کیا ٹریفک پولیس واقعی اتنی بری ہے؟


مجھے گاڑی چلاتے کم و بیش بیس سال ہو گئے ہیں۔ اس دوران پبلک ٹرانسپورٹ چلانے کا بھی تجربہ رہا اور موٹر سائیکل کار چلاتے ہوئے بھی سڑک کی نفسیات سے آگہی رہی ۔
ان بیس برسوں میں آج تک کسی ٹریفک پولیس والے نے بد تمیزی نہیں کی۔ اب ایسا بھی نہیں کہ یہ بیس برس میں نے مریخ پر گزارے۔ یقینا پولیس والوں نے بارہا روکا ہو گا۔
کبھی میں کسی قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو ا ہوں گا۔
یا بہت دفعہ معمول کی چیکنگ کے لیے روکا گیا ہوگا۔
یہ مضمون لکھنے کا خیال اس لیے آیا کہ آئے روز سڑک پر پولیس اور عوام کے آپس میں الجھنے کا منظر دیکھنے میں آتا ہے۔ اور میں اس تذبذب میں رہتا ہوں کہ آخر یہ کس بات پر الجھ رہے ہیں اور کیوں بحث کو اس قدر طویل کر رہے ہیں۔
پھر ہماری عوام کے ٹریفک پولیس پر گلے شکوے بھی معمول کی بات ہے۔
ان بیس برسوں میں پولیس اور میرے تعلقات کیوں مثالی رہے اس کی کچھ وجوہات ہیں۔
جب مجھے کوئی پولیس والا روکتا ہے تو سب سے پہلے میں گاڑی ایک طرف کھڑی کرتا ہوں اور گاڑی سے اتر کر پولیس والے کی جانب جاتا ہوں۔ فرق یہ ہوتا ہے کہ میرے چہرے پر مسکراہٹ ہوتی ہے اور ایسے ملنے جاتا ہوں جیسے کسی ہمدم دیرینہ سے اچانک سر راہ ملاقات ہو جائے۔ سلام کرتا ہوں اور مسکراہٹ سجائے رکھتا ہوں۔ وہ جو دھوپ میں ڈیوٹی پر کھڑا ہے میں اس سے فورا کسی جوابی مسکراہٹ کی امید بھی نہیں رکھتا۔
یہاں پر دو صورتیں ہو سکتیں ہیں۔
ایک یہ کہ آپ کو کسی غلطی کی وجہ سے روکا گیا ہے اور دوسرا یہ کہ آپ کو قانون شکنی کے غلط الزام پرروکا گیا ہے۔


اس حوالے سے اپنی ان گنت مثالیں دے سکتا ہوں۔ لیکن بات کورواں رکھنے کے لیے دو مثالیں لیتے ہیں۔
پہلی مثال یہ ہے۔ میں کبھی بھی ڈرائیونگ کرتے ہوئے موبائل فون نہیں سنتا۔ لیکن شومئی قسمت کہ ایک دفعہ ایک مختصر سی کال سن لی ۔ جیل روڈ پر تھا۔ پولیس نے روکا۔ میں نے فون بند کیا اور مسکراتے ہوئے پولیس والے کے پاس پہنچا۔ پولیس والے نے ابتدا میں قدرے خشک لہجے میں کہا ، آپ موبائل فون سن رہے تھے آپ کو معلوم ہے یہ قانونا جرم ہے۔ میں نے کہا، جی بالکل جانتا ہوں کہ قانونا جرم ہے اور یہ ایک غلطی ہے جو مجھ سے سرزد ہوئی ہے۔ مجھے افسوس ہے۔ آپ چالان کر لیں۔
پولیس والے نے گاڑی کا نمبر دیکھا اور اپنی چالان بک کھولی۔ میں نے بات جاری رکھی کہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ڈرائیونگ کے دوران میں نے فون سنا ہو لیکن آج یہ غلطی ہو گئی ہے ۔ لیکن میں یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ چالان نہ کریں ویسے ہی ایک بات کہہ رہا ہوں۔ پولیس والے نے کاپی بند کی ۔ پین کو جیب میں ڈالا اور انتہائی شفقت بھرے لہجے میں کہا، آئندہ خیال رکھیے گا ۔ آپ جا سکتے ہیں۔ میں نے پرجوش انداز سے مصافحہ کیا اور چلا گیا۔
دوسری مثال کی جانب آئیے ۔ جس میں آپ نے قانون شکنی نہیں کی ہوتی لیکن روک لیے جاتے ہیں۔
میں ڈیوس روڈ سے مال روڈ کی جانب آ رہا تھا ۔ مال سے نہر کی جانب جانا تھا۔ اب آپ جانتے ہیں کہ ڈیوس روڈ سے نہر کی جانب جانے کے لیے اشارہ نہیں ہے (اب کا معلوم نہیں لیکن کچھ عرصہ پہلے نہیں تھا) ہاں اگر آپ نے پنجاب اسمبلی کی جانب جانا ہے تو اشارے پر رکنا پڑتا ہے۔ جیسے ہی مال روڈ پر آیا ایک نوجوان پولیس والے نے روک لیا ۔ میں نے مسکراتے ہو ئے مصافحہ کیا۔ نوجوان نے کہا آپ نے اشارہ توڑا ہے اور اس پر چالان ہو گا۔


