ڈاکٹرخلیل طوقار کو صوفی جمیل اختر میموریل ایوارڈ دیا گیا


\"halil-toker-3\"ڈاکٹر محمد راغب دیشمکھ کی رپورٹ۔۔۔

کلکتہ، چار جنوری: اردو ادب کے نشر و اشاعت کیلئے قائم ملی و ادبی ادارہ صوفی جمیل اختر لٹریری سوسائٹی کے زیر اہتمام استاد شاعر قیصر شمیم کی صدارت اور افسانہ نگار و کالم نویس فہیم اختر (لندن) کی سرپرستی میں حال ہی میں مغربی بنگال اردو اکادمی کے مولانا ابوالکلام آزاد آڈیٹوریم میں ترک ادیب، شاعر، نقاد اور استنبول یونیورسٹی کے صدر شعبۂ اردو کو روزنامہ مشرق کے ایگزیکٹیو ایڈیٹر اور پارلیمانی رکن محمد ندیم الحق کے ہاتھوں صوفی جمیل اختر میموریل ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا۔ اس موقع پر استنبول یونیورسٹی کے ایک اور اردو پروفیسر ڈاکٹر ذکائی کردس اور تہران یونیورسٹی ایران سے تشریف لانے والی زینب سعیدی بھی موجود تھیں۔

ڈاکٹر خلیل طوقار، ڈاکٹر جلال سوئیدان، ڈاکٹر خاقان قیوم جو، ڈاکٹر سلمیٰ بینلی، ڈاکٹر نورئیے بلک، ڈاکٹر گلیسرین ہالی جی، ڈاکٹر شوکت بولو، ایرکن ترکمان، اور درمش بلغور چند ایسے نام ہیں کہ جو ترکی میں اردو زبان و ادب کی تدریس وتحقیق میں مصروف ہیں۔

ترکی میں اِس وقت تین یونیورسٹیوں میں اردو کے شعبے قائم ہیں۔ انقرہ یونیورسٹی، سلجوق یونیورسٹی قونیہ، استنبول یونیورسٹی۔ اِن تینوں یونیورسٹیوں میں اردو کے حوالے سے تعلیم و تدریس اور تحقیق کا سلسلہ جاری ہے۔ استنبول یونیورسٹی میں 1985 میں اردو کا شعبہ اور چیئر قائم ہوئی جس پر ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار کا تقرر ہوا۔ ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار نے جہاں اردو زبان و ادب کے لیے اور بہت سے کام کیے وہاں خلیل طوقار جیسے اسکالر کو تدریس اردو کے لیے تیار کرنا بھی ان کا ایک ایسا کارنامہ ہے جس کے ثمرات روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں۔

خلیل طوقار تین اپریل 1948کو باقر کوئے، استنبول میں پیدا ہوئے۔ ڈاکٹر خلیل طوقار نے 1989 میں استنبول یونیورسٹی سے بی اے کیا۔ انہوں نے 1992میں استنبول یونیورسٹی سے فارسی میں ایم اے کیا۔ ان کا ایم اے کا مقالہ اردو اور فارسی دونوں زبانوں سے تعلق رکھتا ہے۔ ایم اے میں انہوں نے مرزا غالب کے فن اور شخصیت کے حوالے سے کام کیا۔ 1995میں انہوں نے استنبول یونیورسٹی ہی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ان کے پی ایچ ڈی کے مقالے کا عنوان تھا: (Persian and Urdu Poetry in India and the Poets of the Bahadur Shah II Era) برصغیر میں فارسی اور اردو شاعری اور \"halil-toker-2\"بہادر شاہ ظفر کے دور کے شعرا۔

1990 سے 1999 تک وہ اسسٹنٹ کے طور پراستنبول یونیورسٹی کے شعبہ فارسی سے منسلک رہے۔ 1999 سے 2001 تک بطور اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو استنبول یونیورسٹی میں کام کرتے رہے اور 2001 سے نومبر 2006 تک ایسوسی ایٹ پروفیسر کے طور پر کام کیا۔ نومبر 2006 میں وہ پروفیسر ہوگئے اور نومبر 2009 سے سینئر پروفیسر کے طور پر شعبہ اردو استنبول یونیورسٹی سے منسلک ہیں اور شعبہ اردو کے صدر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ اپنے شعبے کے مقصد کے بارے میں لکھتے ہیں:۔

