امریکی صدر ٹرمپ کی پاکستان کو سنگین وارننگ


امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دور صدارت میں جنوبی ایشیا کے بارے میں اپنے پہلے خطاب میں پاکستان کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ ‘اب پاکستان میں دہشت گردوں کی قائم پناہ گاہوں کے معاملے پر مزید خاموش نہیں رہ سکتا۔’

فورٹ میئر آرلنگٹن میں تقریباً آدھے گھنٹے تک کی گئی تقریر میں صدر ٹرمپ نے پاکستان، افغانستان اور انڈیا کے بارے میں اپنی انتظامیہ کی پالیسی کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے معاملے میں امریکہ کے اہداف بالکل واضح ہیں اور وہ چاہتا ہے کہ اس خطے میں دہشت گردوں اور ان کی پناہ گاہوں کا صفایا ہو۔
‘ہماری پوری کوشش ہے کہ جوہری ہتھیار یا ان کی تیاری میں استعمال ہونے والا مواد دہشت گردوں کے ہاتھ نہ لگے۔’

امریکی صدر کے مطابق 20 غیر ملکی دہشت گرد تنظیمیں پاکستان اور افغانستان میں کام کر رہی ہیں جو کہ دنیا میں کسی بھی جگہ سے زیادہ ہیں۔
پاکستان کے بارے میں مزید بات کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ سے شراکت داری پاکستان کے لیے بہت سود مند ثابت ہوگی لیکن اگر وہ مسلسل دہشت گردوں کا ساتھ دے گا تو اس کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔

’ماضی میں پاکستان ہمارا بہت اہم اتحادی رہا ہے اور ہماری فوجوں نے مل کر ہمارے مشترکہ دشمن کے خلاف لڑائی کی ہے۔ پاکستان کی عوام نے دہشت گردی کی اس جنگ میں بہت نقصان اٹھایا ہے اور ہم ان کی قربانیوں اور خدمات کو فراموش نہیں کر سکتے۔’

صدر ٹرمپ نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان اپنے ملک سے ان تمام شر انگیزوں کا خاتمہ کرے جو وہاں پناہ لیتے ہیں اور امریکیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔
’ہم پاکستان کو اربوں ڈالر دیتے ہیں لیکن وہ دوسری جانب انھی دہشت گردوں کو پناہ دیتے ہیں جو ہمارے دشمن ہیں۔‘
پاکستانی حکومت کی جانب سے تاحال امریکی صدر کے ان بیانات پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

’افغانستان میں عراق والی غلطی نہیں دہرائیں گے‘

افغانستان کے بارے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ جلد بازی میں امریکی فوجیوں کے انخلا کے باعث افغانستان میں دہشت گردوں کو دوبارہ جگہ مل جائے گی اور اس بارے میں وہ زمینی حقائق پر مبنی فیصلے کریں گے جس میں ڈیڈ لائن نہیں ہوں گی۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ ان کا پہلے ارادہ تھا کہ وہ افغانستان سے فوجیں جلد واپس بلا لیں گے لیکن وہ عراق میں کرنے والی غلطیاں نہیں دہرائیں گے اور اس وقت تک ملک میں موجود رہیں گے جب تک جیت نے مل جائے۔

’امریکہ افغان حکومت کے ساتھ تب تک مل کر کام کرے گا جب تک ملک ترقی کے راستے پر گامزن نہ ہو جائے۔‘
لیکن انھوں نے اس بارے میں وضاحت نہیں دی کہ امریکہ کتنے اور فوجی افغانستان بھیجے گا۔
‘ہم اب اپنے فوجیوں کی تعداد اور اپنے منصوبے کے بارے میں گفتگو نہیں کریں گے۔’

صدر ٹرمپ نے افغانستان کی ترقی میں انڈیا کے کردار کی بھی تعریف کی اور ان پر زور دیا کہ وہ اقتصادی اور مالی طور پر بھی افغانستان کی مدد کریں۔
صدر ٹرمپ کی تقریر سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اس نئی پالیسی کے بارے میں اتحادیوں کی حمایت کی توقع کرتا ہے۔

یاد رہے کہ امریکی فوج نے افغانستان میں براہ راست فوجی کاروائی 2014 سے ختم کر دی ہے اور اس وقت ملک میں 8400 موجود ہیں جو کہ افغان فوج کی مدد کر رہے ہیں۔
2001 میں ستمبر 11 کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ہونے والے حملے کے بعد سے امریکہ کی فوج افغانستان میں موجود ہے اور ماضی میں صدر ٹرمپ فوج کے انخلا کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32189 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp