ذیابیطس، ثمر حیات اور ہیجان کا رجحان


 

اللہ ! اللہ! کم عمر بچوں کو پند و نصائح کا شوق فراواں ہو گیا ہے۔ یہ اس کی دین ہے جسے پرودگار دے۔ ابھی تو صاحب زادوں کے ماہ ولادت کا کچھ بقیہ حساب مقامی بقال کے بہی کھاتوں میں نکلتا ہے۔ پس گوش نمی کے آثار بدستور موجود ہیں اور تقاضا ہے کہ تولید و تناسل کے جملہ پہلوؤں پر ان کی رائے بحوالہ “مسائل غسل و فضائل جنابت” بلاچوں چرا تسلیم کی جائے۔ یہ مقدمہ تو ان کے قبلہ گاہی نہ جیت سکے۔ کار جہاں دراز ہے۔

 

ہوا کیا ہے؟ ایک آدھ تحریر عزیزم ظفر عمران نے لکھی۔ اس کے عنوان میں دانستہ “جنس” کا لفظ استعمال کیا گیا۔ متن میں اس موضوع پر سرے سے کچھ تھا ہی نہیں۔ اشتعال پیدا ہوا۔ اشتعال کا نقطہ حرارت ظاہر کرنا ہی مقصود تھا۔ کچھ عجز بیانی اس درویش نے پیش کی۔ تحریر سے کچھ قابل اعتراض برآمد نہیں ہوا۔ موضوع سنجیدہ تھا۔ مدلل موقف دیا گیا۔ صاحبان بصیرت نے تحسین کی کہ یہ موضوع ایسی ہی سنجیدگی کا سزاوار ہے مگر کچھ حلقوں میں استمراری سوزش کے آثار ہے۔ درد اٹھ اٹھ کے بتاتا ہے ٹھکانہ دل کا۔۔۔

 

اب کیا کریں؟

 

ایک صاحب کو اپنی اہلیہ کی برودت طبعی سے شکایت تھی۔ ڈاکٹر ولہم رائخ نے محترمہ کے لئے دوا تجویز کر دی۔ دوا سے مطلوبہ اثر حاصل ہوا۔ نتیجہ یہ کہ صاحب موصوف خود چند روز کے اندر دماغی شفا خانے میں پہنچا دیے گئے۔ یہ قصہ تفصیل سے محمد حسن عسکری نے لکھا تھا اور فراق گورکھ پوری کے ایک شعر کا حوالہ دیا تھا

 

کہاں ہر ایک سے بار نشاط اٹھتا ہے

کہ یہ بلا بھی ترے عاشقوں کے سر آئی

 

زاویہ نظر کے کسی قدر اختلاف کے ساتھ یہی مضمون ناصر کاظمی نے باندھا

 

تری ہنسی کے گلابوں کو کوئی چھو نہ سکا

صبا بھی چند قدم ہی گئی، پلٹ آئی

 

اعتراض کیا ہے؟ تصاویر سے ہیجان پیدا ہوتا ہے۔ کہا، ہیجان کا ڈر ہے، کہا، ہیجان تو ہو گا۔ تصویر میں کیا ہے؟ ثمر حیات کی خاکہ کشی کی گئی ہے۔ فرمائیے ثمر حیات کیا بے ٹھکانہ ہیں؟ تصویر کے کسی دوسرے حصے سے اٹھا کر وہاں رکھ دیے جہاں آپ کی نگاہ پر بار ہو رہے ہیں؟ ایسا تو نہیں ہے۔۔۔ تو پھر سخن گسترانہ امر کیا ہے؟ جی، ثمر حیات کی خارجی صورت حال پر کماحقہ روشنی پڑتی ہے۔ صاحب، دل کا داغ ہے۔ اندھیرے میں بھی کھلتا ہے۔ اجالے سے بھی نہیں شرماتا۔ اشرف المعلقات ہے۔ فرمائیے، کے انچ آپ کو قبول ہے؟ باقی دیوانگی کو کہاں لے جا کے رکھیں کہ آپ کی طبع سلیم کو زحمت نہ ہو۔

 

