محترم اچکزئی، بھائی فرحان خان ۔۔۔ نیم اختلافی رائے


سیاست میں جذباتی موقف سے الجھنیں پیدا ہوتی ہیں۔ تقسیم کا مقدمہ کسی اصول کی بنیاد پر طے ہونا تھا۔ فریقین نے اپنے مفاد میں حقائق کو ایسی شکل دی جس پر عمل ممکن ہی نہیں تھا۔ مثال کے طور پرمشرقی پنجاب کے مسلمانوں کو بتایا گیا کہ کرنال اور مالیرکوٹلہ تک پاکستان بنے گا۔ اس کے قریب ہی دلی ہے، وہ مسلمانوں کی تہذیب ہے۔ ہندوستان کی تقسیم تہذیب یا ثقافت کی بنیاد پر تو نہیں ہونا تھی۔ اسی طرح ساڑھے پانچ سو سے زیادہ نیم مختارریاستوں کا معاملہ تھا۔

کچھ بنیادی نکات اس فیصلے میں کارفرما تھے۔ یا تو متعلقہ ریاستوں کی قسمت کا فیصلہ عوامی رائے سے ہو گا یا یہ اختیار حکمران کو حاصل ہو گا۔ یہ ممکن نہیں تھا کہ کشمیر کا فیصلہ عوام کریں جبکہ حیدر آباد دکن کا فیصلہ وہاں کا حکمران کرے۔ جو علاقے ممکنہ بین الاقوامی سرحد سے دور تھے وہاں بازو مڑورنا آسان تھا۔ ہندوستان میں سردار پٹیل نے محکمہ داخلہ کا قلمدان استعمال کرتے ہوئے درجنوں ریاستوں کو بزور بازو الحاق پر مجبور کیا۔ حیدر آباد پر پولیس کی مدد سے قبضہ کیا۔ بہرصورت یہ طے ہے کہ کسی ریاست کے لئے آزادی یعنی تیسرے آپشن کا کوئی امکان کہیں موجود نہیں تھا۔ یہ ان دوستوں کو سوچنا چاہیے جو کشمیر کی پاکستان یا بھارت سے علیحدہ ریاستی اکائی کے بارے میں پرجوش ہوتے ہیں۔

کشمیر کی ریاست بھی ممکنہ سرحدوں پر واقع تھی۔ دیگر ریاستی حکمرانوں کی طرح سے کشمیر کا مہاراجہ بھی اپنی حکومت قائم رکھنے کا خواہش مند تھا۔ یہ ایک خطرناک کھیل تھا۔ ٹھیک سے فیصلہ کرنا مشکل ہے لیکن پاکستان سے جانے والے مبینہ قبائلی لشکر اور کچھ باقاعدہ اور نیم باقاعدہ جوانوں کی مدد سے تین اضلاع پر قبضہ کر لیا گیا۔ مزاحمت کی کوئی صورت نہ دیکھ کر مہاراجہ کشمیر نے بھارت کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا۔ اب یہ فیصلہ تو موضوعی موقف سے تعلق رکھتا ہے کہ مہاراجہ کشمیر ایسا اعلان کر سکتے تھے یا نہیں۔ اعلان تو نظام دکن اور جونا گڑھ کے حکمرانوں نے بھی کیا تھا۔ اقوام متحدہ میں جھگڑا لے کر کون گیا؟ کس نے کشمیر کو دو ملکوں میں تنازع قرار دے کر کشمیریوں کی رائے کو عملی طور پر غیرمؤثر کر دیا۔ کس نے جموں کشمیر میں ہونے والی کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کرنے والے افراد کی پاکستان کی زمین پر موجودگی مان کرآزادی کی تحریک کو دہشت گردی کے ساتھ خلط ملط کیا۔

یہ سوالات موجود ہیں۔ محمود اچکزئی نے اسمبلی کے فلور پر سوال اٹھائے ہیں کہ پاکستان کے انتخابی عمل میں خفیہ ہاتھوں کی دخل اندازی کو کیسے روکا جائے گا۔ اسی سے جڑا ہوا ناگزیر سوال یہ ہے کہ کشمیر پر موقف جمہوری طریقے سے متعین کیا جائے گا یا حساس حلقوں کا فیصلہ تسلیم کیا جائے گا۔ پاکستان میں کشمیر پر سرکاری موقف جمہوری عمل کی قسمت سے بندھا ہے۔ دیگر احوال یہ کہ فرحان احمد خان برادرِ عزیز ہیں۔ ان کے استدلال کو تاریخی حقائق کی مدد حاصل ہے۔ ان کی طبعِ سلیم پر کوئی سوال نہیں۔ زمین پر موجود کچھ سوالات تشنہ جواب ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).