کچھ فحش اور فحاشی بارے


  سوشل میڈیا پر ایک عالم شخص نے استناد سے بتایا کہ موسیقی سننا حرام نہیں البتہ فحش حرام ہے چنانچہ موسیقی کی حرمت اگر ہے تو اس ضمن میں کہ اس کے ساتھ فحش عوامل بھی شامل ہوں۔ میرے ذہن میں آیا کہ عمر بیت گئی فحش اور فحاشی سے متعلق سنتے ہوئے جیسے یہ کہ ملک میں فحاشی عام ہو گئی ہے وغیرہ تو کیوں نہ اس فاضل شخص سے استدعا کی جائے کہ وہ “فحش” کی تعریف کر دے یعنی بتا دے کہ فحش کیا ہوتا ہے/ہوتی ہے؟ اس بارے میں پوچھنے کی غرض سے میں نے مثال دی کی لغت کے مطابق لفظ فحش کے معنی عیاں یا ناخوشگوار ہیں چونکہ ہمارے ہاں لفظ فحش کا مذہب کے احکام میں بھی تذکرہ ہے بلکہ بعد میں وضع کردہ حطبہ جات میں تو فحش کو منکر اور باغی سے بھی ہم آہنگ کر دیا گیا یعنی فحش اعمال کو ویسا ہی قابل تعزیر سمجھ لیا گیا جیسے مذہب کے احکام اور حاکم کی حاکمیت سے علیحدہ علیحدہ یا مشترکہ طور پر انکار اور بغاوت قابل گرفت و گناہ ہیں، مگر لفظ فحش چونکہ صرف مسلمان دنیا میں ہی مذموم نہیں بلکہ دوسرے ملکوں کی زبانوں میں بھی اس کے متبادل لفظ ہیں جیسے انگریزی زبان میں Vulgar جس کا مطلب غیر مہذب زبان یا اطوار کا استعمال ہے یعنی انہیں دیکھنا اور سننا برا لگے یا کم ازکم معمول کے مطابق نہ محسوس ہو جیسے ہمارے گلی کوچوں میں فحش کلمات پر مبنی گالیاں دی جاتی ہیں بلکہ اب تو کچھ علماء نے ہزاروں کے مجمع کے سامنے سٹیج پر بیٹھ کر دی ہیں جو وڈیو میں محفوظ ہیں چنانچہ مثال یہ تھی کہ اگر میں اکیلا بیٹھا جنسی عمل پر مبنی فلم دیکھ رہا ہوں۔ کوئی اور موجود نہیں ہے تو کیا یہ عمل فحش عمل کے زمرے میں آئے گا کیونکہ اپنی اس سرگرمی سے میں کسی کی ثقل و سماعت پر گراں بار نہیں ہوں۔ تھوڑی سی تمحیص کے بعد نتیجہ نکلا کہ فحش ہونے یا فحاشی کا تعین خود سے کرنا ہوگا اس کی کوئی متعین تعریف کیا جانا ممکن نہیں ہے۔ میری گذارش پھر یہ رہی کہ کسی عمل کی حرمت کے متعلق حکم سے پہلے اس عمل کی متعین تعریف کیا جانا ضروری ہے۔

  اس کے فورا” بعد مجھے کہیں جانے کی خاطر نکلنا پڑا۔ میں یہاں پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرتا ہوں۔ زیر زمین چلنے والی ریل گاڑی میں نشستیں آمنے سامنے ہیں بیچ میں دو قطاروں میں لوگوں کے لیے کھڑے ہونے کی جگہ ہے۔ ایسا وقت تھا جب ریل گاڑی میں ہجوم نہیں تھا۔ میں جہاں بیٹھا اس کے سامنے دو جوان ہسپانوی طالبعلم لڑکیاں بیٹھی باتیں کر رہی تھیں، جو شکلوں سے یکسر معصوم تھیں۔ گرمی کی وجہ سے انہوں نے گھٹنوں سے اوپر فراک پہنے ہوئے تھے۔ بیٹھنے سے ان کی برہنہ رانیں آپس میں جڑ گئی تھیں چنانچہ زیرجامہ دکھائی نہیں دے رہا تھا ( بعض اوقات زیرجامہ بھی دکھائی دیتا ہے)۔ وہ بڑے سکون سے بیٹھی محو گفتگو تھیں۔ میرے ساتھ بیٹھے دو نوجوان بھی مطمئن تھے کیونکہ یہاں کی عام زندگی کا معمول ہے کہ ساحل پہ، دریا کنارے، کنٹری ہاؤس میں جوان بہنیں اور بیٹیاں بھائیوں اور باپوں کی موجودگی میں مختصر ترین کپڑوں میں ہوتی ہیں مگر میں چونکہ فحاشی سے متعلق گفتگو میں ملوث رہا تھا چنانچہ میری نگاہ ان کی ٹانگوں اور کپڑوں پر پڑی تھی۔ ظاہر ہے یہاں کے معمول کے مطابق وہ فحش عمل کی ہرگزمرتکب نہیں تھیں بلکہ میں فحش حرکت کر رہا تھا کیونکہ کوئی بھی اگر متوجہ ہوتا تو میری نگاہوں کا ارتکاز دیکھ سکتا تھا۔

 یوں فحش کے معانی موقع و مقام کے مطابق ہر شخص کی سوچ کے محور کے مطابق متبدل ہیں ویسے ہی جیسے خود پر چلائے گئے فحاشی کے مقدمے میں سعادت حسن منٹو نے کہا تھا کہ عورت کی یکسر برہنہ تصویر ان کے لیے فحش نہیں جبکہ ایک ایسی نیم برہنہ تصویر جس کو دیکھ کر کسی کا دل کرے کہ وہ تصویر کے بدن پر موجود کپڑے سرکا کر دیکھے تو ایسی تصویر ان کے لیے فحش ہوگی۔ جی ہاں فحاشی کا تعلق ہماری بصارت، سماعت اور سوچ کے ساتھ ہے۔ تلذذ فحاشی سے وابستہ نہیں اگر ہوتا تو ملک کے گلی کوچوں میں بڑوں سے لے کر بچوں کی زبان سے ادا ہونے جنسی مغلظات سے لوگ لذت کشید کر رہے ہوتے مگر یہ مغلظات بہت سوں کی سماعت پر گراں گذرتی ہیں اور زبان سے بلا ارادہ لاحول نکلتا ہے۔

  چنانچہ کوئی عمل یا بات تب تک فحش نہیں ہوتی جب تک اسے دیکھنے سننے والا فحش خیال نہ کرے۔ مغرب میں لوگوں کی کثیر تعداد کے لیے ڈبل ایکس فلمیں جن میں جنسی اعضا نہ دکھائے جائیں فحش نہیں ہیں جبکہ ٹرپل ایکس فلموں کو ایسے ہی لوگ فحش سمجھتے ہیں۔ اس کے برعکس ایسی لاتعداد خوبصورت لڑکیاں ہیں جو انہیں فلموں میں کام کرتی ہیں اور بعد میں مشاہیر کی بیویاں بنتی ہیں یا ہندوستان کی عام فلموں کی اداکارائیں۔ اب تو پاکستان کی جوان لڑکیاں خواہش کرتی ہیں کہ ہندوستان کے اداکار عمران ہاشمی کا سا بوسہ لیا جائے یعنی عمران ہاشمی کا والہانہ “فرنچ کس” اب فحش نہیں رہا۔ فحاشی انسان کے جسم سے ہی وابستہ نہیں ہے بلکہ معاشرے اور ریاست کی لوگوں کی بودو باش سے متعلق عدم توجہی بھی فحش عمل ہے۔ یوم آزادی کے موقع پر چھوٹے چھوٹے پاکستانی جھنڈے بیچتے پھٹے کپڑوں میں ملبوس معصوم بچوں کی موجودگی اتنی ہی فحش ہے جتنی ملا کی نگاہ میں جنسی عمل پر مبنی فلم کی۔ دونوں ہی کو دیکھ کر دماغ ہیجان میں مبتلا ہو سکتا ہے کسی کا وفور خواہش سے تو کسی کا معاشرے میں بندوق کے ذریعے تبدیلی لائے جانے کی خلش سے۔

 ہمیں چاہیے کہ ہم فحاشی کی رٹ لگانےسے نکلیں۔ ہمارا ملک بھی دنیا کے تمام ملکوں کی طرح صارفین کا سماج بن چکا ہے۔ اس عالمی مظہر سے بچنا ممکن نہیں تھا۔ جہاں کنزیومر سوسائٹی ہوتی ہے وہاں اشیائے ضرورت و اشیائے تعیش کی فروخت کے لیے اشتہارات بھی درکار ہوتے ہیں۔ جوان عورت کے جسم کی نزاکت و تناسب اور چہرے کا حسن و ملاحت اتنے ہی پرکشش اور دلفریب ہوتے ہیں جتنے رنگ برنگ پھول یا حسین قدرتی مناظر بلکہ ان سے بھی بڑھ کر تو اشتہاروں میں ان کے ہونے کو بھی نہیں روکا جا سکتا۔ انٹرنیٹ کی وجہ سے عالمی میڈیا تک رسائی کے سبب فیشن، اطوار، اعمال جنسی و غیر جنسی دونوں سے آگاہی ممکن ہو گئی ہے چنانچہ جو شروع میں مثال دی تھی کہ موبائل فون پر اکیلے بیٹھ کر کسی بھی قسم کا لطف لینے سے اب کسی کو روکا جانا ممکن نہیں رہا تاوقتیکہ بنیاد پرست برسر اقتدار آ کر ملک کو دنیا سے کاٹ کر نہ رکھ دیں۔ ایسا دنیا ہونے نہیں دے رہی اور اکثریت ایسے لوگوں کے اقتدار کی خواہاں بھی نہیں۔ مسلمانوں کی ایک ارب آبادی میں سے کتنے فیصد ہیں جو ایسا چاہتے ہوں البتہ فحاشی فحاشی کا شور مچا کر باقی غیر منصفانہ اعمال سے توجہ ہٹانے کی ناکام کوشش کرنے والے ضرور کچھ زیادہ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).