چیئرمین سینیٹ کی تجویز پر ممکنہ گرینڈ ڈائیلاگ میں فوج شریک ہو گی: آئی ایس پی آر


پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے کہاہے کہ چیئرمین سینیٹ کی تجویز پر گرینڈ ڈائیلاگ اگر ہوا تو فوج اس کا حصہ بنے گی، فوج کا سیاست سے تعلق ہے نہ کسی این آر او کی منظوری دینی ہے، فنکشنل اختلاف رائے کو سول ملٹری تفریق نہ سمجھا جائے، آرمی چیف فوجی پالیسی پر عمل کا ذمہ دار ہوتا ہے ۔

پاکستان سب کا ہے، ہم ایک ہیں، تقسیم دشمنی کاایجنڈا، سول اور ملٹری الگ الگ نہیں، نیوز لیکس یا کسی بھی انکوائری کو عام کرنے کے خواہشمند حکومت سے رجوع کریں، یہ اس کا اختیار ہے، سب کو معلوم ہے سوشل میڈیا پر کس نے کس کے اشارے پر قومی پرچم جلایا، کوئی پاکستانی پاکستان کے پرچم کی توہین برداشت نہیں کرسکتا، لاہور میں ارفع ٹاور کے قریب پولیس پر حملہ کر نے والے دہشت گردوں کا ہدف وزیراعلیٰ پنجاب تھے، آپریشن خیبر فور مکمل کرتے ہوئے راجگال اور شوال میں زمینی اہداف حاصل کر لئے ہیں، 253 مربع کلو میٹرکا علاقہ کلیئر کرا لیا گیا ہے، آپریشن کے دوران 52 دہشت گرد مارے گئے، 31زخمی ہوئے، ایک کو زندہ گرفتار کیا گیا، 4 نے خود کو حوالے کیا، 2 سپاہی شہید اور 6 زخمی ہوئے، فاٹا میں اصلاحات ضروری ہیں، ملک کو آئین کی عملداری کی طرف لے جانا ہے ۔

پیر کو راولپنڈی میں پریس بریفنگ کے دوران میجر جنرل آصف غفور نے کہاکہ مقبوضہ کشمیر میں حق خود ارادیت کی جدو جہد ہورہی ہے، کشمیر ایک متنازعہ معاملہ ہے جس سے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں، بھارت اس جدو جہد کو دہشت گردی قرار دینے کی کوشش کرتا ہے، سول ملٹری تعلقات پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ سول ملٹری تعلقات میں کوئی مسئلہ نہیں، سول اور ملٹری میں کوئی تفریق نہیں، دونوں ایک ہیں، سویلین جس ماحول میں رہتے ہیں، وہاں سیاست ہے اور سیاسی سرگرمیوں سے فوج کا کوئی تعلق نہیں، کبھی فنکشنل امور کے حوالے سے کوئی اختلاف ہوبھی تواسے سول ملٹری تعلقات سے منسلک نہ کریں، میں بھی ریٹائر منٹ کے بعد سویلین بن جائونگا۔

ڈان لیکس انکوائری رپورٹ منظر عام پر لانے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ترجمان پاک فوج نے کہا کہ ڈان لیکس سمیت کسی بھی انکوائری کی رپورٹ کو منظر عام پر لانا حکومت کا دائرہ اختیار ہے اس حوالے سے سفارشات پر وزیر اعظم نے فیصلہ کیا تھا او ر میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ اس حوالے سے حتمی اتھارٹی وزیر اعظم ہیں۔

انہوں نے کہاکہ حقائق جاننا عوام کا حق ہے، جو ڈان لیکس انکوائری منظرعام پر لا نے کا خواہاں ہے وہ حکومت سے درخواست کرے۔ سیاسی جماعتوں کے ساتھ فوج کے ممکنہ این آر او بارے گردش کر نے والی اطلاعات سے متعلق انہوںنے کہاکہ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ یا الگ ہو کر چلتی رہتی ہیں سیاسی معاملات یا ایسے کسی این آر او کی منظوری سے فوج کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ چیئرمین سینٹ کی جانب سے عدلیہ اور فوج سمیت ریاستی اداروں میں مکالمے کے حوالے سے سوال کے جواب میں میجر جنرل آصف غفور نے کہاکہ مذکورہ تجویز میڈیا آئی ہے، فوج ریاست کا ایک عضوہے اگر کوئی حکومت کوئی ایسی چیز کرتی ہے تو جو کر دار فوج کا ہوگا وہ اس میں شریک ہوگی ۔ سوشل میڈیا پر قومی پرچم جلائے جانے کی وڈیو سے متعلق پوچھے گئے سوال پر ترجمان پاک فوج نے کہا کہ کوئی بھی پاکستانی پاکستان کے پرچم کی توہین برداشت نہیں کرسکتا، سب کو معلوم ہے کہ کس کے کہنے پر اور کس نے پرچم کو نذرآتش کیا، انہوںنے کہاکہ پرچم جلانے والے پاکستانی نہیں ہوسکتے ، عوام ان کو معاف کر نے کو تیار نہیں ۔ پرویز مشرف سے متعلق میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ پرویز مشرف پاک فوج کے سربراہ رہے ہیں۔

انہوں نے پاک فوج میں نمایاں خدمات سرانجام دی ہیں لیکن اب انہیں ریٹائر ہوئے بھی کئی برس ہوگئے ہیںوہ سابق صدر اور ایک سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں، سیاست سے متعلق پرویز مشرف بیان بحیثیت سیاست دان دیتے ہیں، اس وقت پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ ہیں اور فوج میں ان کی پالیسی چلتی ہے ۔ افغانستان کے اندر دہشتگردوں کی پناہ گاہوں کے خلاف کارروائی سے متعلق سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہاکہ سرحدی علاقوں میں دہشتگردوں کے جن ٹھکانوں سے ہمیں براہ راست خطرہ تھا ان کے خلاف کارروائی کی گئی، افغانستان ایک خود مختار ملک ہے۔

افغانستان کے اندر ایسی پناہ گاہوں کے خلاف ہم کارروائی نہیں کرسکتے ، ان کی اپنی فورس موجود ہے ، انہوں نے کہاکہ پاکستان میں کسی دہشت گرد تنظیم کا منظم نیٹ ورک نہیں، شمالی وزیرستان میں بلاامتیاز آپریشن کیا گیا، امریکی وفود کو واضح طور پر یہ بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں بلاامتیاز آپریشن کیے گئے ہیں اور امریکا کی افغان پالیسی سے متعلق دفتر خارجہ بیان جاری کریگا۔ میجر جنرل آصف غفور نے کہاکہ وفاقی حکومت فوجی عدالتوں کو کیس بھیجتی ہے، حکومت کے فیصلوں کے مطابق دہشت گردوں کے کیس کو آگے چلائے جاتے ہیں ۔ قبل ازیں پریس بریفنگ میں میجر جنرل آصف غفور نے کہاکہ لا ہور میں ارفع کریم ٹاور کے واقعہ کی خفیہ خبر تھی اس پر کام ہورہا تھا اور اس دن وزیراعلیٰ پنجاب کا دورہ بھی طے تھا اور نشانہ بھی وزیراعلیٰ پنجاب تھے لیکن عین وقت پر ان کا منصوبہ تبدیل ہوا اور انہیں پولیس کو نشانہ بنانے کا حکم ملا تھا، انہوں نے کہا کہ اس نیٹ ورک پر مزید کام کیا گیا تو اور بھی خودکش بمبار تھے جنہوں نے وزیراعلیٰ پنجاب کو نشانہ بنانا تھا لیکن ان کے حوالے سے تفصیلات اس لیے نہیں بتائیں گے کیونکہ ہمیں ان سے تفتیش جاری ہے۔ راجگال اوروادی شوال میں آپریشن کے دوران 152 بارودی سرنگیں ناکارہ بنائی گئیں۔

راجگال میں 91نئی پوسٹس بنائی گئی ہیں، پنجاب میں 1728 انٹیلی جنس بیس آپریشنز کیے گئے ، پاکستان نے اپنی طرف سے بارڈر مینجمنٹ مضبوط کی ہے ، خیبر 4آپریشن 15 جولائی کو شروع کیا گیا تھا، آپریشن بہت مشکل تھاجس کے دوران 2سپاہی شہید اور 6زخمی ہوئے، خیبر ویلی میں کلیئرنس آپریشن جاری ہے ۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ آپریشن میں تیار آئی ای ڈیز بھی برآمد ہوئیں، آئی ای ڈی بنانے کے ایک مواد پر’’ میڈ ان انڈیا ‘‘کا لیبل ہے، خیبر فور آپریشن کیلئے افغان سیکیورٹی فورسز سے بھی تعاون لیا گیااور مشاورت بھی کی گئی، اب تک 124ہزار آپریشن پورے پاکستان میں کر چکے ہیں، 2017ء میں کراچی میں دہشت گردی کا ایک واقعہ پیش آیا، پولیس مضبوط ہوگی تو اسٹریٹ کرائم میں وقت کیساتھ کمی آئے گی۔

فاٹا میں اصلاحات سے متعلق ترجمان پاک فوج نے کہا کہ فاٹا میں اصلاحات بہت ضروری ہیں لیکن سیاسی نظام میں اس کا طریقہ کار ہوتا ہے، وہاں کے لوگوں کو پاکستانی ہونے کا حق اور ان کو وہ تمام سہولیات ملنی چاہئیں جو ایک پاکستانی کا حق ہے، اس سلسلے میں پاک فوج کی تجاویز حکومت کو دی جا چکی ہیں، ہم نے سیکیورٹی تناظر میں اپنی سفارشات فاٹا ریفارمز پر دے دی تھیں، ا فاٹا ریفارمز ہونے یا نہ ہونے پر فوج نے رائے نہیں دی۔ کسی آئی ڈی پی کو زبردستی واپس نہیں بھیجا گیا، آپریشن ردالفساد کے تحت ملک بھر میں 3300آپریشن کیے گئے، آپریشن شروع ہوا تو فاٹا کے بہت سے لوگ آئی ڈی پیز بن گئے، 95 فیصد لوگ اب اپنے علاقہ میں واپس آ چکے ہیں، 5 فیصد کے بارے میں ہم سمجھتے ہیں کہ وہ واپس نہیں آنا چاہتے اور ان علاقوں میں رہائش اختیار کرلی ہے جہاں عارضی طور پر منتقل ہوئے تھے۔

بریفنگ کے دوران کالعدم تحریک طالبان باجوڑ کے دہشت گرد اجمل خان کا وڈیو بیان میڈیا کو دکھایا گیا جس میں وہ اعتراف کر رہا ہے کہ اس نے محرم کے دوران کالے کپڑے پہن کر وہاں پر کارروائی کی، ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ 2013 میں راولپنڈی میں مسجد پرحملہ کیا گیا تھا جس کی ذمہ داری ایک تنظیم نے قبول کی تھی لیکن آئی ایس آئی نے اس پر بہت کام کیا اور نیٹ ورک کو بے نقاب کیا اوردہشت گرد کو گرفتار کیا اور یہ دہشت گرد بھی اسی مسلک سے تعلق رکھتے تھے جس مسلک کی یہ مسجد تھی، انہوں نے کہا کہ مسجدمیں آگ لگانے والوں کا مقصد فرقہ واریت کو ہوا دینا تھا، انہوں نے بتایا کہ گرفتاردہشت گردوں کواین ڈی ایس اور’’را’’ کی حمایت حاصل تھی ، کچھ دہشت گردوں کا تعلق کلبھوشن نیٹ ورک سے تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).