ٹیلی فون کی خرید و فروخت کے ایک ماہر نے کیا دھڑلے سے دعویٰ کیا ہے کہ منٹو نے جو لکھا تھا، ہمیں بہت بھاتا ہے۔ صاحب منٹو غریب کے فکشن میں سے آپ نے کیا پڑھ لیا؟ وہ بے چارہ تو پارسا روحوں سے تفہیم کی بھیک مانگتا اور بنجر ذہنوں تک رسائی کا خواب لئے رخصت ہو گیا۔ 60 برس بعد آپ نے منٹو کو ایک چلتی ہوئی بے معنی تسلیم عرض کی۔ اس عنایت کو اپنے پاس ہی رکھیں۔ آپ کے حرف مجہول سے منٹو کی توہین ہوتی ہے۔ آپ کو ادب کی ابجد کی خبر نہیں۔ ابھی رومی، سعدی اور خیام کا امتحان باقی ہے۔ کچھ آپ کے قبیلے سے بچھڑے ہوئے افراد انیسویں صدی میں برطانیہ میں رہتے تھے۔ خود کو ملکہ وکٹوریہ کی لپٹی لپٹائی اخلاقیات کے وارث سمجھتے تھے۔ ملفوف کرنے میں حقیقت اس طرح گم کر دیتے تھے کہ کرسی میز کے پایوں پر غلاف چڑھانے کا جتن کرتے تھے۔ اس زمانے میں لندن کے زیر زمیں چھاپہ خانے دن رات مصروف رہتے تھے۔  Fanny Hill  نے بہت شہرت پائی۔ فرینک ہیرس کی نثر آج بھی قابل مطالعہ ہے۔ پھر اسی برطانیہ سے جارج ایلیٹ کی نثر برآمد ہوئی۔ رابرٹ براؤننگ نے پندرہویں صدی کے اطالوی مصور اور جزوقتی راہب کی زبانی کہلوایا تھا۔۔۔

 

You tell too many lies and hurt yourself:

You don’t like what you only like too much,

You do like what, if given you at your word,

You find abundantly detestable.

 

35 برس کی عمر میں خود کو نوخیز سمجھا اور لکھا جا رہا ہے۔ خود سے لاڈ کی کوئی حد ہوتی ہے۔ اس عمر میں تو کاسہ سر کے اندر مغز نکتہ رس پر پپڑی جمنے لگتی ہے۔ یہ حضرات ریڈیو کو باجا لکھتے ہیں۔ ہماری روایت۔۔۔؟ آپ کی روایت یوروپی سفارت خانے کے باہر دھوپ میں ویزے کی درخواست لئے کھڑی ہے۔ ہماری تہذیب۔۔۔؟ آپ کی تہذیب موبائل فون میں ایزی لوڈ کروانے گئی ہے۔ ایک مردم شماری کے وقفے میں آبادی آٹھ کروڑ بڑھی ہے۔ ایسی تاثیر والا تعویز تو گزشتہ نسلوں کو نصیب نہیں ہوا۔

 

ہیجان کی شکایت آپ کی بہت مناسب ہے۔ ہیجان سے انکار اور ہیجان سے خوف ہی کا تو سوال ہے۔ ذیابیطس کی نشاندہی کر کے گویا آپ کوئی اہم راز بیان کر رہے ہیں۔ یہ تاثر تو آپ کی سہولت کے لئے بیان کیا گیا ہے۔ یہ بھی اچھا ہوا، برا نہ ہوا۔ کل کلاں کہیں سے کوئی شکایت ملی تو یہی عذر رکھ دیجئے گا۔ برادرانہ تعلق کی اچھی کہی۔ خواہرانہ تعلق کی ثنا لکھنے والے، چاہیں بھی، تو بہت دور نہیں جا سکتے۔ برٹولٹ بریخت نے لکھا تھا کہ معاشرے میں مکالمے کا دروازہ اتنا ہی کھلتا ہے، جتنا ہم اسے دھکیل سکتے ہیں۔ ایک روشنی کی لکیر دکھائی دینے کی دیر ہے۔ ہفت پشت کا حریری ملبوس تار تار ہو جائے گا۔ کسی کو شخصی طور پر دھمکانے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ کھڑکی کی چٹخنی اتار دی گئی۔ ابھی تو موسلا دھار بارش ہونا ہے۔ فیض صاحب نے کیا اچھا کہا تھا۔۔۔ سرِ عام جب ہوئے مدّعی تو ثوابِ صدق و صفا گیا۔ سلامت روی اسی میں ہے کہ ۔۔۔

 

ابھی بادباں کو تہہ رکھو، ابھی مضطرب ہے رخِ ہوا

آئیے، آپ کو حنا آرڈنٹ کی ایک تصویر دکھائیں۔ اس میں فحاشی تو نہیں ہے نا؟ پھر حنا آرڈنٹ سے اتنے لوگوں کو خوف کیوں آتا تھا؟ خوف روشنی سے کھایا جاتا ہے۔ اس خوف کو دور کرنا چاہیے۔ 

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).