’’ہمارے شعبے کا مقصد ہے، ترکی میں اردو کی تعلیم کو پھیلا کر ترکی کے لوگوں اور اردو بولنے والوں کے درمیان موجود تاریخی دوستی اور بھائی چارے کو اور بڑھا کر مضبوط کرنا اور علمی اور ادبی سطح پر تحقیق اور عرق ریزی کرنے والے ریسرچ سکالرز کو تربیت دینا۔‘‘

ڈاکٹر صاحب پینتیس سے زیادہ کتابیں تحریر کر چکے ہیں۔ وہ اردو، ترکی اور انگریزی میں اب تک سو سے زیادہ مقالات لکھ چکے ہیں۔ زبان و ادب کے سلسلے میں کئی ملکوں کا دورہ کرچکے ہیں۔ انھیں اپنے کام پر بہت سے اعزازات بھی مل چکے ہیں۔

ڈاکٹر خلیل طوقارنے اردو تحقیق میں نمایاں کام کیا ہے۔ اِس حوالے سے اردو، ترکی اور فارسی تینوں زبانوں پر ان کی گہری نظر ہے۔ڈاکٹر انعام الحق جاوید لکھتے ہیں:۔

’’خلیل طوقار نے ’’عہد بہادر شاہ میں اردو اور فارسی شاعری‘‘ کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ہے اور اردو گرامر پر ایک کتابچہ بھی لکھا ہے۔‘‘
ڈاکٹرخلیل طوقار ترکی سے سہ ماہی اردو رسالہ ’’ارتباط‘‘ بھی نکالتے ہیں۔جنوری تا ستمبر 2011 کا ارتباط کا شمارہ، فیض احمد فیض نمبر نمبر ہے اور نومبر 2012۔ اپریل 2013 میں ارتباط کا احمد فراز نمبر اہمیت کا حامل ہے۔ ’’جہان اسلام۔ ترکی کا ایک اردو اخبار‘‘ بھی ان کی تحقیقی کاوشوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ڈاکٹر خلیل طوقار کے مضامین پاکستانی جرائد اخبار اردو، مجلہ اقبال، اردو نامہ اور دیگر رسائل میں شائع ہوچکے ہیں۔ اردو کے حوالے سے مختلف ممالک میں متعدد کانفرنسوں اور سیمیناروں میں شرکت کرکے اپنے تحقیقی مقالات پیش کرچکے ہیں۔

ڈاکٹر خلیل طوقار نے اردو کے حوالے سے پینتیس سے زیادہ کتب اور سو سے زیادہ مقالات تحریر کیے۔ انہوں نے علامہ اقبال کے خطوط، مولانا روم کی مثنوی کے منتخب حصوں کے علاوہ اردو شعرا کے کلام کا انتخاب بھی ترکی زبان میں منتقل کیا ہے۔ ان کا تراجم کے حوالے سے بہت سا کام شائع ہوچکا ہے۔

ڈاکٹر خلیل طوقار ایک نقاد، محقق اور ماہر تعلیم وتدریس ہونے کے ساتھ ساتھ خوب صورت جذبوں کے شاعر بھی ہیں۔ ان کی شعری کتابیں ’’ایک قطرہ آنسو‘‘ اور ’آخری فریاد‘ میں ان کی متنوع شاعری موجود ہے۔ ان کی شاعری جذبے اور خیال کا ایک حسین امتزاج لیے ہوئے ہے۔ان کے شعری موضوعات میں رنگا رنگی پائی جاتی ہے۔ وہ واردات قلبی اور اپنے لطیف خیالات کو لفظوں کے روپ میں بیان کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ ان کی نظم سوال کے یہ مصرعے دیکھیے:۔

میں نے پوچھا شبنم سے
تیری عمر ہے کتنی
کہا اس نے مسکرا کر
کم سے کم تیرے جتنی

پروفیسر ڈاکٹرخلیل طوقار نے اظہار خیال پیش کرتے ہوئے کہا کہ اردو زبان ان کی کسبی زبان نہیں بلکہ اپنی زبان ہے۔ اس زبان سے میری محبت ہے۔ میرا عشق ہے۔ ڈاکٹرخلیل جن کی مادری زبان ترکی ہے۔ لیکن وہ فارسی ، اردواور انگریزی زبان میں بھی عبور رکھتے ہیں نے کہا کہ ترکی اور اردو زبان کا ایک قدیمی رشتہ ہے جس پر وہ نازاں ہیں۔ خود لفظ ـ’’اردو‘‘ ایک ترکی ہے جس کے معنی ’لشکر‘ کے ہے۔ حضرت امیر خسرو جو اردو کے پہلے شاعر ہیں ، خود ترک تھے۔ دکن کے قطب علی شاہ کا تعلق بھی ترکی سے تھا۔ حضرت غالبؔ اور داغؔ بھی ترکی ہی کے تھے۔ اس طرح اردو ترکی کی طرح ہماری بھی زبان ہے۔ ہماری زبان سے ہماری قوم ہوتی ہے ۔جب زبان ہی نہیں رہے گی تو قوم کہاں رہے گی؟ ترکوں میں قوم پرستی بہت زیادہ ہوتی ہے ۔ ایک دفعہ تاتاری ترکوں کو ترکی سے نکال کر روس میں بھیج دیا گیا تھا۔ ان کی تعداد بیس لاکھ تھی۔ ان کی نصف تعداد راستے میں ہی فوت ہوگئی، بقیہ زندہ رہی۔ یہ اردو کی تہذیب ہے جو دنیا کے ہر حصے میں پائی جاتی ہے اور ڈاکٹر خلیل جیسے لوگ اس کے امین ہیں۔ ان کی شاعری مے دو آتشہ ہے۔ ترکی یونیورسٹی میں ہر سال کم و بیش سوا سو طلبا و طالبات اردو کی تعلیم حاصل کرتے ہیں جس سے اردو کی مقبولیت کا اندازہ ہوتا ہے۔

لٹریری سوسائٹی کے سرپرست فہیم اختر نے کہا کہ 2006 میں بزرگ شاعر جب لندن آئے تھے تو میں نے ان سے اس طرزکی سوسائٹی کے بارے میں بات چیت کی تھی۔ 2007 میں انہوں نے اسے عملی جامہ پہنایا۔ تب سے آج تک ہر سال ادبی پروگرام کئے جاتے ہیں اور ادباء و شعراء صحافیان کو اعزازات دیئے جانے کا سلسلہ قائم ہے۔ اس سے قبل مشہور صحافی احمد سعید ملیح آبادی، مجتبیٰ حسین، ملک زادہ منظور، عزیز برنی جیسی شخصیتوں کو اعزازات دیئے گئے۔ 2015 میں ترکی میں تین دنوں تک ’’جشن اردو ‘‘ منایا گیا جس میں دنیاکے سو سے زیادہ مفکرین نے شرکت کی تھی۔ اس میں بھی مدعو تھا۔ وہیں میری ملاقات ڈاکٹر خلیل طوقار سے ہوئی ۔ رواں سال کا ایوارڈ انہی کے نام ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ادارہ تمام اردو والوں کا ہے۔ میں اس کا رضا کار ہوں۔ اس ادارے میں تمام لوگوں کی شمولیت ہونی چاہئے۔ میں کلکتہ کو محدود سطح سے نکال کر عالمی سطح پر مرکز نگاہ بنانا چاہتا ہوں۔

اردو کی آبیاری ہماری اپنی ذمہ داری ہے۔ ہمیں اس کی ترقی و ترویج کیلئے کسی عظیم یا حکومت پر انحصار نہیں کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنے گھروں میں اپنے بچوں کو اردو کی تعلیم دینی ہوگی۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ ڈاکٹر خلیل طوقار کو ایوارڈ دینے سے کلکتہ اور استنبول کے درمیان ایک پل قائم ہوگا۔ اپنے بارے میں انہوں نے کہا کہ میں لندن میں ضرور رہتا ہوں لیکن میرا دل کلکتہ میں رہتا ہے۔ میں اردو زبان کی خدمت کے لیے بر وقت تیار ہوں۔ تاتاریوں نے اپنی زبان کو مرنے نہیں دیا۔ اس طرح زبان کی حفاظت ہماری ذمہ داری اور فرض ہے۔ اردو دنیا کی واحد مشترکہ زبان ہے جس میں سارے مذاہب اور اقوام کے الفاظ شامل ہیں۔ ہندو یہ سمجھتا ہے کہ یہ اس کی زبان ہے۔ مسلمان یہ سمجھتا ہے کہ اس کی ہے۔ ترک بھی اسے اپنا سمجھتا ہے تو ایرانی بھی اسے اپنا جانتا ہے۔ یہ محبت اور ہم آہنگی کی زبان ہے جو مفاہمت سے پیدا ہوئی ہے ۔ یہ زبان ہم سب کیلئے اللہ کی نعمت ہے۔ اس لئے زبان کے اندر اپنی حفاظت خود کرنے کا وصف موجود ہے۔ ورنہ اردو کے ساتھ جتنے ناروا سلوک کئے گئے اس کے باوجود اس کا پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ رہنا ایک بڑی بات ہے۔