میں نے کہا جناب عالی اس طرف کی ٹریفک کا کوئی اشارہ تو نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا نہیں آپ نے اشارہ توڑا ہے اور آپ کا چالان ہو گا۔
میں نے کہا ٹھیک ہے اگر آپ مناسب سمجھتے ہیں تو کر دیجئے لیکن کیوں کہ کبھی میرا چالان ہوا نہیں تو مناسب ہو گا اس کا طریقہ کار بھی سمجھا دیجئے ۔
انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا، کرنا تو نہیں چاہتا بس مجبوری سمجھ لیں لیکن کم سے کم جرمانے کے ساتھ کروں گا۔
مجھے اندازہ ہو گیا چالان کا کوئی کوٹہ پورا کرنا ہے نوجوان پولیس والے نے۔
میں نے برضا و رغبت چالان کا پرچہ ہاتھ میں لیا ان سے ہدایات لیں۔ کچھ موسم پر بات ہوئی پھر سلام دعا ہوئی اور چل دیے۔
دوسری والی مثال میں پولیس کی جانب سے زیادتی کا گماں ہوتا ہے۔ لیکن بیس برسوں میں ایک ایسا واقعہ ہونا کوئی برا تناسب پر گز نہیں ہے۔

میں ان سیکڑوں واقعات کو کیوں نہ یاد کروں جب پولیس نے میرے ساتھ مہربانی کارویہ اپنایا۔ گپ شپ کی۔ اپنے دکھڑے سنائے۔ چائے پلائی۔
وقت تبدیل ہو گیا لیکن ہماری نفسیات تبدیل ہونے کا نام نہیں لے رہیں۔ کسی وقت میں کسی ادارے کے کارڈ یا آپ کی کسی بااثر شخصیت کے ساتھ رشتہ داری پولیس کو مرعوب کر دیتی تھی۔ لیکن وقت تبدیل ہو گیا۔ پولیس والا دن کو دو سو گاڑیاں روکتا ہے تو ایک سو نوے گاڑیوں والے اپنے ادارے کے اثرو رسوخ یا بااثر رشتہ داروں کے حوالے دیتے ہیں۔ پولیس کے لیے یہ روزمرہ کا معاملہ ہے۔ لیکن گاڑی والے صاحبان کو یہ نکتہ جانے کیوں سمجھ نہیں آتا کہ ان باتوں پر پولیس چھوڑنا شرو ع کر دے تو چل چکا نظام۔


ایک اور اہم بات اس حوالے سے یہ بھی ہے کہ پولیس والے جس گرمی یا سردی کو برداشت کیے کھڑے ہوتے ہیں وہ انہی کو معلوم ہوتا ہے ۔ محدود سی آمدنی پر گزارہ کرنے والے پولیس اہلکار انہی گھریلو پریشانیوں کا شکار ہوتے ہیں جس کا شکار عوام ہوتے ہیں۔
تصور کیجئے بچے کی فیس کا معاملہ سر پر سوار ہے۔ گرمی میں کھڑے دس گھنٹے ہو چکے ہیں اور ایک صاحب قانون شکنی کرتے ہیں اور روکے جانے پر وہ ہٹ دھرمی اور ڈھٹائی پر اتر آتے ہیں۔ کار سے اترتے ہی بدتمیزی سے بات کی ابتدا کرتے ہیں اور امید رکھتے ہیں پولیس والے سے اخلاق عالیہ کی۔
ہم جب لائسنس سمیت گاڑی کے دوسرے کاغذات میں سستی برتتے ہیں تو ہونا تو یہ چاہیے کہ کسی پولیس والے کی لائسنس طلبی پر لائسنس نہ ہونے کی صورت میں شرم سے نگاہیں جھکا لینی چاہیں ۔ لیکن ہوتا الٹ ہے۔اس قدر بحث ہوتی ہے کہ معاملہ ماں بہن تک جا پہنچتا ہے اور پولیس والا ہی شرم سے نگاہیں جھکا لیتا ہے۔
گاڑیوں پر اداروں کی وابستگی کا اظہار کرتی ہوئی نمبر پلیٹیں کمزور کردار اور پست ذہنیت کا چلتا پھرتا اشتہار ہوتیں ہیں۔ شناخت کے بحران کا شکار انسان اپنی نمبر پلیٹ پر گجر ، ملک، یا پریس ، وکالت وغیرہ کا اشتہار لگاتا ہے۔ دیکھو میں کمزور نہیں ہوں۔ میرے پاس کاغذات نہیں ہیں تو کیا ہوا، مجھے کوئی نہیں روک سکتا۔
اس عمل جاہلیت سے کاغذات پورے رکھنے پر کہیں کم کوشش صرف ہوتی ہے۔ آپ ایک پر اعتماد شخص ہوتے ہیں۔ لیکن ایک کمزور شخص کی طرح ہمیں قانون شکنی میں ایک خاص لطف کا احساس ہو تا ہے ۔
ایک مکینک کے پاس سرکاری گاڑیاں ٹھیک ہونے آتیں تھیں۔ وہ سبز نمبر پلیٹ والی گاڑی پر پورا شہر گھومتا۔


اس کی ورکشاپ میں کام کا حرج بھی ہوتا تھا اور پٹرول کے اخراجات اس کے علاوہ۔ میں نے ایک دن پوچھا کیوں خواہ مخواہ وقت ضائع کرتے ہو۔ کہنے لگا مزہ آتا ہے۔ اشارے توڑتا ہوں ، کہیں پولیس والے کھڑے دیکھوں تو ان کو فحش اشارے کر تا ہوں۔ مزہ آتا ہے۔
ہمارے ایک باس تھے بلکہ دل کے باس ہیں اب بھی ۔ اور اچھی بات کرنے لگا ہوں ان کے حوالے سے تو نام لینے میں کیا مضائقہ، محمد ایوب صاحب جو ایک سئینر اور محترم صحافی ہیں۔ ایک دفعہ رکشا پر آفس آئے۔ میں نے پوچھا کیا گاڑی ورکشاپ بھیجی ہوئی ہے۔ کہنے لگے نہیں یا ر ، ہوا یہ کہ کل ایک چھوٹے سے کام کے لیے مکینک کو دی تھی گاڑی ۔جب وہ گاڑی گھر دینے آیا تو معلوم ہوا کہ مجھے خوش کرنے کے لیے نمبر پلیٹ پر ’پریس‘ لکھوا آیا ہے۔ میں نے کہا ابھی جاؤ اور اس کو صاف کر کے لاؤ۔ کہنے لگا کوئی بات نہیں آج آپ چلے جائیں دفتر گاڑی لے کر، شام کو کر دوں گا۔ میں نے اسے کہا یار میں اس ایسی گاڑی پر سو میٹر بھی نہیں چل سکتا ، بلکہ گھر کے سامنے اس گاڑی کو رکا دیکھ کر بھی توہین محسوس کر رہا ہوں۔ ابھی اسے فورا گھر کے سامنے سے ہٹاؤ۔ میں رکشا پر دفتر چلا جاتا ہوں ۔ شام کوگاڑی لے لوں گا۔
دوتین صفات اگر ہم پیدا کر لیں تو ٹریفک پولیس اور عوام کے تعلقات مثالی ہو سکتے ہیں۔
مسکراہٹ ۔۔ کہ اس سے ’مہلک‘ ہتھیار میں نے کوئی اور نہیں دیکھا۔

اپنی غلطی کو خوش دلی اور باوقار انداز سے تسلیم کرنے کی خو۔
یہ یقین کہ یہ پولیس والے ہمارے معاشرے کے لوگ ہیں۔ کسی اور سیارے سے نہیں آئے ، ہماری طرح یا ہم سے بھی کہیں زیادہ مسائل سے دو چار ہیں، افطاری کے وقت جب ہم گھر کی جانب گاڑی دوڑا رہے ہوتے ہیں تو اس وقت حالت روزہ میں ان میں بیشتر کے پاس افطاری کا سامان بھی نہیں ہوتا۔ چودہ سے سولہ گھنٹے کے طویل روزہ کے باوجود مستعدی سے فرض نبھا رہے ہوتے ہیں ۔ اور آپ بچے کی جان لیں گے کیا!

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments