ماسکو میں ایک لکھنوی دعوت


وہ لکھنؤ سے ہیں۔ روس میں پڑھی ہیں۔ جوان بیٹے کی ماں ہیں جو انگلینڈ میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد کسی اچھے ادارے سے وابستہ ہے اور مستقبل کی بیوی تلاش کر چکا ہے مگر یہ اس کی ماں لگتی ہی نہیں۔ بیشتر وقت مسکراتی ہوئی یا پھر سنجیدہ اس لڑکی جیسی دکھنے والی خاتون کا نام پراگتی ہے یعنی انقلاب۔ کسی بھی طرح کے روایتی کمپلکس سے پاک اس مہذب خاتون سے میری شناسائی ریڈیو صدائے روس میں ہوئی تھی جب وہ ہم سے کہیں بعد میں آ کر ہندی شعبے سے وابستہ ہوئی تھیں۔ بتایا تھا کہ اس سے پہلے وہ ایک بینک میں تھیں۔ تعلیم بھی دہری تہری اعلی تعلیم بتائی مگر وہ اپنے مزاج میں ایک مطمئن، مہذب، نفیس مزاج اور منکسرالسلوک خاتون ہیں۔ کل ان کے ہاں دعوت تھی۔ ان کے گھر کو کشمیر سنگھ نے ” پراگتی کا محل“ کہا تھا مگر پراگتی درویش طبع انسان ہیں۔

ہوا یہ کہ ہفتہ عشرہ پہلے مجھے میرے دوست کشمیر سنگھ جو اگرچہ تاریخ کے مضمون میں پی ایچ ڈی ہے، اپنے دادا اور باپ کی طرح کمیونسٹ ہے، داڑھی مونچھ صاف ہے پر پنجابی ہونے پر متفاخربھی، کا فون آیا تھا جس نے گاڑھی پنجابی میں کہا تھا، “ اوئے مرجے آ، آپاں 16 گست نوں کٹھے ہونے آں، اوئے چودہ نوں پاکستان دی۔ سی تے 15 نوں ہندوستان دی۔ آپاں 16 نوں دونہاں دیاں۔ دینے آں“ پھر قہقہہ لگا دیا تھا، میں بھی قہقہہ بار ہو گیا تھا۔ یہ اس کا مدعو کرنے کا انداز تھا، دوستانہ مشرقی پنجابی نوعیت کا۔ اس نے بتایا تھا کہ پراگتی کہتی ہیں کہ اکٹھے اس کے ہاں ہوں پر میں سمجھتا ہوں کہ بوجھ ڈالنے کی بجائے دیوی ریستوران میں مل لیتے ہیں۔ خیر جب فائنل ہوگا توبتا دوں گا پر تاریخ ذہن میں رکھنا۔

پندرہ اگست کو میں نے خود اسے فون کیا۔ اس نے بتایا کہ وہ شہر سے باہر تھا۔ پراگتی بھی نہیں ہے، انگلینڈ گئی ہوئی ہے۔ پراگتی ویسے بھی سال میں پانچ چھ ملک ضرور گھوم آتی ہیں۔ میں نے کہا یعنی اکٹھا ہونا کینسل۔ بولا کینسل وینسل نہیں، میں کل تمہیں ایڈریس واٹس ایپ کر دوں گا۔ سات بچے شام وہاں پہنچ جانا۔ شام تک اس نے ایڈریس لکھ بھیجا۔ 16 کو میں نے فون کرکے پوچھا کہ بھائی یہ کسی کا گھر ہے کیا؟ اس نے بتایا پراگتی کا ہے، وہ لوٹ آئی ہے۔ شام چھ بجے ہم نزدیکی میٹروسٹیشن پر ملے اورپیدل چلتے جانب منزل رواں ہوئے۔ میں 1993 تا 1997 اس علاقے میں مقیم رہا تھا مگر اب نقشہ ہی بدلا ہوا تھا۔ بہت زیادہ نئی بلند و بالا عمارتیں تعمیر ہو چکی ہیں۔ زیر زمین راستے سے لیننسکی پراسپیکٹ نام کی بڑی سڑک عبور کرنے کے بعد 4 اور 6 نمبر عمارات آئیں مگر 8 دکھائی نہ دی جس میں پراگتی کا گھر تھا۔ 6 نمبرکی نئی عمارت تو بہت وسیع وعریض تھی۔ اس کے عقب میں جا کر باغیچے کے ایک جانب لوہے کی باڑ لگے احاطے میں 8 نمبر عمارت دکھائی دی۔ بند دروازے کے پیچھے کیبن میں محافظ دربان بیٹھا تھا۔

