عطیہ فیضی، کملا ثریا اور زاہدہ حنا


 

ہمیشہ کوزہ گر مٹی کو نہیں ڈھالتا کئی بار مٹی بھی کوزہ گر کو بدل کر رکھ دیتی رہی ہے۔ عطیہ فیضی سے میرا پہلا تعارف بہت کم سنی میں ہوا تھا۔ شاید کسی کتاب یا اخبار میں ان کا نام پڑھا تھا۔ یوم اقبال کے خصوصی ضمیموں میں ان کی تصویر بھی کئی بار دیکھی تھی لیکن ساتھ دیگر کوئی تفصیل نہ ملتی تھی۔ جب کالج میں سال اول کی طالبہ تھی اپنی اردو لیکچرار سے پوچھا عطیہ فیضی کون ہیں؟ وہ معنی خیز انداز میں مسکرائیں پھر اقبالیات کے حوالے سے دو تین کتب کے نام بتائے کہ ان میں دیکھ لینا۔

عطیہ فیضی کی شخصیت اقبال اور شبلی کے اُن کی طرف التفات کے قصے کئی جگہ پڑھ لیے۔ کہیں اچھے الفاظ میں ذکر اور کہیں کچھ دبے دبے معنی خیز تبصرے اور جملے بھی ملتے رہے۔ مگر ان سب کے باوجود وہ خاتون مجھے بہت منفرد اور متاثر کن شخصیت کی مالک لگتی رہیں۔

فنکار، ادیب اور شاعر کسی معاشرے کی حساس ترین افراد ہوتے ہیں۔ درکے ہوئے کچی مٹی کے برتن جیسے۔ ان تخلیق کاروں کے قافلہ سالار رومی ان درزوں کو روشنی اور فن کے روح میں داخل ہونے کا مقام بتاتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان درزوں سے باہر کی روشنی تو من میں جذب ہوتی ہے مگر اپنے اندر کا درد اپنے کچھ احساسات تخلیق کار خود سے بھی پوشیدہ رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ تخلیق کار ملفوف باتیں کریں گے علامتوں استعاروں میں چھپیں گے مگر ان کے دل سے نکلی تحریر پڑھنے والوں کے دل پر بالکل سیدھا وار کرتی اسی احساس سے دوچار کرتی ہے جس سے تخلیق کار گزرا ہوتا ہے۔ جب کوئی بات ہم محسوس کرتے ہیں اسے کہہ نہیں سکتے یا کہنا نہیں جانتے اور کوئی اور شخص وہی بات اسی شدتِ احساس کے ساتھ بیان کر دے تب کتنی طمانیت ملتی ہے۔ یہ طمانیت اپنے اندر کے احساسات کے پوشیدہ رہ جانے کی بھی تو ہوتی ہے۔

زاہدہ حنا بھی ان مصنفین میں سے ہیں دل سے لکھتی ہیں دل پر ضرب لگاتی ہیں۔ ان سے بطور قاری میرا غائبانہ تعلق تو بہت پرانا ہے۔ میں شادی کے بعد جدہ منتقل ہوگئی تھی مگر مطالعے کی لت نہ چھوٹی تھی۔ لیکن پرانی عادت کے برعکس مطالعے کے لیے دستیاب کتب کی تعداد محدود تھی اور میں یہاں چھپنے والے اخبار اور میگزین کی ایک ایک سطر پڑھ ڈالتی۔ لفظوں کے پیچھے چھپے مفہوم۔ ادارتی پالیسیاں سب آنکھوں کے سامنے ہوتیں۔ مگر انہیں سب خبروں کے بیچ زاہدہ حنا کا کبھی کبھار اردو نیوز جدہ میں چھپنے والا کالم وہ اجلا روزن تھا جس سے ذہن اور روح دونوں سیراب ہوتے۔

ان دنوں میں لکھتی نہیں تھی البتہ ماں کے ہاتھوں چھنی مٹی میں لگی تخلیق کار کی جاگ نے خمیر اٹھانا شروع کر دیا تھا۔ یہ خمیر کبھی پھولتا کبھی بھربھرا ہو کے ریزوں میں بٹ جاتا۔ فراغت کے ان دنوں میں زاہدہ حنا اور کملا ثریا ایک انسپائریشن بن کر سامنے آتی رہیں۔ کوئی دس بارہ برس پہلے کی بات ہے زاہدہ حنا نے ایک محققانہ کالم میں عطیہ فیضی کے حالات زندگی کے ساتھ ساتھ قائد اعظم کے اُن کو پاکستان بلانے اور عورتوں کی تعلیم کے حوالے سے قائد کے ارادے کے بارے میں لکھا تھا جو میرے لیے پہلی بار دبی دبی معنی خیز مسکراہٹوں سے پاک اور عطیہ فیضی کی زندگی کا نیا رخ دکھانے والا تھا۔ اسی دن سے زاہدہ حنا سے غائبانہ طور پر گہری شناسائی ہو گئی، ان کی تحریر سے ہاتھ ملایا اور پھر جہاں کہیں ان کا کالم افسانہ یا مضمون نظر سے گزرا پڑھنا لازم سمجھا۔

ان دنوں کملا ثریا کے قبول اسلام کو چند برس بیت چکے تھے مگر اس واقعہ کے تذکرے اکثر اخبارات کی زینت بنتے رہتے۔ کملا ثریا کی آپ بیتی مائی اسٹوری کے کچھ حصے پڑھے تھے پھر ان کا ایک طویل انٹرویو جو اردو نیوز جدہ میں بھی شائع ہوا پڑھا۔ یہ کملا بھی مسحورکن شخصیت کی مالک نکلیں۔ دن بھر گھر کے کام کاج کرتیں، بچے سنبھالتیں کھانا بناتی اور رات کو جب سب گھر والے محو استراحت ہوتے تو یہ اپنے باورچی خانے کی میز پر سے برتن سبزیوں کے چھلکے پلیٹیں اٹھاتیں، میز صاف کرتیں اور ٹائپ رائٹر رکھ لیتیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ انڈیا کی بیسٹ سیلر رائٹر بن گئیں۔

مٹی میں خمیر ابھر رہا تھا۔ میں نے ایک دن سوچا کہ اگر کملا داس دن بھر اپنے گھر کے کام کاج سمیٹتی اور رات کو لکھتی رہیں تو میں بھی ایک دن لکھنے لگوں گی۔ عطیہ فیضی، زاہدہ حنا اور کملا ثریا کی تکون دائرے کی صورت میں مکمل ہونے لگی۔ ایک دن میری مٹی کا خمیر بھی تیار ہوا اور تخلیق کے سوتے پھوٹنے لگے۔

زاہدہ حنا کی کتاب ”تتلیاں ڈھونڈنے والی“ اسکین کیے گئے صفحات پر پڑھنے کا موقع ملا۔ ان کی کہانیوں میں نثر مہکتی ہے۔ اور وہ کہانیوں کو یوں پہنتی ہیں جیسے دیے کی روشنی میں ان کے کردار روح کو روشنی میں دھو کر پہنتے ہیں جیسے پھول خوشبو پہنتی ہے اور جیسے دل عشق پہن لیتا ہے۔ پھر یوں قرطاس کی سپرد کرتی ہیں گویا سطریں نقوش میں ڈھلنے لگی ہوں۔ وہ بیک وقت جبری بھرتی کے نتیجے میں محاذ پر بھیجے جانے والے سپاہی اور نیپون بم کا شکار ہونے والے بچوں کے دکھ سے مکالمہ کرتی ہیں۔ مقابر کا نوحہ لکھتی ہیں۔ بڑی مچھلی کا نوالہ بننے والی ننھی مچھلی کے دکھ سے آشنا ہیں۔ اگرچہ وہ ایک تانیثی مصنفہ بھی ہیں مگر وہ ہر انسان کا درد بھی اتنی ہی گہرائی سے جانتی اور لکھتی ہیں جتنی گہرائی سے عورت کو بیان کرتی ہیں۔ اپنے اردگرد بکھرے کرداروں کے وہ آنسو بھی دیکھ لیتی ہیں جو وہ خود سے بھی پوشیدہ رکھ چکےہوتے ہیں۔

اپنے ایک افسانے یکے بود و یکے نبود میں زاہدہ حنا نے قزوین کے جس کوزہ گر اور رودابہ مٹی کی کہانی لکھی اس نے ان خواتین کا نیا بھید آشکار کر دیا۔ یہ وہ مٹی تھیں جو زمانے کے چاک پر دھری کسی مرد یا سماج کے ہاتھوں ڈھلنے کی بجائے کوزہ گر کو ہی بدل ڈالتی تھیں۔ تانیثی ادب کا ایک نیا رُخ سامنے آ رہا تھا۔ میری زاہدہ حنا سے فون پر بات ہوئی بہت محبت اور شفقت سے پیش آئیں۔ پرانی باتیں کھنگالتے عطیہ فیضی اور کملا ثریا کا بھی تذکرہ چھڑ گیا۔ وہ کہنے لگیں کملا تو بہت بڑی رائٹر تھیں۔ زاہدہ حنا ایک تقریب کی صدارت کرتے ہوئے ان سے مل بھی چکیں تھیں۔ کملا ثریا نے اپنی اولاد کی پرورش کے علاوہ دو نابینا اور یتیم مسلمان لڑکے گود لیے تھے ان لڑکوں کو دین اسلام کی تعلیم دینے کے لیے وہ خود اسلام کا مطالعہ کیا کرتی تھیں اور پھر ان تعلیمات سے متاثر ہو کر خود بھی مسلمان ہو گئیں۔ اگرچہ کچھ انتہا پسند حلقوں کی جانب سے ان پر کڑی نکتہ چینی کی گئی مگر ان کے مداح آخر وقت تک ان سے بے پناہ محبت کرتے رہے زاہدہ حنا بتاتی ہیں کہ ان کے مداح لڑکے لڑکیاں تقریبات میں ان کی وہیل چئیر لیے ان کے آگے پیچھے پھرتے اور ان کا بیحد احترام کرتے۔

زاہدہ حنا مجھے کہتی ہیں سبین لکھتی رہنا۔ کبھی لکھنا مت چھوڑنا۔ ہم شاعر ادیب بہت حساس اور دلوں میں درد بسائے لوگ ہوتے ہیں اپنے من کی بات کو، اپنے احساس، اپنے درد کو کبھی براہ راست بیان نہیں کرتے مگر لکھتے ہیں اور اسی میں ہمارا کتھارسس بھی ہو جاتا ہے۔

ان کی اس بات میں اضافہ کرتے ہوئے بس اتنا کہوں گی آپ جیسے لوگ صرف کتھارسس نہیں کرتے قلم کا حق ادا کرتے ہوئے کبھی مینارہ نور بن جاتے ہیں کبھی جل کی کبھی بن کی کبھی ریت میں دھنسے جہازوں کی بپتا کبھی قزوین کے قدیم قصہ خوانوں جیسی یکے نبود و یکے نبود سے کہانی شروع کرتی وہ مٹی ہیں جو پانی کو مرکب میں مقید کیے کوزہ گر کو بھی ڈھال دیتی ہے۔ بدو گفتم کہ مشکی یا عبیری کہ از بوئے دل آویزِ تو مستم


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).