\"halil-toker-1\"

ترکی میں اردو کے تعلق سے انہوں نے کہا کہ 1915 میں وہاں اعلیٰ تعلیم کا آغاز ہوا۔ آج تر کی کی تین یونیورسٹیوں میں اردو کی تعلیم ہوتی ہے۔ تا ہم انہوں نے اس بات کا افسوس کا اظہار کیا کہ آج اردو کو نقصان اردو والوں سے ہی پہنچ رہا ہے۔ اردو والے آج اپنے بچوں سے انگریزی میں باتیں کرتے ہیں۔ ہماری یونیورسٹیوں میں غیر اردو دان طلبہ جب اردو کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بر صغیر کے لوگوں سے اردو میں باتیں کرتے ہیں تو وہ جواب انگریزی میں دیتے ہیں، جس سے وہ جزبز کے شکار ہوجاتے ہیں اور مجھ سے کہتے ہیں کہ جب اردو والے خود اپنی زبان میں گفتگو نہیں کرتے ہیں تو ایسی زبان سیکھنے سے کیا فائدہ؟ ان حالات میں مجھے انہیں سمجھانا ہوتا ہے۔

انہوں نے اردو والوں سے فریاد کی کہ خدا کیلئے اردو کے ساتھ نارواسلوک نہ کریں۔ زبان آپ کی محبت ہے۔ زبان کو روزگار بنانے کیلئے نہ سیکھیں بلکہ شوق سے سیکھیں ۔یہ زندہ رہے گی تو آپ زندہ رہیں گے۔
اس سے قبل جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر خواجہ محمد اکرام الدین نے ڈاکٹر خلیل طوقار کا تعارف پیش کرتے ہوئے کہا کہ محترم جس روانی کے ساتھ ترکی میں بات کرسکتے ہیں اس روانی کے ساتھ فارسی اور اردو بھی بول سکتے ہیں۔ موصوف 40 کتابوں کے مصنف ہیں جس میں سے 25 کتابیں اردو میں ہیں۔ یہ بیک وقت ادیب، شاعر، محقق ،نقاد بھی ہیں۔ انہوں نے سفر نامے بھی لکھے ہیں۔

صدر جلسہ قیصر شمیم نے کہا کہ تاریخ کبھی کبھی خود کو دہراتی بھی ہے۔ اس میں نئی نئی باتیں بھی آتی ہیں۔ خلافت کی تحریک کے حوالے سے اردو کا ایک پرانا رشتہ ترکی سے پیوستہ ہے جس کے اظہار کیلئے سیکڑوں صفحات بھی کم ہیں۔

دیگر مقررین میں ایم پی محمد ندیم الحق، صدر شعبۂ اردو مولانا آزاد کالج ڈاکٹر دبیر احمد ، ڈاکٹر ذکائی کرداس ترکی، زینب سعیدی ،تریاق کے ایڈیٹر میر صاحب حسن ، ڈاکٹر شکیل احمد خاں، ڈاکٹر مشتاق انجم، وغیرہ شامل تھے۔ نظامت کی ذمہ داری ڈاکٹر صباح اسمٰعیل نے بحسن خوبی انجام دی جبکہ اظہار تشکر ادارے کے نائب سکریٹری سید حسن نے کیا۔ جلسہ گاہ میں عمائدین شہر کی ایک بڑی تعداد موجود تھی ۔پروگرام کے آخری حصہ میں شاندار مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا۔

تصاویر: غلام ٖغوث، کلکتہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments