آپ کی دعا سے میں کچرا بابا ہو گیا۔۔۔۔


شہر میں روز ایک نیا مسئلہ کھڑا ہوتا ہے۔ اب مسئلہ یہ ہو گیا ہے کہ کوڑے کو لوگوں نے مسئلہ سمجھنا چھوڑ دیا ہے۔

شہر میں جس طرف دیکھیے، کوڑا نظر آتا ہے۔ سڑکوں کے کنارے، خالی میدانوں میں، مکانوں کے بیچ میں ذرا سی خالی رہ جانے والی جگہ میں۔ ڈھیر لگے ہوئے ہیں جن پر آج کل مکھیاں بھی نہیں بھنبھناتیں۔ اسی کے درمیان، جیسے تھوڑی بہت ’ورائٹی‘ پیدا کرنے کے لیے گندے پانی کے تالاب۔ زمین کی کسی درز سے معلوم ہوا گٹر اُبل رہا ہے اور بدبودار، سیاہی مائل پانی جہاں جگہ ملے جمع ہورہا ہے۔ کسی کسی جگہ پر یہ کوڑے کا ڈھیر گندے پانی سے مل جاتا ہے تو عجیب بہار دکھاتا ہے۔ جیسے دو آتشہ ہوگیا ہے۔ اور انسانی کارکردگی کے اس حیرت انگیز عجوبے کو دیکھنے کے لیے آپ کو بہت تلاش نہیں کرنا پڑتا۔ یہ آپ کو یہیں کہیں مل جاتا ہے، اگلی ہی گلی میں یا پھر ایک آدھ سڑک چھوڑ کر۔ لیکن آپ کو کہیں جانے کی ضرورت بھی نہیں۔ یہ گندا پانی، یہ ڈھیر کوڑا خود چلتا ہوا آپ کے پاس پہنچ جائے گا۔ آپ کے قدموں سے لپٹ جائے گا۔ اور پرانے فلمی گانے کے حساب سے، پھر نہ چُھڑا سکو گے دامن۔

ٹیلی ویژن پر اشتہاری فلم روز آپ کو باور کراتی ہے__ داغ تو اچھے ہوتے ہیں۔ کوڑے کے لیے نئی دُھن کی ضرورت ہے اور نہ اشتہاری مُہم کی۔ آپ اور کوڑا ساتھ ساتھ۔ اب تو لگتا ہے جیون بھر کا ساتھ ہے۔

کراچی میں کوڑا اب فصل کا پھل نہیں رہا۔ یہ سدا بہار ہے۔ اور اس فراوانی میں شہر کا ہر حصہ شریک ہے۔ یہ سہولت تمام علاقوں کو فراہم کی گئی ہے۔ شہر کے لوگ دیکھتے ہیں اور دیکھتے ہوئے بھی نہ دیکھ کر گزر جاتے ہیں۔ پہلے بُرا بھلا کہتے تھے۔ حکومت کے خلاف بڑبڑاتے تھے۔ کوئی عمر رسیدہ وزیراعلیٰ کو ذمہ دار قرار دیتا تھا، کوئی سرکار کی نااہلی کے خلاف بکتا جھگتا۔ اب لوگ خود ہی ہاتھ پائوں بچا کر سڑک سے گزر جاتے ہیں جیسے کوڑے کو تو وہاں پڑے رہنے کا حق ہو اور پیدل چلنے والے خود ہی دخل در معقولات کر کے وہاں آ گئے ہیں۔ یہی چلن رہا تو کراچی کے لوگ راہ چلتے وقت کوڑے کے ہر ڈھیر سے معافی چاہیں گے۔

ایکسکیوز می پلیز!

میری رہائش شہر کے ایک ایسے علاقے میں ہے جس کو کسی زمانے میں (شاید مذاق کے طور پر) پوش علاقہ سمجھا جاتا تھا۔ یہاں کوڑے کا ایک اور فائدہ ہے۔ اس سے گھر کا راستہ بتانے میں آسانی ہوتی ہے۔ میں بہت آسانی سے لوگوں کو اس حوالے کے ذریعے پھر گم راہ ہونے سے بچا سکتا ہوں۔ سیدھے ہاتھ پر دیکھیے گا تو کوڑے کا بڑا سا ڈھیر ہے۔ بس وہیں سے مڑ جائیے۔ دو چار قدم چلنے کے بعد گندے پانی کا جوہڑ سا آئے گا جو جس طرف سے کھدائی ہو رہی ہے، اس میں سے پھوٹ رہا ہے۔ جی نہیں، بارش کا پانی نہیں ہے۔ کنٹونمنٹ بورڈ سیوریج لائن بچھا رہا ہے۔ جی ہاں، اس علاقے کو آباد ہوئے دس سال سے زیادہ ہوگئے۔ پتہ نہیں اس سے پہلے کیا انتظام تھا۔ کچھ نہ کچھ ضرور ہوگا۔ خیر، آپ گٹر کے پانی سے بچ کر نکلیں۔ اس کے بعد جو کوڑے کا ڈھیر ہے اس پر ملبہ اینٹ گارا نہیں ہوگا۔ بلکہ گیلا کچرا ہوگا، یعنی باسی سبزیاں اور پھل، دودھ کے ڈبّے۔۔۔ جی ہاں آپ کو پتہ چل جائے گا ہمارے پڑوسی آج کل کیا کھا رہے ہیں۔ بس وہیں سے ناک کی سیدھ میں چلے آئیے۔۔۔ آپ سمجھ گئے ہوں گے ناک کا حوالہ میں نے کیوں دیا ہے۔

کوڑے کے یہ ڈھیر نہ ہوں تو راستہ کیسے پتہ چلے؟ پھر گوگل میپ پر بھروسا کرنا پڑے گا اور آپ جانیں اس علاقے میں انٹرنیٹ کبھی چلتا ہے اور کبھی نہیں۔۔۔

اس علاقے کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ کوڑے کا فروغ صرف سڑکوں تک محدود نہیں۔ اصل میں سڑکیں پتلی ہیں۔ ڈی ایچ اے نے سڑکیں برائے نام رکھی ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ پلاٹ بنائے جاسکیں۔ اس لیے گندا پانی اور کوڑا کرکٹ سمندر میں بہا دیا جاتا ہے۔ کلفٹن کی طرف سے گُزار کر ہر گندی نالی کا رُخ اسی طرف کر دیا جاتا ہے۔ کراچی کے لوگوں کی طرح سمندر بھی احتجاج نہیں کرتا۔ خود ہی گندگی وصول کر لیتا ہے اور تھوڑا پیچھے ہٹ جاتا ہے۔

اوپر کی سطروں سے کہیں آپ یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ میں علاقے کی انتظامیہ پر تنقید کررہا ہوں۔ نہیں صاحب، میں محب وطن شہری ہوں اور روز صبح اٹھ کر ’’اے راہ حق کے شہیدو، وفا کی تصویرو‘‘ بلند آواز سے گنگناتا ہوں۔ انتظامیہ نے اپنی طرف سے اچھا خاصا بندوبست کررکھا ہے کہ کوڑا جمع کرنے والی گاڑی مقّررہ دنوں میں آتی ہے اور کوڑا، جو لوگوں نے پہلے سے گھر کے باہر لاکر رکھ دیا ہے، وہ اٹھا کر لے جاتی ہے۔ خرابی تو اس وقت پیدا ہوئی جب ہمارے گھر کے برابر والے پلاٹ کے بارے میں لوگوں کو اندازہ ہوا کہ یہاں فوری طور پر کوئی تعمیر نہیں ہونے والی۔ کراچی میں خالی پلاٹ کو دیکھ کر سب کا دل گدگدا اٹھتا ہے۔ محلے بھر کا کوڑا اس پلاٹ کے بیچ میں لاکر پھینکا جانے لگا۔ میں نے کوشش کی کہ حفظانِ صحت کے اصولوں کے بارے میں محلّے کے لوگوں سے تھوڑی بہت گفتگو کر لوں۔ انھوں نے یہ کہہ کر پیچھا چُھڑا لیا کہ یہ سارے کام تو نوکر کرتے ہیں۔ نوکروں کو روکنے کی کوشش کی تو ہر ایک پہلے تو یہ کہتا، ہم نہیں پھینکتے وہ تو لال چھت والے مکان کے نوکر پھینکتے ہیں۔ ایک آدھ بار نرمی سے سمجھایا کہ میں خود دیکھ رہا تھا تو وہ آنکھیں نکالنے لگے کہ آپ کون ہوتے ہیں روکنے والے؟ بنیادی حقوق پر بات آگئی اور پھر اپنی عزّت بھی تو پیاری ہے۔ مکھیاں بھنبھنائیں یا کتّے لوٹیں، کراچی کے شہریوں کی طرح ہم نے کوڑے کے اس ڈھیر کو قبول کر لیا۔ بلکہ صدقِ دل سے اپنا پڑوسی مان لیا۔ مگر اس کا خاتمہ ہوگیا کہ قریب کے ایک مکان میں رہنے والے صاحب غالباً گاڑیوں کا کاروبار کرتے ہیں۔ انھوں نے اس خالی پلاٹ کو گاڑیاں کھڑی کرنے کے لیے چُن لیا۔ ہمارے گھر ویسے ہی کون آتا ہے، دو ایک بار یہ بھی سُننے کو ملا کہ گھر کے سامنے اتنی گاڑیاں کھڑی تھیں کہ ہم سمجھے مہمان داری ہو رہی ہے۔ میں اس نتیجے پر پہنچنے والا ہوں کہ اس سے تو وہ کوڑا بھلا تھا۔ کسی کو بدگمان تو نہیں کرتا تھا۔

کراچی کے شہریوں کی طرح میں اس نتیجے کے قریب پہنچ گیا ہوں کہ کوڑے کے بے شمار فائدے ہیں۔

عافیت اسی میں ہے کہ کوڑے کو جزوِ زندگی سمجھ کر قبول کر لیجیے۔ یہ جانے کے لیے نہیں آیا۔ پہلے شہر کا حصّہ تھا اب ہماری زندگیوں میں شامل ہوگیا ہے۔ اس سے بچھڑ کر رہنے کا تصوّر بھی نہیں کرسکتے۔ کوڑا نہ ہوگا تو جیسے زندگی میں کچھ کمی رہ جائے گی، کسی لازمی عُنصر کی کمی۔

رفتہ رفتہ یہ کوڑا ہماری ہستی کا سامان ہوتا جا رہا ہے۔ شہر تک کیوں محدود رہے، ہمارے گھروں میں داخل ہوگیا ہے، ہماری شناخت کا حصہ بن گیا ہے۔

وہ دن دور نہیں جب کراچی کو اسی حوالے سے پہچانا جائے گا۔ کراچی سے زیادہ مجھے اپنی فکر ہے۔

برسوں پہلے کرشن چند کا افسانہ ’’کچرا بابا‘‘ پڑھا تھا جس کا مرکزی کردار ایک بوڑھا ہے جو بمبئی میں کوڑے کے ڈھیر پر رہتا ہے۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے، میں نے اس وقت سوچا تھا اور افسانے کو کرشن چندر کے ہاں مبالغہ اور زبردستی کی بناوٹ سمجھا ہوگا۔ لیکن اب اس افسانے کا نام بھی کوئی زور سے ادا کردے ۔۔۔ کچرا بابا!

جواب میں، میں فوراً بول اٹھوں گا۔۔۔ حاضر سائیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).