اندر سے کوئی خاتون باہر نکلی تو ہم داخل ہو گئے۔ ساتھ ہی پھولوں بھرا چمن تھا۔ محافظ دربان نے مدعا پوچھا۔ معذرت کرتے ہوئے کہا، “ آپ باہر جائیے۔ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ ڈیجیٹل لاک کیسے کھولنا ہے۔ کھل جائے تو اندر آ جائیے گا۔ ایسے آپ کو جانے نہیں دے سکتا کیونکہ آگے پھر محافظ دربان ہیں۔ کشمیر نے لاک کے بٹن دبائے اور دور عمارت کے کسی حصے میں بیٹھی پراگتی نے دروازہ کھول دیا۔ عام عمارتوں کے اندر گھری اس خاص عمارت میں ماسکو چھپ گیا، لگتا تھا سوئٹزرلینڈ ہے۔ پھول پھلواڑی، بے حد صفائی، چمکدار نئی بڑی بڑی گاڑیاں۔ عمارت کے چار بلاک تھے ہم چوتھے میں داخل ہوئے۔ دفتر میں بیٹھے دربان سے متعلقہ فلیٹ کا فلور پوچھا۔ لفٹ سے چوتھے فلور پر نکلے۔ بیل بجائی تو کورنش بجا لاتی اور مسکراتی ہوئی پراگتی نے دروازہ کھولا۔ استقبال کیا، میرے تقاضے پر دوڑتی گئیں اور چپل لا کردیے۔ میں ماسکو کے پرانے فلیٹس کا عادی ہوں جو ایک، دو، تین یا زیادہ سے زیادہ چار کمروں کے ہیں جں میں علیحدہ ڈرائنگ روم کا تصور نہیں۔ کچن ہی اکٹھے بیٹھنے کی جگہ ہوتی ہے مگر یہ جدید طرز کا وسیع اور کشادہ فلیٹ تھا جس میں داخل ہوتے ہی ایک جانب منور پینٹری، راہداری کے ایک جانب جدید کچن اور اس کے سامنے کشادہ ڈرائنگ روم۔

پوچھنے پر معلوم ہوا کہ پانچ کمرے علیحدہ ہیں۔ روس کے فلیٹس میں ایک باتھ روم اور ایک ٹائلٹ ہوتا ہے یا دونوں اکٹھے مگر اس نئے فلیٹ میں تین جدید اور مجہز باتھ روم ہیں۔ اوپر سے پراگتی باقاعدہ آرٹسٹ ہیں چنانچہ انہوں نے راہداری سمیت پورے گھر کو پینٹنگز اور تصویروں سے سجایا ہوا تھا۔ بہت سے مہمان پہنچ چکے تھے کچھ پہنچنے کو تھے۔ پراگتی کے بزنس مین شوہر بمبئی کے ہمانشو نے سب سے پینے کی چوائس پوچھنی شروع کر دی۔ مجھے کہنے لگے آپ کو چھوڑے دس سال ہو گئے آج پھر شروع کر دیجیے مگر میں نے اورنج جوس لینے پر اکتفا کیا جو کچھ تلخ تھا۔ اگرچہ مجھے وہ واقعہ یا لطیفہ یاد آیا جب دورہ ماسکو کے موقع پر فیض احمد فیض نے احمد ندیم قاسمی کے اورنج جوس کے گلاس میں آنکھ بچا کر تھوڑی سی وادکا انڈیل دی تھی اور قاسمی صاحب جوس پی کرمسرور ہو گئے تھے مگر ہمانشو سے میری دوسری ملاقات تھی چنانچہ وہ مجھ سے بے تکلف نہیں ہو سکتے تھے۔

یہ اکٹھ ماضی قریب میں ریڈیو صدائے روس کے اردو ہندی سیکشن سے وابستہ رہے لوگوں کا اکٹھ تھا۔ مجھ سے پہلے موجود مہمانوں میں اردو ہندی مشترکہ سیکشن کی سابق سربراہ ارینا میکسیمنکو، اردو سیکشن کی ریتا، ہندی سیکشن کی ارینا لیبیدیوا، کشمیر سنگھ اور بنگالی سیکشن کی لیوسیا موجود تھیں۔ پھر ناستیا، یوگندرناگپال، رام بھائی، سروج اور الپنا بھی پہنچ گئیں۔ آخر الذکر دو خواتین اپنے شوہروں سنتوش اورسریش کے ساتھ آئی تھیں جن کا ہمانشو کی طرح ریڈیو سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

سب اکٹھے ہو گئے تو ہندوستانی خواتین نے سٹارٹر چن دیے جن میں سموسے، پکوڑے، سلاد اور چکن بوٹی تھے۔ تلے ہوئے گرم گرم کاجو کی قاب پہلے سے مہمانوں کے سامنے دھری تھی۔ پھر دوسرے لوازمات بھی رکھ دیے گئے۔ ہمانشو نے سامنے والی کھڑکی کے کارنس پر بار سجا لی اور خواتین کو جن ٹانک اور مردوں کو وادکا کے جام بھر بھر کے دینے لگے۔ میں نے تصویریں بنانا شروع کر دیں۔

کچھ ٹکڑیوں میں، کچھ آپس میں باتیں کرنے لگے۔ بیچ بیچ میں کوئی اٹھ کر ٹوسٹ بھی بول دیتا تھا۔ بالآخر کھانے کا دور شروع ہوا۔ کھانوں میں پنیر پالک، دال چاول، مکس ویجیٹیبل، چھوٹی چھوٹی پتلی چپاتیاں اور چقندرکا رائتہ شامل تھے۔ سب نے رکابیاں بھریں اور بیٹھ گئے کھانے اور باتیں کرنے۔ میں کچن اور ڈرائنگ روم کے درمیان والی کارنس کے ڈرائنگ روم کی طرف رکھی ہوئی اونچی کرسی پر بیٹھ کر کھانا کھانے لگا۔ پراگتی اورسروج رضاکارانہ خدمت پر مامور تھیں۔ پراگتی نے دال اور رائتے سے بھری دو چھوٹی چھوٹی کٹوریاں لا کر میرے سامنے رکھ دیں۔ سروج بولی آپ نے ملی جلی سبزی نہیں لی، دیجیے پلیٹ۔ وہ مکس ویجیٹیبل ڈال لائی۔ کھانا مزیدار تھا اور لوگوں کی زندہ دلی اس سے بڑھ کر بالخصوص سنجیدہ مزاج اور سادہ رو سروج کے شوہرسنتوش کی باتیں چٹکلوں بھری تھیں۔ جب چائے کا دور چلا تو بولے، “ میں گھر چائے میں شکر کا آدھا چمچ لیتا ہوں لیکن باہر پیالی میں اڑھائی چمچ لے کر کمی پوری کر لیتا ہوں“۔ چائے سے پہلے گرم کیک کا ٹکڑا اور آئس کریم سے تواضع کی گئی تھی البتہ مجھے یہ امتزاج کچھ عجیب لگا۔

اتنے لوگ برتن میلے کرتے رہے۔ سروج اکٹھے کرتی گئی۔ جوان اورخاموش طبع کرغیز ملازمہ ساتھ ساتھ دھوتی گئی۔ جب ہم نکلنے لگے تو کچن اور سنک یوں چمک رہے تھے جیسے کسی نے کچھ نہ کھایا ہو۔ پراگتی اور ہمانشو نے ہم مہمانوں کو خوش دلی سے رخصت کیا۔ نیچے پہنچ کر کاروں والے ہم بن کار لوگوں کو نزدیکی میتر و سٹیشن پر اتار گئے۔ یوں کم از کم ایک شام بور گزرنے سے بچ رہی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).