ڈاکٹر مبارک علی: بیمار قوم اور مورخ


یہودیوں اور مسلمانوں کے شعورِ تاریخ میں ایک بنیادی بات مشترک ہے کہ دونوں ہی تاریخ کو اپنی قومی یا ملّی تاریخ کے تابع سمجھتے ہیں۔ چنانچہ دونوں کے نزدیک کائنات سے لے کر انسانی معاشرے اور سماج سمیت تمام موجودات کی تاریخ دراصل ان کی قومی تاریخ کا ہی ایک حصہ ہے۔ کائنات کی تخلیق اور پھر انسانی معاشرے کے قیام اور ارتقا کے سلسلے کا انجام ان کی قومی فتح پر ہوگا۔ یہ حتمی فتح دونوں کے نزدیک تاریخ کا انجام ہوگا۔ دونوں کے نزدیک تاریخ میں ایک الوہی یا خدائی ارادہ موجود ہے جو تاریخ کو اپنے مقصد یعنی ان اقوام کی فتح کی طرف لے جانے کا ذمہ دار ہے۔ گویا دونوں اقوام تاریخ میں مقصدیت کی قائل بھی ہیں۔ یہود اپنے آپ کو خدا کی لاڈلی قوم سمجھتے تھے اور ان کا خدا دراصل ان کا قومی خدا تھا۔ بنی اسرائیل کو کئی قبائل اور قوموں سے جنگ اور کھچاؤ کا مسلسل سامنا کرنا پڑا تھا۔ ان قوموں اور قبائل کے اپنے اپنے خدا تھے۔

عہد نامہ قدیم میں ان خداؤں کے وجود کی یکسر نفی نہیں کی گئی بلکہ ان جھوٹے خداؤں میں بعض شیطانی طاقت کے مالک تو بعض ایسے فرشتے سمجھے جاتے تھے جو کسی ناپسندیدہ عمل کی پاداش میں آسمان سے نیچے گرا دیے گئے۔ بنی اسرائیل کے خیال میں ان جنگوں میں ان کا خدا ان کا مددگار تھا۔ باقی قبائل پر بنی اسرائیل کی فتح اور باقی خداؤں پر ان کے خدا کی فتح تاریخ کے ایک ہی مقصد کی دو شکلیں تھے۔ چنانچہ یہود اپنے قومی خدا کو رب الافواج بھی کہتے تھے۔ الہیاتی اعتبار سے یہودیت میں موجود بظاہر دوئی یا کثرت پر مبنی یہ پیکار آمیز ماحول شاید پارسی اور دیگر دیومالائی عقائد کا اثر بھی ہو۔ مسلمان چونکہ مذہبی و ملی اعتبار سے توحید پرست ہیں لہذا ان کے نزدیک کائنات میں کوئی دوسرا خدا سرے سے موجود نہیں ہے اور واحد خدا ہی اصل خدا ہے۔ مسلمان اسی واحد خدا کے ماننے والے ہیں اور ایک دن خدا کا مذہب ساری دنیا پر غالب آنے والا ہے۔ مسلمانوں کو خدا کی چنیدہ امت ہونے کے ناتے خدا کے اس مذہب کی دعوت دینے اور اسے غلبہ دلانے کے ذمہ داری دی گئی ہے جس میں انہیں خدا کی مدد ونصرت حاصل رہے گی بشرطیکہ وہ خدا کے پیغام کو فراموش نہ کریں۔

گویا دونوں اقوام کے نزدیک ان کی ملی و قومی تاریخ ہی اصل تاریخ ہے جس کا ایک خاص مقصد ہے جس کے حاصل ہونے کے بعد تاریخ کا خاتمہ ہوجائے گا۔ تاریخ کو اس انجام کی طرف وہی خدائی ارادہ حرکت دے رہا ہے جس نے تخلیق کے لمحے تاریخ کا آغاز کیا تھا۔

مسلمان تاریخ نگار اپنی کتب کا آغاز تخلیق کائنات سے کرتے ہیں اور انسانی تاریخ کا آغاز حضرت آدم سے۔ چونکہ تاریخ کا حتمی مقصد تاریخ کی ابتدا سے ہی تاریخ میں موجود ہے بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ خود تاریخ اسی مقصد کی وجہ سے وجود میں لائی گئی ہے۔ چنانچہ حضرت آدم سے لے کر حضرت ختم الانبیا ﷺ تک اسلام کا وہ اصلی پیغام اور اس کے داعی بھی موجود رہے ہیں۔ نامور مسلم محقق ڈاکٹر فضل الرحمان نے بھی اس موقف کا ایک اور تناظر میں اثبات کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اسلام سے پہلے کے انبیا اور مذہبی شخصیات کو اسلامائزڈ کیا گیا ہے۔ چنانچہ مورخ اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ کا آغاز حضرت آدم سے کرتے ہوئے اپنے دور تک آتا ہے اور اس کے نزدیک مسلمان قوم تاریخ کے اس مقصد کی نگہبان ہونے کی حیثیت سے تاریخ کا بنیادی ترین موضوع ہے۔

تاریخ میں مقصدیت کا نظریہ دراصل طاقت اور تضاد کا نظریہ ہے۔ مذاہب کے علاوہ یہ نظریہ بعض دیگر صورتوں میں بھی ملتا ہے۔ اسی مقصدیت کی وجہ سے ایسے تمام نظریات حتمیت پسند بھی ہوتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک تاریخ کا ایک حتمی انجام موجود ہے جو حتمی غلبہ یا فتح ہے۔ یہ بھی ایک پاور سمبل ہے۔ تاریخ کے مشاہدے سے یہ سبق ملتا ہے کہ جب تک ایسے نظریات کے قائل گروہ عملی زندگی اور سیاست و جہانبانی میں توانا رہتے ہیں تب تک ان کا تاریخی شعور بھی ایک صحت مند اور طاقت بخش تصور کا کام کرتا رہتا ہے۔ تاہم طاقت صرف نظریے کی طاقت نہیں ہے۔ جب عملی میدان میں قوم شکست کھا کر دب جاتی ہے تو نظریہ کی طاقت بھی ضعف میں بدل جاتی ہے۔ اور یہی نظریہ ایک پوری قوم کو بیمار نرگسیت اور داخلیت میں مبتلا کر دیتا ہے۔ چونکہ ان کے نزدیک تاریخ کا مقصد طاقت سے مشروط ہے لیکن عملی میدان میں دشمن طاقتور ہے تو کمزور اور بیمار اقوام ایسے داخلی تعصبات میں مبتلا ہوجاتی ہیں جو نظریے اور حقیقی صورتحال میں موجود تضاد کو حل کرے۔ عموماً ایسے تعصبات میں ہر اجنبی اور خارجی شے کو دشمن سمجھنا، دشمن کو حقیر بنا کر پیش کرنا اور ایسی سازشوں کا گلہ کرنا جو ہر وقت دشمن ان کے خلاف چلتا رہتا ہے۔ ایسی صورتحال میں پوری کی پوری قوم کا اخلاقی تناظر بھی تبدیل ہوجاتا ہے۔

فریڈرک نطشے نے اپنی کتاب Antichrist میں بنی اسرائیل کے حوالے اس پہلو پر زبردست محاکمہ کیا ہے۔ اس کے نزدیک جب یہود عملی میدان میں شکست کھا گئے تو انہوں نے طاقت کی بجائے اخلاق کو مرکزی پہلو بنا کر پیش کیا۔ کمزور اور شکست خوردہ یہودیوں نے ایسا اخلاقی نظام پیش کیا جس میں کمزور طاقتور سے بہتر شخص سمجھا جاتا ہے۔ اس طرح یہودیوں نے حقیقی دنیا میں اپنی شکست کو اخلاقی تناظر میں لے جا کر اس کا مداوا کرنا چاہا اور ”کمزور / غلام شخص“ کی اخلاقیات پیش کیں جس کا ایک لازمی نتیجہ یہ بھی تھا کہ عملی دنیا میں طاقتور ( جو یہود کے دشمن تھے) اخلاقی طور پر برے ہیں۔ چونکہ یہودیوں اور مسلمانوں کا شعورِ تاریخ بنیادی اشتراکات رکھتا ہے لہذا سقوط بغداد سے شروع ہوئے آٹھ سو سالہ مسلم زوال کی مناسبت سے اخلاقیات کے ضمن میں ایسا علمی محاکمہ شاید مسلم اقوام کے بارے میں نہیں کیا گیا۔ تاہم یہ طے ہے کہ اس زوال نے مسلم اقوام کے قوائے عملی و اخلاقی کو ازحد ضعیف کردیا ہے اور ہم بھی اپنی شکست کا مداوا بیمار تعصبات کی مدد سے کرنے کی کوشش میں مشغول ہیں۔ جون ایلیا نے شاید اسی ضمن میں کہا تھا کہ ہم ایک ہزار سال سے تاریخ کے دستر خوان پر صرف حرام خوری کر رہے ہیں۔

ایسی صورتحال میں ایک بیمار قوم مورخ سے بیش بہا امیدیں باندھ لیتی ہے اور سمجھتی ہے کہ شاید ان کا تاریخی نقصان مورخ اپنی ذاتی کوششوں سے پورا کر دے گا۔ اس تاریخ کو سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے جو اس تعصب کو پورا کرنے میں معاون ہو۔ لیکن قوم کی بیمار امیدوں پر پورا اترنے والے مورخین کے زیب داستان کا سچ جھوٹ جاننا ناممکن نہیں ہے۔ عملی میدان اور حقیقی زندگی میں وہی عناصر کامیاب ہوتے ہیں جن کا شعور ِتاریخ تعصب کی بجائے حقیقت کی طرف جھکاؤ رکھتا ہوگا۔ تاریخی حقائق سے نظر پھیرنے والی تمام اقوام اپنے من پسند مورخین کے زور قلم کے باوجود بھی ناکام نظر آئیں گی۔ کارزارِ دنیا دراصل تاریخ اور تعصب کی امتحان گاہ ہے۔ طاقت تعصب اور ایسے ہی دیگر لاشعوری محرکات سے نہیں بلکہ حقیقت سے حاصل ہوتی ہے ۔

ان اقوام میں ہر وہ شخص جو اس ملی تاریخ سے اتفاق نہ رکھتا ہو وہ قومی غدار اور کذاب قرار پاتا ہے۔ اس کا شمار بھی دشمن کی فہرست میں کرتے ہوئے اسے سازشی قرار دیا جاتا ہے۔ طرفہ ستم یہ ہے کہ ایسے موقع پر اختلاف کی گنجائش بھی بہت زیادہ ہوتی ہے کیونکہ اگر آپ قومی امیدوں اور تعصبات پر پورا نہیں اترتے اور ان کی تائید نہیں کرتے آپ کے موقف کو اختلافی ہی سمجھا جائے گا۔ ضعف مزید ضعف پیدا کرتا ہے اور علمی جستجو اور آزاد تحقیق پر پہرے لگنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ان موقعوں پر اگر مذہب زیادہ غالب ہو تو خون خرابہ اور قتل عام شروع ہوجاتے ہیں۔ ازمنہ وسطیٰ میں یورپ اور موجودہ دور میں مسلم اقوام اسی صورتحال سے دوچار ہیں۔

یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ زوال ایسے حربوں سے ختم نہیں ہوتا۔ آپ کو اپنے ضعف کا علاج کرنا ہے اور اپنی شکست کا داغ دھونا ہے تو سب سے پہلے ان تعصبات سے نجات پائیے جو اسی ضعف کے پیدا کردہ ہیں۔ ان پر فخر کرنا چھوڑ دیجیے۔ یہ وہ صورتیں اور آوازیں ہیں جو صرف بیمار سن سکتا ہے۔ آپ انہیں جھٹک دیں۔ اگر انہیں کی بازگشت کے طور پر آپ شور جاری رکھیں گے تو یاد رہے کان صرف مورخ کے ہوتے ہیں تاریخ خود بہری ہوتی ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).