مسلمان نظر آنے سے کیسے پیچھا چھڑائیں؟ (2)


باسم یوسف اچھے خاصے ڈاکٹر تھے۔ نامعقول سیاسی خیالات کے باعث مصر سے نکلنا پڑا۔ امریکہ میں پناہ لی۔ ذہین آدمی ہیں۔ ایک ٹیلی ویژن پر طنزیہ سیاسی تبصرہ کرنے لگے۔ پروگرام بہت مقبول ہوا۔ امریکا میں سیاسی طنز کا شاید ہی کوئی ٹیلی ویژن پروگرام ہو جسے باسم یوسف جیسی مقبولیت ملی ہو۔

باسم یوسف تو مسلمانوں جیسا نام ہے۔ اب یہ پرانا امریکا تو نہیں کہ عمر شریف نام کا اداکار مصر سے آئے اور ٹھاٹھ سے زندگی گزارے۔ دہشتت گرد حملے روز کا معمول بن گئے ہیں۔ دہشتت گردی کا واقعہ پیش آتے ہی پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ کیا یہ حرکت کسی مسلمان نے کی ہے؟ شومی قسمت  کہ یہ اندیشہ اکثر درست ثابت ہوتا ہے۔ مسلمانوں کے لئے زندگی اجیرن ہو گئی ہے۔ اچھے خاصے امن پسند مسلمان پر دہشت گرد ہونے کا شبہ کیا جاتا ہے۔ اس ذلت سے کیسے بچا جائے؟

قانون کی باقاعدہ پابندی کرتے ہیں لیکن ٹرین میں قدم رکھتے ہی فکر لاحق ہو جاتی ہے کہ دوسرے مسافروں کو کیسے یقین دلایا جائے کہ ہم مذہب کے نام پر لڑنے مرنے اور دوسروں کو بھی لے ڈوبنے والے مسلمان نہیں ہیں؟ ہماری تو صورت ہی سوال ہے۔ اپنی جلد کا رنگ کیسے بدلیں۔ سر کے بال کیسے تبدیل کریں؟ چپٹی ناک کو کیسے ستواں بنائیں۔ لباس پر گرفت ہوتی ہے۔ منہ کھولتے ہیں تو لہجہ چغلی کھاتا ہے کہ ہم مسلمان ہیں۔ وہاں کوئی عربی، ہندی یا اردو میں تمیز کرنے والا تو نہیں بیٹھا۔ ایک خاص طرح کی آواز سنتے ہی  کان کھڑے کر لیتے ہیں کہ یہ “مسلم اسپیکنگ” فرد ہے۔ درجنوں واقعات تو ہوائی جہازوں میں ہو چکے کہ کسی دوست کو فون کیا، عربی زبان سنائی دیتے ہی قیامت اٹھ کھڑی ہوئی۔ کون بتائے گا کہ تیونس کی عربی ہے یا لبنان کی بولی۔۔۔

ضروری نہیں کہ نسل پرست، اوارہ مزاج اور بدمعاشی پر مائل افراد ہی سے واسطہ پڑے۔ اچھے خاصے شریف دہشت گردی پر بات کر رہے ہوں تو دم سادھے بیٹھے رہیں۔ کوئی نازیبا اشارہ کنایہ سنائی دے تو یہی ظاہر کریں کہ آپ انگریزی زبان میں ایسی دستگاہ نہیں رکھتے کہ باریک نکتے سمجھ سکیں۔ اسی تجاہل میں بھلائی ہے۔

ایک ملازمت کے دوران میرے بیشتر احباب اہل تشیع عقائد رکھتے تھے۔ میری سوچ بھی کچھ ایسی خفیہ نہیں تھی۔ عقیدے کے نام پر مار دھاڑ اس قدر بڑھ گئی کہ اس میں فرقے کی تمیز بھی اٹھ گئی۔ ایک روز میں اخبار سامنے رکھے بیٹھا تھا۔ امام بارگاہ پر حملے کی خبر چھپی تھی۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اپنے دوستوں یعنی زیدی، بخاری، نقوی اور کاظمی کو کیسے یقین دلاؤن کہ ایسی وحشت پھیلانے میں عقیدے کی قید نہیں۔ ہر سنی العقیدہ دہشت گرد ہو، یہ ضروری نہیں۔ لیکن یہ سادہ بات اس دوست کو کیسے سمجھاتا جو صبح دفتر آنے سے پہلے ایک سید زادے کا جنازہ پڑھ کر آ رہا تھا۔ مقتول کو اہل تشیع مسلک کی پاداش میں قتل کیا گیا تھا۔ کہیں شیعہ ہونا غلط قرار دیا جاتا ہے تو کہیں صرف مسلمان ہونا۔ فٰیض صاحب سے کسی نے پوچھا کہ ڈاکٹر عبدالسلام تو اس لئے یورپ میں رہتے ہیں کہ ان کا عقیدہ ٹھیک نہیں۔ آپ نے کیا کیا ہے؟ فیض نے فرمایا، میں غلط قسم کے شعر لکھتا ہوں۔

امریکا میں باسم یوسف نے ایک دلچسپ طنزیہ وڈیو بنائی ہے۔ عنوان ہے، مارننگ آفٹر ٹول کٹ۔ یعنی کل رات دہشت گردی ہوئی ہے۔ آج صبح مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے کہ ان پر انگلیاں نہ اٹھیں۔ انہیں دیکھ کر سرگوشیاں نہ کی جائیں۔ انہیں مسلمان ہونے کی وجہ سے قاتل نہ سمجھا جائے یا کم ازکم انہیں دہشت گرد قرار نہ دیا جائے۔

فلم کا لنک حاضر ہے۔ کچھ حال بھی پڑھ لیں۔ باسم یوسف کہتے ہیں کہ گھر میں ہر طرف امریکا کے جھنڈے لگا دیے جائیں۔ ہمارے دیس میں ایک نامور کانگرسی رہنما رہتے تھے۔ ان کا اسم گرامی مولانا حبیب لدھیانوی تھا۔ فسادات بہت بڑھ گئے تو مسلمان جمع ہو کر مولانا حبیب کے ہاں پہنچے۔ ان میں بھائی شوکت علی بھی تھی۔ سب مولانا سے قتل و غارت روکنے کی تدبیر پوچھتے تھے۔ مولانا نے کہا کہ اپنے گھر پر کانگریس کا جھنڈا لگا لیں۔ عرض کی کہ ایک چھوڑ، دو دو جھنڈے آویزاں ہیں۔ آتش زنی اور مار دھاڑ جاری ہے۔ پھر تین جھنڈے لگائیں۔ مولانا نے اطمینان سے کہا۔ کچھ ایسا ہی مشوہ ڈاکٹر باسم یوسف دیتے ہیں کہ بڑی تعداد میں امریکا کے جھنڈے نصب کئے جائیں تا کہ یہ خبر عام ہو جائے کہ ہم امریکی شہری ہونے پر فخر کرتے ہین۔ ایک مناسب حال تصویر 2014 کے موسم گرما میں ملتان شہر میں اتاری گئی تھی۔ آپ کی نذر کرتا ہوں۔ آپ سمجھ جائیں گے کہ امریکہ میں مسلمانوں پر کیا گزر رہی ہے۔

باسم یوسف کی رائے ہے کہ ہر مسلمان نوجوان ایسی شرٹ پہنے جس پر بڑے بڑے حروف میں لکھا ہو، میں اچھے والا مسلمان ہوں۔ یاد آیا، ہم بھی کبھی اسی آڑ میں طالبان کو اچھے اور برے خانوں میں بانٹتے تھے۔ عزیزم مجید جھنجھلا کر کہتا تھا کہ طالبان اچھے یا برے نہیں ہوتے، سب طالبان برے ہوتے ہیں۔ آج واشنگٹن کے کسی کافی ہاؤس میں کوئی سنکی بڈھا کسی نوجوان کو سمجھا رہا ہوگا کہ مسلمان اچھے یا برے نہیں ہوتے، یہ سب ممکنہ دہشت گرد ہیں۔

مانٹریال میں ایک اچھی خاتون سے دوستی ہوگئی۔ دوستی ہی تھی۔ ایسی ویسی بات نہیں تھی۔ ایک روز اس نے بتایا کہ اس کی ماں پوچھتی ہیں کہ تم نارمل لوگوں کو دوست کیوں نہیں بناتیں۔ مطلب یہ کہ تمہیں کوئی ہندوستانی یا کالا یا “مسلم سارٹ آف اسپیکنگ” ہی کیوں ملتا ہے؟ یہ بہت پرانی بات ہے۔ ابھی القاعدہ نے 1998ء والا فتویٰ جاری نہیں کیا تھا۔ ابھی نائن الیون نہیں ہوا تھا۔ ابھی فٹ پاتھ پر کھڑے لوگوں پر گاڑیاں چڑھ دوڑنے کے واقعات پیش نہیں آئے تھے۔ ابھی گورا صاحب بہادر اور ان کی میم صاحبہ نے ایئرپورٹ پر جوتے اتار کر چیک کرانے کی ذلت نہیں اٹھائی تھی۔

آج بیس برس بعد سوچیئے۔ اسپین، ناروے، فرانس اور انگلینڈ میں مسلمانوں سے کدورت کا کیا عالم ہو گا؟ باسم یوسف کہتے ہیں کہ ہمیں اپنے انگریزی لب و لہجے سے آبا و اجداد کے آثار ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کندھے پر لٹکے بیگ پر جلی حروف میں لکھا جائے کہ اس تھیلے میں صرف “چند کتابیں اور ایک لیپ ٹاپ” ہے، کوئی بم وغیرہ نہیں۔ اپنے موبائل پر ایک پیغام ریکارڈ کرنا چاہیے کہ کل رات ہونے والی دہشت گردی سے میرا کوئی تعلق نہیں۔ میں دہشت گردی کی غیر مشروط مذمت کرنے والوں میں سے ہوں۔ اگلی صبح جو رہگیر ملے اسے فوراً یہ پیغام سنا دیا جائے۔ یہ سب ہو جائے گا مگر اس سوال کا جواب ڈاکٹر باسم یوسف کے پاس بھی نہیں کہ کوئی کب بھونکنا بند کر دے گا اور کاٹنا شروع کر دے گا۔ اس کا جواب ڈاکٹر مجاہد مرزا اور ڈاکٹر لبنیٰ مرزا سے پوچھنا چاہیے۔ ایک تو یہ کہ مارننگ آفٹر کے معاملات میں ڈاکٹر سے مشورہ اچھا ہوتا ہے۔ دوسرے یہ کہ مرزا کا لفظ دونوں کے نام کا حصہ ہے۔ دونوں مرزا کہلاتے ہیں اور پاکستان سے زندہ سلامت باہر نکل گئے ہیں۔ خوش نصیب ہیں کہ انہیں کسی کو بتانا نہیں پڑتا کہ ہم “وہ والے مرزا” نہیں ہیں۔

ہر قسم کی دہشت گردی کے الزام سے بچنے کے لئے باسم یوسف کی وڈیو ملاحظہ فرمائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).