تبلیغی جماعت کے افراد کا بلاسفیمی کے الزام پر قتل


تبلیغی جماعت کے اراکین کے بارے میں ہم یہ جانتے ہیں کہ یہ بے لوث لوگ ہیں۔ کسی دنیاوی صلے کی تمنا کیے بغیر اپنا گھر بار، کام کاروبار، بیوی بچے اللہ کے حوالے کر کے اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچانے کے لئے نکلتے ہیں۔ تشدد سے دور رہتے ہیں۔ اختلافات میں پڑنے سے کتراتے ہیں۔ ایسے میں اگر یہ خبر ملے کہ تبلیغی جماعت والوں کو رات سوتے ہوئے ایک مسجد میں گستاخی رسول کے الزام میں قتل کر دیا گیا ہے تو دل پر کیا گزرے گی؟

چنیوٹ کے گاؤں عاصیاں میں ایک مسجد کے اندر سوئے ہوئے تبلیغی جماعت کے دو افراد کو گاؤں کے ایک حافظ اکرام نامی شخص نے پھاوڑے کے وار کر کے قتل کر دیا۔ وجہ نزاع یہ بیان کی گئی کہ تبلیغی جماعت کے ان افراد کی عقائد کے معاملے پر حافظ اکرام نامی مقامی شخص سے بحث چھڑ گئی تھی۔ حافظ اکرام نے اپنے مسلک کے مولوی صاحب سے جب تبلیغی جماعت کے ان عقائد کا ذکر کیا تو انہوں نے اسے گستاخی رسول قرار دیا۔ گستاخی رسول کے نازک معاملے پر تو ہماری ساری مذہبی جماعتیں ممتاز قادری صاحب کے معاملے میں قرار دے چکی ہیں کہ ایسا کرنے والے کو کوئی شخص بھی قتل کر سکتا ہے اور ریاستی قانون کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ تبلیغی جماعت، جماعت اسلامی، دیوبندی علما، کون تھا جو ممتاز قادری کے ساتھ نہیں کھڑا تھا اور جنازے میں شریک نہیں تھا؟

سلمان تاثیر کیس پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں جناب مفتی تقی عثمانی صاحب نے فرمایا تھا کہ ’یہاں صورت حال جو تھی وہ ذرا مشکوک تھی، جیسا بیان کیا کہ آیا واقعتاً اس کی بات گستاخی رسول تک پہنچتی تھی یا نہیں پہنچتی تھی یہ بات واضح نہیں تھی اس حالت میں اس (ممتاز قادری) نے اس (سلمان تاثیر) کو قتل کیا۔ لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جذبہ اس کا بڑا نیک تھا۔ جذبہ یہی تھا کہ نبیؐ کی شان میں گستاخی ہوئی ہے لہذا میں اس کا بدلہ لوں گا۔ جذبہ نیک تھا۔ اس نیک جذبے کی وجہ سے اس شخص کے حق میں بھی نیک گمان رکھنا چاہیے۔ اور اس نے جو کچھ کیا وہ نبی کریمؐ کی تعظیم اور تکریم کی نیت سے کیا اس واسطے اللہ تعالی کے ہاں امید ہے کہ وہ [غیر واضح لفظ: محظوظ ؟] ہی ہو گا اللہ کی رحمت سے‘۔

یعنی مفتی تقی عثمانی صاحب کے حکم کے مطابق حافظ اکرم کے معاملے پر بھی حافظ اکرم کا جذبہ دیکھتے ہوئے نیک گمان رکھنا چاہیے کیونکہ تبلیغی جماعت کے اراکین کو قتل کرتے ہوئے اس کا جذبہ بہت نیک تھا۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ نیک جذبہ تبلیغی جماعت کے ہر تبلیغی گروہ پر لگا کر ان کو شہر شہر قتل کیا جانے لگا تو پھر کیا ہو گا؟ کیا فتنے کا اندیشہ دیکھتے ہوئے مفتی تقی عثمانی صاحب کو اپنے موقف سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے؟

جنید جمشید مرحوم کے معاملے میں بھی ہم نے دیکھا تھا کہ ایک قصہ سناتے ہوئے ان سے بد احتیاطی ہوئی تو ان پر بلاسفیمی کا الزام لگا۔ اس وقت تو مولانا طارق جمیل صاحب نے ان کا دفاع کیا اور کہا کہ انہوں نے توبہ کر لی ہے اس لئے ان کو قوم معاف کر دے۔ وہ جان بچانے کے لئے کچھ عرصہ ملک سے باہر گزارنے پر بھی مجبور ہوئے۔ مگر جب پلٹے تو ایک ائیرپورٹ پر چند افراد نے ان پر حملہ کر دیا اور کہا کہ وہ گستاخ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ بلاسفیمی پر توبہ کی گنجائش کیسے نکلتی ہے؟ اس کا تعلق فقہ حنفی سے ہے۔

مفتی تقی عثمانی صاحب نے مندرجہ بالا انٹرویو میں یہ بھی تسلیم کیا تھا کہ پاکستان کا موجودہ بلاسفیمی کا قانون امام ابوحنیفہ اور حنفی اکابرین کے موقف کے مطابق نہیں ہے۔ فقہ حنفی کے موقف کے مطابق غیر مسلم پر بلاسفیمی اس وقت تک نہیں لگائی جا سکتی جب تک وہ اس قبیح فعل کا عادی نہ ہو، اور مسلمان کے بلاسفیمی کرنے کی صورت میں اس پر مرتد کا حکم لگتا ہے۔ مرتد کو توبہ کر کے دوبارہ اسلام قبول کرنے پر معافی دی جاتی ہے۔

اب اگر نیک جذبہ دیکھتے ہوئے کسی بھی شخص کو یہ اجازت دی جائے کہ وہ دوسرے کو قتل کرنے لگے تو انجام کیا ہو گا؟ اہل حدیث، دیوبندی، سید مودودی کی تعلیمات کے پیروکار، اہل تشیع، سب ہی ”واجب القتل گستاخ“ قرار پانے لگیں گے۔ انتہا پسند سلفی عقائد رکھنے والے بریلوی اصحاب کو ”مشرک“ قرار دے کر مارنے لگیں گے۔ جو قتل و غارت ہو گی اس کا تصور تو کریں۔

اب علما یہ فیصلہ کریں کہ بلاسفیمی پر قتل کرنے کا اختیار ایک عام شہری کو دینا ہے، جو اپنے ناقص مذہبی علم کی بدولت کسی کو بھی قتل کر سکتا ہے، یا پھر یہ اختیار ریاست کو دینے کی حمایت کرنی ہے جو شفاف انداز میں مقدمہ چلا کر فیصلہ کرے کہ ملزم نے گستاخی کی ہے یا نہیں۔ بلاسفیمی کے مقدمات میں عدالت پر دباؤ ڈالنے کے خلاف علما کو خود نکلنا ہو گا۔ ورنہ پھر گلی کوچے میں خون بہنے کے منتظر رہیں۔ اگر تبلیغی جماعت والے محفوظ نہیں رہے تو کون محفوظ رہے گا؟ بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث، اہل تشیع غرض کہ ہر مسلک کے علما کو ریاست کی پشت پر کھڑے ہو کر یہ یقینی بنانا ہو گا کہ وہ قانون کا نفاذ عدل و انصاف سے کرے، معصوم کو چھوڑے اور مجرم کو قانون کے مطابق سزا دے۔ اور یہ علما اپنے حلقہ اثر میں عوام کو بھی شد و مد سے یہ تعلیم دیں کہ ان کا قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا فساد فی الارض کا موجب بن سکتا ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar