ پروفیسر ہی ہو جائے تو اس کے علم کی کیا ہی بات ہے۔ بات آگے بڑھانے سے پہلے ہم ایک واقعہ سنانا پسند کریں گے۔

پرانی کتابوں میں روایت کی جاتی ہے ایک بابو نما شخص الیکشن کمپین کرتا کرتا ایک گاؤں کے نواح میں جا پہنچا جہاں ایک گڈریا بے شمار بکریاں چرا رہا تھے۔ اس بابو نے گڈریے کو اپنی قابلیت سے مرعوب کرنے کی ٹھانی اور اسے کہنے لگا کہ اگر میں تمہیں ایک منٹ میں ہی یہ بتا سکتا ہوں کہ گلے میں کتنے جانور ہیں۔ اگر میں نے صحیح بتایا تو ایک بکرا میرا، غلط بتایا تو پچاس ہزار تمہارے۔

گڈریے نے ایک منٹ سوچا اور شرط لگا لی۔ بابو نے ایک منٹ کے بعد کہا سو بکریاں ہیں۔ گڈریے نے بابو کی بات کی تصدیق کی اور پوچھا کہ اسے درست تعداد کا اتنے کم وقت میں کیسے علم ہوا؟ بابو نے بتایا کہ اس نے سب بکریوں کی ٹانگیں گنیں اور انہیں چار سے تقسیم کر کے درست جواب پایا۔ گڈریا بابو کے علم و فضل سے متاثر ہوا اور اسے ایک بکرا لینے کی اجازت دے دی۔ بابو نے ایک موٹا تازہ سا بکرا اٹھا کر اسے اپنے کاندھوں پر رکھ لیا۔

وہ چلنے لگا تو گڈریے نے اسے کہا کہ میں یہ بتا سکتا ہوں کہ تم کیا کام کرتے ہو۔ اگر میں نے ٹھیک بتایا تو یہ بکرا واپس میرا، غلط بتایا تو ایک اور تمہارا۔

بابو نے سوچا کہ یہ جاہل کیسے جان سکتا ہے کہ سینکڑوں ہزاروں پیشوں میں سے میرا کون سا ہے۔ شرط لگا لی۔ گڈریے نے کہا کہ بابو جی، تم پروفیسر ہو۔ بابو حیران ہوا اور اس نے گڈریے سے پوچھا کہ تمہیں اس بات کا کیسے علم ہوا؟ گڈریے نے فرمایا کہ پروفیسر صاحب، پہلے میرا کتا اپنے کاندھوں سے اتار کر نیچے رکھیں، پھر میں بتاتا ہوں کہ مجھے کیسے پتہ چلا کہ آپ پروفیسر ہیں۔

تو صاحبو، کہنے کا مقصد یہ ہے کہ پروفیسر اپنی فیلڈ میں تو بہت عالم ہو سکتے ہیں، مگر وہ جاہل گڈریوں کے مسائل اور جانوروں کو شناخت کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مظفر گڑھ کے لوگ ایک چٹے ان پڑھ جمشید دستی کو اپنی نمائندگی کے لئے کسی بھی ایم اے بی اے پاس پر ترجیح دیتے ہیں۔ جمشید دستی زمین سے جڑا ہوا ہے، اپنے حلقے کے لوگوں کے مسائل کو جانتا ہے، برا بھلا انہیں حل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لوگ اسے اپنے نمائندے کے طور پر دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ لوگوں کو اپنے جیسا شخص ہی اپنی نمائندگی کے لئے سوٹ کرتا ہے۔

جہاں تک یہ بات ہے کہ ڈاکٹر صاحبہ صحت کے شعبے میں مہارت رکھتی ہیں اور اس کے حساب سے قانون سازی کر سکتی ہیں، تو عرض یہ ہے کہ وہ صحت کا یہ مسودہ قانون اپنی پارٹی کے مشاورتی گروپ میں بھی پیش کر سکتی ہیں اور ادھر سے اسمبلی میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ ویسے اس دلیل کے مطابق اگر بیگم کلثوم نواز کو دیکھا جائے تو ان کا ہانڈی چولہا کرنے کا وسیع تجربہ حلقے کے عوام کے ہانڈی چولہا کرنے کے مسائل کے حل کے لئے قانون سازی کروا سکتا ہے۔ لوگوں کو روز کچن چلانے کا مسئلہ پیش آتا ہے، صحت کا نہیں۔

ووٹر کی دانش پر اپنی دانش ٹھونس کر ان پر ہم اپنی مرضی کا نمائندہ مسلط کرنے کی خواہش تو رکھ سکتے ہیں، مگر ووٹر سیانے ہیں۔ انہیں علم ہے کہ ان کے حلقے کے مسائل کو سمجھنے اور حل کرنے کی اہلیت کس میں ہے، ایک پروفیسر میں یا گڈریے میں۔

جاتے جاتے ہم پروفیسر یاسمین راشد صاحبہ کو خبردار کر دیتے ہیں کہ اگر وہ پوسٹر پر اپنی پروفیسری کا ایسے چرچا کریں گی تو کہیں ان کا کوئی پڑھا لکھا مخالف جناب مشتاق احمد یوسفی کو ان کے مقابلے پر نہ لے آئے۔ یوسفی صاحب فرما گئے ہیں کہ ”آدمی ایک دفعہ پروفیسر ہو جائے تو عمر بھر پروفیسر ہی کہلاتا ہے، خواہ بعد میں سمجھداری کی باتیں ہی کیوں نہ کرنے لگے“۔

 

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar