وزارت داخلہ کا اختیار، تحصیل دار کے غوطے اور زرداری صاحب کی دانش


محترم آصف علی زرداری نے بالآخر لب کشائی فرمائی۔ پرویز رشید نے اپنا موقف دیا ہے۔ چوہدری نثار تاشقند معاہدے کا راز افشا کرنے میں تذبذب کا شکار ہیں۔ اگرچہ پہلی بات ہی آخری تھی۔ جب یہ سطریں آپ تک پہنچیں گی، ٹرمپ صاحب افغان پالیسی کا اعلان کر چکے ہوں گے۔ ادبار کے ان بادلوں کو ایک کالم کے جام سفال میں کشید کرنا مشکل ہے۔ مناسب یہ ہے کہ چناب اور جہلم کے دوآبے کی طرح دار مٹی سے بنے اس دوست کو یاد کیا جائے جس کا نام نصیر کوی تھا۔ نصیر کوی نے پوچھا تھا، تم کتنے بھٹو مارو گے؟ جواب کی بازگشت آج تک ہماری تاریخ میں گونج رہی ہے۔ نصیر کوی کی شناخت دراوڑ تھی۔ ہم دراوڑ کے رہنے والے گھاس سے نسبت رکھتے ہیں۔ ہم پر کوئی پاؤں دھرے، ہم بچھ بچھ جاتے ہیں۔ ہمیں کوئی کچل دے، ہم مر نہیں جاتے۔ ایک وقفہ دے کر قریب کے کسی ٹیلے کی اوٹ میں پھر نمو پاتے ہیں اور ہوا میں ہولے ہولے جھومتے رہے ہیں۔ ہم زمیں نہیں چھوڑتے۔ ہم مٹی سے پیدا ہوتے ہیں۔ ہماری مٹی سلامت رہے تو ہمیں کسی حملہ آور، منصوبہ ساز یا حکمران کا خوف نہیں ہوتا۔

اٹھارہویں صدی کے اسپین میں ابھی پادری کی عدالت کا خوف زندہ تھا، علم کی کھڑکیاں بند تھیں۔ فرانسسکو گویا اپنی تصویر پر عنوان دیتا تھا، جہاں دانش کو نیند آ جائے، وہاں عفریت جنم لیتے ہیں۔ جہانگیر بدر کو خدا جنت دے، ان کی کتاب کی تقریب رونمائی تھی۔ ڈاکٹر مہدی حسن کا کوئی جملہ آصف علی زرداری پر گراں گزرا۔ اپنے خطاب کا آغاز یوں کیا کہ جہاں دانش ختم ہو جاتی ہے، وہاں سے سیاست شروع ہوتی ہے۔ رکیے جناب، دانش کی آخری حد سے دو راستے نکلتے ہیں۔ ایک سیاسی حکمت عملی کی نیم روشن گلی جہاں انتخاب جیتے جاتے ہیں۔ دوسرا تدبر کا راستہ۔ کس کو خبر ہے میر سمندر کے پار کی۔ گردن اونچی رکھ درویشا…. کون ستارے چھو سکتا ہے، رہ میں سانس اکھڑ جاتی ہے۔ بھٹو صاحب کی شہادت ہوئی تو محمد انور خالد نے تدبر کی نوید دیتے ہوئے کہا تھا، بخت خاں آنکھ اٹھاؤ کہ ہرا جنگل ہے۔ بھٹو صاحب کو پھانسی دیے چند ہفتے گزرے تھے۔ جنرل ضیاالحق اہل قلم کانفرنس کی صدارت کرنے آئے۔ سامنے کی صف میں اختر حسین جعفری تشریف فرما تھے۔ جنہوں نے لکھا تھا…. کچی آنکھوں سے جنازے دیکھنا اچھا نہیں۔ ضیاالحق کا لہجہ پریڈ گراؤنڈ کے صوبیدار کی طرح دھمک دار تھا۔ فرمایا، دانشور سیم اور تھور ہیں۔ جب ضیاالحق دانشور کو سیم اور تھور قرار دے رہے تھے، تب نواب شاہ کا ایک نوجوان صوبائی اسمبلی کا انتخاب لڑنے کی تیاری کر رہا تھا۔ آصف علی زرداری یہ انتخاب ہار گئے تھے۔ قائد محترم زرداری صاحب فرماتے ہیں کہ میں اعتزاز احسن سے متفق ہوں، رضا ربانی تو آزاد دانشور ہیں۔ دانشور کے لئے اسم صفت اضافی ہے۔ دانشور کو آزاد کہنا دانش کی توہین ہے۔ دانش پابند نہیں ہوتی۔ پیپلز پارٹی پاکستان کا قومی اور جمہوری اثاثہ ہے۔ پیپلز پارٹی کا ایک تاریخی موقف اور طے شدہ تشخص ہے۔ سیاست کا جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے اتنی دھول نہیں اڑانی چاہیے کہ جمہور دوست موقف تاریخ کا مقدمہ ہار جائے۔ اچھا سیاسی کارکن کبھی انصاف اور دلیل کی زمین نہیں چھوڑتا۔

سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار حسب سابق طمطراق سے باقاعدہ پریس کانفرنس کرتے ہیں۔ صحافیوں کے ہجوم میں عقل و دانش کے موتی رولتے ہیں۔ نئے پاکستان میں سیاست کے اتار چڑھاؤ پر آنکھ رکھنے کے لئے کچھ اشارے وضع کئے گئے ہیں۔ ہمیشہ غور کرنا چاہیے کہ کیبل آپریٹرز ایسوسی ایشن نے کس ٹیلی ویژن چینل کے بارے میں کیا حکم لگایا۔ کس چینل کی نشریات دیکھنے کے لئے ریموٹ کی گھنڈی کو کئی منٹ تک زحمت دینا پڑتی ہے۔ اس میں عقل والوں کے لئے اشارے ہوتے ہیں۔ دوسرے یہ معلوم کرنا چاہیے کہ اچانک کسی معتبر شخصیت کے خلاف ملک کے دور دراز علاقوں میں ایک ہی مضمون کے مقدمات تو درج نہیں ہو رہے۔ یہ جاننا بھی بہت ضروری ہے کہ کس سیاسی رہنما کی سیاسی سرگرمیاں براہ راست نشر کی جاتی ہیں۔ کس باون گزے کے لئے دن رات، موضوع یا مضمون کی قید نہیں، ٹیلی ویژن کے کیمرے ہمہ وقت چشم براہ ہیں۔ یہ سمجھنا بھی بہت ضروری ہے کہ براہ راست نشریات میں کیمروں کا زاویہ کیا ہے۔ کسی پائیں باغ میں جمع ہجوم دکھانے کے لئے ٹیلی ویژن کا کیمرہ دس گز کی بلندی پر ہوا میں رقص کناں ہے یا شاہدرے کا استقبالی ہجوم دکھانے کے لئے راوی روڈ پر کیمرے نصب کئے گئے ہیں۔ کس یک نشستی رہنما کو ٹاک شو میں تنہا گفتاری کا موقع دیا جاتا ہے اور کون غریب منکر نکیر کے جلو میں رونمائی دیتا ہے۔

پرویز رشید نے اپنی حکومت کے سقوط کی ذمہ داری پرویز مشرف کی بدروح پر رکھی ہے۔ اگر ایک پرویز دوسرے پرویز کی نشاندہی کرے تو اقبال کے دو مصرعے دہرانے کی اجازت تو ہونی چاہیے– حضرت اقبال نے فرمایا، ناپختہ ہے پرویزی بے سلطنت پرویز…. اس کی تشریح یہ کہ ایک پرویز ناروے کی خوشگوار فضاؤں میں راج ہنس جیسی مطمئن اڑان بھرتا ہے اور دوسرا پرویز لاہور کے کوچوں میں رسوا ہو رہا ہے۔ حضرت اقبال قادر الکلام تھے۔ فرمایا، طریق کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی…. اس کی تفصیل جاننے کے لئے دارالحکومت کے عامل صحافیوں سے مدد لینی چاہیے۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ وزارت داخلہ کے کچھ اقدامات کی نشاندہی کرنے پر محترم چوہدری نثار نے بے نام لئے پرویز رشید کی خوب خبر لی۔ اپنی کارکردگی اس طرح بیان کی جیسے مفصلات کا سیشن جج تبادلہ ہونے پر اپنے فیصل کئے ہوئے مقدمات گنواتا ہے۔ یہ بھی ارشاد ہوا کہ طالبان سے بات چیت پر جنرل کیانی اور جنرل ظہیر السلام کو اعتراض نہیں تھا۔ پیپلز پارٹی، اے این پی اور ایم کیو ایم طالبان سے مذاکرات پر آمادہ نہیں تھیں۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ جب کارروائی شروع ہوئی تو جلد ہی معلوم ہو گیا کہ کراچی میں بدامنی پھیلانے والی سیاسی قوتیں ہی طالبان کی حقیقی پشت پناہ تھیں۔ چوہدری نثار ہنرمند سیاست دان ہیں۔ معاہدہ تاشقند کا راز اٹھا کر چکری موڑ لے آئے ہیں۔ دیکھئے اواخر 2013 کی اس مذاکراتی بحث سے آپریشن ضرب عضب اور دھرنے کے دو متقارب مصرعے برآمد ہوئے۔ پرویز مشرف تو رخصت ہوگئے مگر نواب شاہ کے دارالشکوہ کو بھی ڈیڑھ برس منظر عام سے غائب رہنا پڑا۔ ڈاکٹر عاصم کی دادرسی ہونا اچھی بات ہے۔ ڈان لیکس اور دیگر متعلقہ امور کی تحقیاتی رپورٹس کا سامنے آنا شفاف سیاست کا راستہ ہموار کرے گا۔ ایک بات چوہدری نثار نے کسی قدر حیران کن کہی کہ لوگ وزارت داخلہ کا اختیار نہیں جانتے۔ حضور لوگ تو اپنی وزارت عظمیٰ کی خلعت کندھے پر ڈالے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ وزارت خارجہ سمیت درجن بھر قلمدان اسی خلعت کی کسی جیب میں رکھے تھے۔ وزارت داخلہ کے دائرہ اختیار سے ناواقف ہونا باور نہیں ہوتا۔ 1988 میں ایک خوفناک سیلاب آیا تھا۔ شکرگڑھ کے زیر آب علاقے میں ایک غریب شخص دو ہمسایہ عورتوں کے ہمراہ ساتھ کمر کمر تک گہرے پانی میں ڈوبا پناہ ڈھونڈ رہا تھا۔ ایک نسبتاً نوجوان عورت نے اچانک کہا کہ پانی کچہری کی عمارت تک پہنچ گیا ہے۔ محنت کش کسان نے بیزاری سے کہا، لعنت بھیجو کچہریوں پر، دھیان سے دیکھو، تحصیل دار خود بھی یہیں کہیں غوطے کھا رہا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).