لر او بر یو افغان اور مرتا ہوا بچہ


چھ سالہ حمزہ جو دماغ کے کینسر جیسی بیماری میں مبتلا ہے، کابل سے علاج کے لئے کراچی آیا ہوا ہے۔ جس نیورو سرجن کے پاس لے کر جاتا ہوں، آگے سے جواب دیتا ہے، کہ بچے کے نصیب میں مرنا لکھا ہے۔ کیونکہ ٹیومر دماغ کے سب سے نچلے والے حصے میں ہے، جسے ہاتھ لگانا ناممکن ہے۔ دیر سے تشخیص کی وجہ سے گاما نائف یا سائبر نائف سے ہم اس کا سائز چھوٹا تو کرسکتے ہیں، مگر پندرہ دن کے بعد اس کی دوبارہ بڑھوتری اس بچے کی جان ضرور لے گی۔

کیساعذاب کل سے برداشت کررہا ہوں۔ گول مٹول خوبصورت بچہ جو اپنی موت سے بے خبر اپنے باپ سے ضد کررہا ہے، کہ باباجان مجھے گیم کھیلنا ہے۔
اس کی ماں کا ہر لحظہ فون پر اپنے شوہر سے یہ سوال کرنا، کہ میرا بچہ ٹھیک ہوسکتا ہے؟
اور شوہر کا میری طرف پُراُمید نظروں سے دیکھنا۔
جواب میں ہر بار مایوسی سے میری گردن کا جُھک جانا، اور اپنے آنسوؤں کا ان سے چھپانا۔

اور باپ کا اپنے بچے کو بے تحاشا چُومنا، کل سے یہ سارا تماشہ چل رہا ہے۔ بالاخر فیصلہ اس بات پر ہوا کہ بچے کو واپس اپنی ماں کے پاس کابل بھیج دیتے ہیں، تاکہ اپنی ماں کے ساتھ اپنی مختصر زندگی کے بچے کُچھے دن گزار سکے۔
یہ تو تھی غم والی باتیں، اب آتے ہیں ذرا کابل کی طرف۔

امریکہ نے جب کابل پر قبضہ کیا، تو اقوام عالم نے افغانستان کی تعمیر کی مد میں کھربوں کی امداد دینی شروع کردی۔ کابل میں ہر سُو بلندوبالا عمارتوں کا ایک دوسرے پر سبقت لے جانا شروع ہوگیا۔
ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کے پاس نئے ماڈل کی گاڑیاں آگئیں۔ لوگوں نے کرپشن کے پیسوں سے دبئی میں جائیدادیں بنالیں۔ کابل بینک کا دیوالیہ نکال کر رکھ دیا۔ سکولوں کے نام آئے ہوئے فنڈ علی الاعلان اپنے سوئس بینکوں میں منتقل کردیئے گئے۔ سابقہ و موجودہ حکمرانوں نے منظم اغوا برائے تاوان کے گروپ بنائے۔ اور بالاخر دو ہزار گیارہ میں بین الاقوامی ڈونرز نے افغانستان کے لئے اپنے ڈونیشنز بند کردیئے۔ ہندوستان جس نے گاندھی ہسپتال اور ہرات ڈیم کی وجہ سے افغانستان کی ساری سیکورٹی معاملات اپنے ہاتھ میں لے لئے۔ پاکستان جس نے پانچ سو ملین ڈالر کا عطیہ دینے کی حامی بھری۔ آجکل اشرف غنی الزام در الزام کی سابقہ روایتی سیاست کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ رشید دوستم جیسا عالمی قوانین کا مجرم بھی حکومت کا ایک حصہ ہے۔

افغانستان میں سب کچھ ممکن ہوسکا، مگر ممکن نہ ہوسکا، تو ایک ڈاکٹر کا پیدا ہونا اور علاج و معالجہ کا انتظام۔ علاج جو ہمارے ہاں ایک گلی کا کمپوڈر بھی باسانی کرسکتا ہے۔ وہاں کا ایک ڈاکٹر اس قابل بھی نہیں، کہ بیماری کی تشخیص کرسکے۔ اگر خدا خدا کرکے کر بھی لے، تو ایم آر آئی یا سی ٹی سکین کے معائنہ جات اتنے مہنگے ہیں، کہ میرا جیسا بندہ صرف سوچ ہی سکتا ہے۔ پورے کابل میں ایک بھی نیورو سرجن آپ کو ڈھونڈے سے نہیں ملے گا۔ فرانس ہسپتال جس کی بلند و بالا عمارت دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے، اندر جائیں تو رونا آجائے۔ آغا خان کا ایک چھوٹا سا ہسپتال جس میں پچاس مریضوں کی بھی گنجائش نہیں، مگر آغا خان فاؤنڈیشن والے دنیا بھر میں واویلا کرتے نظر آئیں گے، کہ ہم افغانستان میں طبی امداد دے رہے ہیں۔ انڈیا کا گاندھی ہسپتال جو بہت بڑا ہے، مگر سر درد کی دوا اسپرین تک موجود نہیں۔ اگر ہندوستان یہ لوگ علاج کے لئے چلے جاتے ہیں۔ تو وہاں دس روپے کا انجکشن ان کو دس ہزار میں پڑتا ہے۔ سو وہاں کی کمیشن مافیا کی ایک الگ کہانی ہے۔

تعلیم کی تو ہم بات ہی نہیں کریں گے۔ کیوں کہ فی الحال اللہ تعالٰی نے افغانیوں کی قسمت میں اس زیور کو شامل ہی نہیں کیا ہے۔ میں آج بھی طورخم اور چمن پر غریب افغانیوں کی عزت نفس کو کچلے جاتا دیکھ رہا ہوں۔ جو ریوڑوں کے شکل میں پاسپورٹ پکڑے اپنے بیماروں کو پاکستان اس امید پر لے کر آتے ہیں، کہ شاید ان کو ادھار کی دو سانسیں مل جائیں۔ مگر اشرف غنی کو یہ چیزیں کہاں سے نظر آرہی ہے۔ اس کو تو فی الوقت افغانستان کی بقاء کی لڑائی لڑنی ہے۔ پاکستان کو دشمن ڈیکلیئر کرنا ہے۔ تاکہ مستقبل میں وہ ان بچے کچے افغانیوں کو اس جنگ میں جھونک سکے، جو حالیہ جنگ میں بدقسمتی سے بچ گئے ہیں۔ ان کو شرم آتی ہے، کہ دشمن یا دوست ملک سے ٹیکنالوجی، طب اور جدید نظام تعلیم کو درآمد کرسکیں۔

مگر نہیں ان سب باتوں کا ابھی وقت نہیں آیا، ابھی تو نفرت کا بیوپار کرنا باقی ہے۔ ابھی حامد کرزئی کی ایک اور باری لگنی ہے۔ ابھی پشتون تاجک نے بھی اپنی پہچان کی لڑائی لڑنی ہے۔ اور ابھی تو ہمارے محمود خان اچکزئی اور کچھ دوسرے افغانی نما پاکستانیوں نے کچھ اور کھیلنا ہے۔ سیاست کرنی ہے اور ابھی اُمت مسلمہ کی خلافت کی بنیادیں کابل میں رکھنی ہے۔ آپ انجوائے کریں اور دانشوری جھاڑیں۔ سرکار میں تب تک چھ سالہ حمزہ کو لمحہ لمحہ مرتا دیکھ لوں۔ اور اس کے بے بس باپ عبداللہ طلحہ کو بے بسی کے آنسو بہاتے دیکھ لوں۔
پھر سب ایک نعرہ لگاتے ہیں۔
لر او بر یو افغان


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).