تین کپتان تین کہانیاں


کہانی نمبر1: ”میں جب آپ کو یہاں لینے آیا تو اپنی چھوٹی سی ڈرپوک بیٹی کو یونیورسٹی پوائنٹ پہ کھڑا کرکے آیا تھا۔ وہ بے چاری سہمی ہوئی تھی کہ ابو روز آپ میرے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، بس آنے کے بعد مجھے اس میں بیٹھا دیکھ کر، پھر جاتے ہیں، آج آپ اتنی جلدی کیوں جا رہے ہیں۔ میں نے کہا کہ بیٹا آج صبح صبح خدا نے رزق کا بندوبست کر دیا ہے تو بس میں جاتا ہوں‘ تم بہادر بنو، آج خود دوسری لڑکیوں کے ساتھ پوائنٹ پر انتظار کرو، تو وہ اب وہیں کھڑی ہے۔ وقت پڑ گیا ہے تو ٹیکسی چلا رہا ہوں، لیکن خدا کا بڑا شکر ہے۔ یہ روزگار بڑی نعمت ہے، اگر یہ گاڑی نہ ہوتی تو اس طرح مہینے بھر کا خرچہ نکالنا ممکن نہیں تھا۔ سر ادھر صرف ایک چیز کا افسوس ہوتا ہے۔ لوگ ہمیں اپنا ذاتی ڈرائیور سمجھتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں ہم ان کے ملازم ہیں۔

میں اچھا خاصا زمیندار تھا، کچھ کاروبار میں نقصان ہوا، کچھ اور پیسے ڈوبے تو میں اس کام میں آ گیا۔ اپنی مرضی سے کرتا ہوں، اچھی کمائی ہو جاتی ہے لیکن لوگوں کا رویہ بہت اپ سیٹ کر دیتا ہے۔ کل میں نے ایک رائیڈ پکڑی (سافٹ ویئر کی مدد سے مسافر کو گھر سے یا کسی جگہ سے لینا/ پک کرنا، عام زبان میں رائیڈ پکڑنا کہلاتا ہے) اب اس کا پتہ میرے موبائل میں ٹھیک سے سمجھ نہیں آ رہا تھا، میں نے فون کیا تو وہ الٹی سیدھی باتیں سنانے لگ گئے صاحب، کہ یہاں ڈرائیونگ کرنے آ گئے ہیں، راستے نہیں آتے، سر ہم انسان ہیں، روبوٹ نہیں ہیں، کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تو بات طریقے سے کر لیں، سمجھا دیں راستہ، پہنچ جائیں گے۔ بس اس وقت سے دل ایسا میلا ہوا ہے کہ بس نہیں چل رہا کہ ابھی یہ کام چھوڑ دوں۔ یہ لوگ پتہ نہیں کب سمجھیں گے کہ اپنا کام خود کرنا کوئی بری بات نہیں ہے۔ شکر ہے مالک کا، بہت سوں سے اچھا کما رہا ہوں‘‘۔

کہانی نمبر2: ”بہت برا وقت تھا سر، والد صاحب کو برین ہیمرج ہوا تھا، بڑے بھائی اپنی طبیعت کے ہیں، میں چھوٹا تھا اور شطرنج کا شوقین تھا۔ ماں ہر وقت دونوں کو کہتی رہتی تھیں کہ وقت ضائع کرتے ہو، کوئی کام نہیں ہے، بس دوستوں میں بیٹھے ہیں، چیس کھیلی جا رہی ہے، گھر کی فکر کرو، باپ بھی اب تو اتنا بیمار ہے۔ ہم لوگ اچھے ویل آف تھے لیکن جوان اولاد کی بے کاری ہر ماں کو کھلتی ہے۔ میں یونیورسٹی میں پڑھتا ہوں۔ میں نے انہیں بتائے بغیر یہ کام شروع کر دیا۔ گھر کی گاڑی میرے پاس ہوتی تھی تو یونیورسٹی سے واپسی کے وقت میں میٹر ڈاون کر دیتا۔ واپسی کے لیے مجھے یونیورسٹی سے ہی رائیڈ مل جاتی تھی، شہر آ کر پانچ چھ گھنٹے کام کیا، اچھے پیسے بن جاتے تو گھر چلا جاتا تھا۔ بھائی کو معلوم ہوا تو انہوں نے بڑا شور کیا، اب تم ڈرائیوری کرو گے؟ فلاں خان صاحب کا بیٹا لوگوں کی چاکری کرے گا؟ ابو نے بھی یہی کہا، بعد میں آہستہ آہستہ دونوں نارمل ہو گئے۔ جب انہیں سمجھایا کہ یہ ایک ریسپیکٹ ایبل جاب ہے، آپ اپنی مرضی سے اپنی گاڑی چلاتے ہیں، کسی کی چاکری نہیں ہے تو انہیں سمجھ آ گیا۔

اب یہ ہے کہ سکون سے پڑھائی کے بعد یہ کام کرتا ہوں، اتنے پیسے بن جاتے ہیں کہ کچن چلانے میں سپورٹ کر دوں۔ بس ایک مسئلہ ہے۔ یہاں ہر دوسرا بندہ مجھ سے اس طرح بات کرتا ہے جیسے مجھے خرید چکا ہے، بھئی میں اپنی مرضی سے اپنا کام کر رہا ہوں، میری گاڑی ہے، ذاتی ہے، آپ مہمان ہیں، تھوڑے پیسوں میں اچھی سواری مل رہی ہے، کچھ خیال کر لیجیے، سامنے والے کی عزت نفس پر دولتیاں تو مت چلائیں۔ کوئی سیدھے منہ بات ہی نہیں کرتا‘‘۔

کہانی نمبر3: ”یہاں سب سے بڑی موج یہ ہے جی کہ ہمیں کیپٹن کہا جاتا ہے۔ ٹھیک ہے ہم ڈرائیوری کرتے ہیں لیکن کمپنی ہمیں نہ ڈرائیور سمجھتی ہے نہ کہتی ہے۔ میں نیوی میں تھا، وہاں سے آدمی جلدی ریٹائر ہو جاتا ہے، تھوڑے بہت پیسے ملے تھے، ٹانگوں میں ابھی جان باقی تھی تو سوچا کیا کروں۔ کوئی دکان کروں گا تو لوگ ادھار کھاتے کھا پی لیں گے، آخر میں دکان بند ہو جائے گی اور میرے ہاتھ میں ایک ڈائری رہ جائے گی، ہر ایک کے پیچھے بھاگتا پھروں گا کہ میری رقم واپس کرو۔ میرے کئی یار دوستوں کے ساتھ ایسا ہی ہوا ہے۔

دیکھیں جی پیسے اتنے تو ہوتے نہیں کہ آپ بہت بڑا سا ڈیپارٹمینٹل سٹور ڈال لیں اور کمپنیاں خود آپ کو مال ادھار دیں۔ چھوٹی موٹی کریانے کی دکانیں تو جی یونہی رل کھل جاتی ہیں‘ کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہوتا۔ آپ ڈھائی ہزار، پانچ ہزار کے ادھار پیچھے تین سو ایف آئی آریں کٹوا سکتے ہیں؟ نہیں نا کٹوا سکتے، تو بس یہ کاروبار ایسے ٹھنڈا ہوتا ہے۔ میں نے تھوڑے سے پیسے ایمرجنسی کے لیے بچا لیے اور باقی پیسوں کی یہ 660 سی سی جاپانی گاڑی خرید لی۔ دیسی گاڑی اس سے تھوڑے کم پیسوں میں آتی ہے لیکن نہ اے سی کی یہ ٹھنڈک ہے نہ پٹرول کے یہ مزے ہیں۔ تو اب جی سارا دن ٹھنڈا ٹھنڈا گاڑی میں بیٹھتا ہوں، مرضی سے سواریاں اٹھاتا ہوں، دن میں بارہ گھنٹے کام کرتا ہوں تو اللہ کے فضل سے اتنے پیسے بنا لیتا ہوں کہ ایک سال میں گاڑی کا جو خرچہ کیا تھا اتنے پیسے امید ہے کما چکا ہوں گا، باقی جس دن دل بھر گیا گاڑی بیچی پیسے جیب میں ڈالے، یہ پڑا ہے کاروبار سائیڈ پر۔ اس سے زیادہ محفوظ آپ کی انویسٹمنٹ کہیں ہو سکتی ہے؟ لیکن بھائی جی، لوگ گند بہت ڈالتے ہیں گاڑی میں، سگریٹ پینا شروع کر دیتے ہیں، بچوں کو نہیں روکتے، پوشش تباہ ہو جاتی ہے، 200 روپے کی رائیڈ لیتے ہیں اور بارہ لاکھ کی گاڑی کھے تے سواہ ہو جاتی ہے۔ منع کرو تو جی چڑھائی کر دیتے ہیں، یہ بڑی گڑبڑ ہے جی‘‘۔

دیکھیے ہمیں ان ڈرائیوروں سے ہزار شکایتیں ہو سکتی ہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں فلاں کیپٹن نے رائیڈ پکڑ لی اور پھر نہیں آیا، ہمیں کہا کہ کینسل کر دو، جرمانہ ٹھک گیا ڈیڑھ سو کا۔ فلاں دفعہ کیٹین نے جان بوجھ کے لمبا روٹ لے لیا، پیسے زیادہ بن گئے۔ پچھلی بار والا ڈرائیور راستے نہیں جانتا تھا، جی پی ایس بھی اس کا خراب تھا وغیرہ وغیرہ۔ ان تینوں سچی کہانیوں میں ایک بات نوٹ کیجیے کہ یہ سب وہ ہیں جنہیں ہم سفید پوش کہتے ہیں۔ ان بے چاروں کے پاس زندگی میں پہلی بار ایک اچھی آفر آئی ہے۔ یہ سچے دل سے کام کر رہے ہیں، دن رات ایک کرتے ہیں، پوری ایمانداری سے نوکری کر رہے ہیں اور اپنا گھر چلا رہے ہیں۔ سواری کرنے والوں کو فرسٹ کلاس نئی گاڑیاں دروازے پر سے لیتی ہیں، جتنے پیسے رکشے والا لیتا تھا اتنے میں ہی یہ لوگ باعزت طریقے سے منزل پر پہنچا دیتے ہیں۔ بغیر کوئی پیسہ لگائے بکنگ ہو جاتی ہے، پوری پوری فیملیاں ذاتی گاڑیاں استعمال کرنا چھوڑ چکی ہیں، ہر فرد ایک کلک پر گاڑی بلاتا ہے اور یہ جا وہ جا۔

گاڑی کی ٹریکنگ کا آپشن بھی موجود ہے۔ یہ سہولیات کیا کم ہیں؟ روایتی ٹیکسیوں سے پچاس فیصد کم کرائے میں آپ سفر کرتے ہیں اور بدلے میں کپتان کیا مانگتے ہیں؟ انہیں عزت دے دیجیے، احترام سے بات کر لیجیے، کوئی غلطی ہو جائے تو معاف کر دیجیے، اس سے زیادہ اور کیا؟ ان گاڑیوں کو مڈل کلاسیے ہی چلا رہے ہیں اور اسی فیصد مڈل کلاسیے ہی سوار ہوتے ہیں، اگر بہت دل چاہتا ہے بدتہذیبی دکھانے کو تو بابا اپنے سے اوپر والی کلاس کے ساتھ متھا لگائیے، یہ جو بے چارے دس بارہ گھنٹے گاڑی چلا کے روزی روٹی کما رہے ہیں انہیں تو بددل نہ کیجے۔ یہ پاکستان میں پہلا کاروبار ہے جو صحیح معنوں میں بائے دی پیپل ہے اور فار دی پیپل ہے۔ اسے بچا لیجیے، یہ لوگ بھاگ گئے، بددل ہو گئے تو ایسی کوئی ٹیکسی سروس پھر کبھی نہیں آئے گی۔ فیصلہ بہرحال آپ کا ہے!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain