ایک پردیسن واپس اپنے دیس میں آتی ہے


ہم کہاں جایئں گے بے نام سی وحشت لے کر
جن کے گھر ہوتے ہیں وہ لوگ تو گھر جاتے ہیں

پردیسی ہونے کے المیہ بس کچھ یہی ہے۔ نہ اپنا گھر اپنا لگتا ہے۔ اور نہ پرایا دیس پرایا۔ پچھلے آٹھ سالوں سے میں پردیس میں بمع اہل و اعیال آباد ہوں۔ خدا کا شکر ہے کسی چیز کی کمی نہیں۔ بجلی ہے۔ پانی ہے۔ نہ بم پھٹنے کا ڈر ہے اور نہ پل گرنے کا۔ دیواروں پہ نہ پان کی پیکیں نظر آتی ہیں اور نہ سڑک پہ مویشی۔ ٹریفک کے اصول کے سب پابند ہیں۔ اپنی اپنی لکیروں کے حساب سے اپنی زندگیوں کی راہیں چنتے ہیں اور اچھے بچوں کی طرح انہی راہوں اور لکیروں پہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چلتے رہتے ہیں۔ پردیسی ملک میں تہذیب ہے۔ عوامی ذرائع آمد و رفت کا معیار بہت اونچا ہے۔ سخت گرمی ہو یا بے انتہا بارش۔ عوام کو نقل و حرکت میں کوئی دقت نہیں پیش آتی۔ یہاں لوگوں کو اپنے جان و مال محفوظ لگتے ہیں۔ مستقبل میں زندگی اور آسودگی دونوں نظر آتی ہیں۔

مگر ہم کچھ دن پہلے پاکستان آئے۔ جہاز میں چڑھتے ہی اندازہ ہوگیا کہ کہاں جا رہے ہیں۔ عوام نے پہلے تو یہ لڑائی کی کہ ان کی من پسند سیٹ ان کو دی جائے۔ ایک صاحب کو کھڑکی والی سیٹ چاہیے تھی۔ ایک حضرت کو اپنی بیگم کو کسی اور حضرت کی بغل میں بٹھانا قطعی گوارا نہ تھا۔ لہذا پرواز پورے ایک گھنٹے لیٹ اڑی۔ راستے بھر ہماری سیٹ کے پیچھے بیٹھے بھائی با آواز بلند اپنے ساتھ بیٹھے والوں کے ساتھ زور زور سے قہقہے لگا رہے تھے اور ایئر پورٹ پہ کھینچی ایک ہی سیلفی کے چھے مختلف اینگلوں پہ تبصرہ فرما رہے تھے کہ کونسی فیسبک پہ اپلوڈ کی جائے۔

ہم اپنے دو ننھے بیٹوں کو لے کے اپنی سیٹ پر شرافت سے بیٹھے زمانے کا رنگ بدلتے دیکھتے رہے۔ جہاز نے جیسے ہی زمین کو بوسہ دیا، انہی صاحب نے جھٹ پٹ اپنی جیب سے فون نکالا اور زور زور سے بولنا شروع کیا، ”ہاں ہاں میں دبئی سے آگیا ہوں! ارے مجھے جہاز تک لینے آؤ نہ تم! کیا ہوا؟ آج شیراز نہیں آیا؟ ارے اسے بلاؤ۔ اسے کہو کے مجھے لینے آئے“۔

ہم حیران اور پریشان سے ہوگئے۔ بھلا اللّہ نہ کرے ان کو کونسی مصیبت لاحق تھی؟ ٹھیک ٹھاک سلامت ہٹے کٹے کھڑے بےصبری سے دروازے کھلنے کا انتظار کر رہے تھے۔ پھر ان صاحب نے خود ہی ہماری یہ کنفیوژن دور کر دی۔ اپنے ساتھ والے سے فرمانے لگے، ” یار شیراز آ جاتا تو وی آئی پی پروٹوکول مل جاتا، لاینن میں نہ لگنا پڑتا۔ “

گویا لائن میں لگنا حضرت سیلفی کی شان کے شدید خلاف تھا۔

خیر ہم نے اپنے دو بچوں کو نیند سے اٹھایا، ایک ہاتھ میں ایک بچہ اٹھایا، دوسرے بازو میں بیگ پکڑا، بچے کھچے ہاتھ پاؤں سے ایک بیگ کو اٹکایا اور لائن میں لگ گئے۔ ہمارے دو سال کے فرزند نامدار کو عین اسی وقت چہل قدمی سوجھی اور ہم لائن توڑ کے شرمندہ ہو کے اس کے پیچھے چل پڑے۔ فرزند نامدار بزنس کلاس کی سیٹوں پہ ہاتھ پھیرتے ہوے اپنے خیر سگالی کے دورے کو قائم رکھے رہے اور یکایک ہمیں زور سے ایک دھکا پڑا۔ ہم نے پیچھے مڑ کے دیکھا تو ایک مونچھوں والے حضرت بنا شرمندہ ہوئے ہمیں گھور رہے تھے۔ ان کا گھورنا اس قدر مسلسل تھا کہ تھوڑی دیر بعد تو ہم خود ہی شرمندہ ہو کہ آگے بڑھ گئے۔ ہم نے غصہ ناک میں بدبو کی طرح دبایا اور آگے کو ہو لئے۔ امیگراشن کاونٹر پہ عجیب افراتفری کا عالم تھا۔ کوئی کہیں کو جا رہا تھا کوئی کہیں کو۔ ہر آدمی زور زور سے بول رہا تھا اور بے جا کی گفتگو کو عین ضروری گردان کر شور مچا رہا تھا۔ گرمی تھی۔ رش تھا۔ اور ہر تھکا ہوا مسافر پچھلے تھکے ہوئے مسافر کے راستے کو کاٹ کر آگے بڑھنا چاہتا تھا۔ ایک بھلے آدمی نے ہماری ٹرالی اور سامان فوراً پکڑا اور ہمیں راستہ دکھانا شروع ہوگیا۔ اس بھلائی کے ہمیں اسے پورے 500 روپے دینے پڑے۔

پتہ نہیں یہ اگست کے مہینے کا ماحول تھا یا کئی عرصے بعد اپنے کی خوشی یا ائیرپورٹ کی افراتفری سے چھٹکارے کا سکوں۔ لیکن باہر نکل کہ عجیب سی آزادی محسوس ہوئی۔ جیسے کہ کسی نے دل پہ سل رکھی ہوئی تھی اور اب ہٹ گئی ہو۔ حالانکہ سب سے پہلی چیز جو ہماری ناک کے اندر داخل ہوئی وہ گٹر کی خوشبو تھی جو بڑے شہروں کی چھاپ سی بن جاتی ہے۔ ہم یہ بتاتے چلیں کہ نہ صرف ہم انہی خوشبوؤں میں پلے بڑھے ہیں بلکہ ہم ان تمام لوگوں کا مذاق اڑایا کرتے تھے جو ملک واپس آ کے ناک بھوں چڑھا کہ کہا کرتے تھے، ’اف کتنی بو ہے!“

مگر احساس یہی ہوا کہ اب ہم بھی ویسے ہی ’فرنگی‘ بن گئے ہیں۔ جنھیں بدبو بری لگتی ہے۔ رش اور گرمی سے گھبراہٹ ہوتی ہے۔ لائن توڑنے والوں پہ غصہ آتا ہے۔ جب گاڑی میں بیٹھے تو 45 منٹ میں کم از کم پانچ لوگ تو مرتے مرتے بچے۔ ہر پندرہ منٹ بعد سانس منہ کو آتا۔ ٹیکسی کا ڈرائیور ہر پانچ منٹ بعد ہارن مارتا۔ ہر تین منٹ بعد کوئی موٹر سائیکل سوار سامنے آتا۔ تیز والی لین میں ہیوی ٹریفک آرام سے چلتی اور جب تک اسے کوئی ہارن نہ مارتا وہ ٹس سے مس نہ ہوتی۔ یہ عجیب زندگی ہے۔ ٹریفک کے قوانین نہ کسی کو معلوم ہیں، نہ کوئی معلوم کرنا چاہتا ہے۔ لگتا ہے کہ جو صرف ایک قانون جس سے سب واقف ہیں وہ یہی ہے کہ اپنی زندگی بھی خطرے میں ڈالنی ہے اور دوسروں کا جینا بھی محال کرنا ہے۔

پھر یوں ہوا کہ ہمارے فرزند نامدار بیمار پڑ گئے۔ بخار بھی ہوا اور معدہ بھی خراب ہوا۔ ہم ہمیشہ کی طرح پریشان ہوگئے اور چونکہ ہم نے پچھلے کئی سال بچوں کی بیماریاں آزاریاں اکیلے ہی بھگتی ہیں، لہٰذا ذہنی طور پہ تیار تھے کہ اکیلے ہی سب کچھ بھگتنا ہے۔ مگر اس کے بالکل برعکس، ہمارے تمام رشتے دار اپنے کام دھام چھوڑ چھاڑ ہمارے ساتھ ہسپتال اور ڈاکٹروں کے چکر کاٹنا شروع ہو گئے۔ ہم ہکا بکا رہ گئے۔ آج کل کی مصروف زندگی میں بھی لوگ اس طرح دوسروں کی مدد کرتے ہیں؟ ہم نے تو ایسا کہیں نہ دیکھا۔ ہر کسی کو اپنا بوجھ خود ہی اٹھاتے دیکھا۔ مگر یہاں لوگ رش میں خوار بھی ہوتے ہیں اور اپنے رشتےداروں کے لئے بھی ذلیل ہوتے ہیں۔ اس کو آپ رحمت سمجھیں یا زحمت، ہمیں تو ایسا لگا جیسے گھر کا سواد یہی ہے۔ جہاں ہر شخص دکھ سکھ بانٹنا جانتا ہو۔ ورنہ اونچی اونچی عمارتوں میں بڑے بڑے صوفوں پہ اس اجلی اجلی تنہائیوں کو محسوس کرنا کسی کرب سے کم نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).