کیا مرد سے مقابلہ کرنے کے لئے مرد بننا پڑے گا؟


ہم ایک پدر سری معاشرے کا حصہ ہیں۔ پدر سری معاشرہ ایسا معاشرہ ہوتا ہے جہاں گھر اور حکومت کا سربراہ مرد ہوتا ہے۔ ایسے معاشروں میں عموماً عورت کے حقوق پر زور و شور سے بات کی جاتی ہے لیکن حقیقت میں انہیں یہ حقوق نہیں دیے جاتے۔ پدر سری معاشرے میں اگر کوئی عورت کسی مرد کے خلاف بات کرے یا اس پر کوئی الزام لگائے تو اس کا سارا ملبہ الٹا اسی پر آ پڑتا ہے۔ اس کی مثال ابھی ہم نے عائشہ گلالئی کے عمران خان پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات لگانے کے بعد دیکھی ہے۔

پاکستان میں عورتوں کی ایک بڑی تعداد ہر سطح پر ہراسمنٹ کا شکار ہوتی ہیں چاہے وہ ہماری گلیاں ہوں، دفاتر ہوں یا انٹرنیٹ ہو خواتیں کہیں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ اگر کوئی اپنے گھر سے اکیلے نکل بھی پڑی تو کسی سنسان جگہ پر کوئی راہگیر یا موٹر سائیکل سوار موقع پا کر چھیڑتا ہوا نکل جائے گا۔ خاتون یہ بدتمیزی صبر کے ساتھ پی جاتی ہے۔ وجہ؟ اگر وہ شور مچائے تو ارد گرد سے دس لوگ آ کر کھڑے ہو جائیں گے اور پوچھیں گے کہ کیا ہوا؟ سب سے پہلے تو ملزم ہی اکڑ کر بولے گا جی میں نے آپ کو کیا کہا ہے؟ بتائیں؟ اب آگے سے بے چاری عورت کیا جواب دے؟ چُپ کر جاتی ہے۔ یہ ہراسمنٹ اب سڑکوں سے نکل کر انٹرنیٹ پر بھی آ گئی ہے۔ اگر آپ خاتون ہیں اور کئی پیجز یا گروپس میں سرگرم رہتی ہیں تو آپ کو ایک بڑی تعداد میں ان چاہے پیغامات بھی وصول ہوتے ہوں گے جن میں آپ سے دوستی کی خواہش کو کافی جذباتی انداز میں ظاہر کیا گیا ہوتا ہے۔

گزشتہ دنوں لڈو سٹار نامی گیم نے انٹرنیٹ پر تہلکہ مچا دیا۔ سینکڑوں لوگوں نے گیم کو ڈاوئن لوڈ کیا اور آن لائن لڈو کھیلنا شروع کر دی۔ تھوڑے ہی دنوں میں سوشل میڈیا ہر خبریں آنے لگی کہ یہاں بھی خواتین محفوظ نہیں ہیں۔ اکثر خواتیں کے ساتھ لڈو کھیلتے ہوئے مرد حضرات انہیں ہراساں کرنے والے پیغامات بھیجتے ہیں۔ ان سب خواتین نے ان پیغامات کے سکرین شاٹس انٹرنیٹ پر ڈالے اور ایسے لوگوں کو عوام کے سامنے ذلیل کیا۔

یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ جب ایک عام عورت کے پاس ہراسمنٹ سے نبٹنے کا اتنا اچھا طریقہ ہے تو قومی اسمبلی ممبر عائشی گلالئی اس کا فائدہ کیوں نہیں اٹھاتیں؟ عائشہ گلالئی نے ایک پریس کانفرنس کر کے پاکستان تحریکِ انصاف کے چئیر میں عمران خان پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام لگایا۔ اس کے بعد عائشہ ہر ٹاک شو میں نظر آئیں۔ سب اینکرز نے ان سے ان گندے پیغامات کے بارے میں مختلف سوالات کیے مگر عائشہ گلالائی کسی کو بھی مطمعن نہ کر سکیں۔ وہ اس ضد پر قائم رہیں کہ عمران خان کا بلیک بیری چیک کیا جائے۔ انہوں نے یہ پیغامات سینئیر صحافی حامد میر کو دکھائے اور انہوں نے عائشہ کے الزامات کی تصدیق بھی کر دی لیکن اس کے باوجود عائشہ کو چاہیے تھا کہ وہ ہر جگہ ٹھوس لہجے میں بات کرتیں۔ صحافیوں کے تیکھے سوالات کے جواب میں آئیں بائیں شائیں کرنے سے ان کی پوزیشن کافی کمزور ہو گئی ہے۔

سونے پر سہاگا یہ ہوا کہ کچھ دن پہلے عائشہ گلالئی نےاپنے سر پر پگڑی پہن لی۔ جب ان سے اس پگڑی کی بابت دریافت کیا گیا تو عائشہ نے کہا کہ انہوں نے اس معاشرے کے مردوں سے مقابلہ کرنے کے لئے پگڑی پہنی ہے۔ ایک ٹاک شو میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ یہ پگڑی تب تک پہنی رکھیں گی جب تک انہیں انصاف نہیں مل جاتا۔ مردوں سے مقابلہ کرنے کے لئے مرد بننا لازمی نہیں ہے۔ اگر آپ حق پر ہیں اور آپ میں سچ بولنے کا حوصلہ ہے تو آپ دنیا کے کسی بھی انسان سے ٹکر لے سکتے ہیں۔ ایک عورت کو اللہ نے اتنا مضبوط ضرور بنایا ہے کہ جب وہ کسی کام کو کرنے کی ٹھان لے تو اسے کر کے رہتی ہے۔ عائشہ گلالئی کو بھی چاہیے کہ وہ مردوں کی پگڑی اتاریں اور عورت کی چادر پہنیں۔ پھر میدان میں آئیں اوور کہیں کہ میں ان مردوں کا مقابلہ ایک عورت بن کر کروں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).