جی حضوری، جی حضوری!


پاکستانی قوم کو چاہئیے کہ وہ اس مشہور ڈائیلاگ ”ہم امریکہ کے غلام نہیں ہیں، نہ ہمیں امریکی امداد چاہیے“ کو پس پشت ڈال کر جی حضوری، جی حضوری کرے۔ حالات مختلف ہوگئے ہیں نہ وہ وقت رہا امریکہ کے لیے نہ وہ وقت رہا ہے پاکستان کے لیے بھی لیکن ہم ابھی بھی تصور غلامی سے نجات نہیں پا سکے۔ مشرف سے پہلے ضیاء نے بھی امریکہ کو خوش آمدید کہا تھا اور بیچارے افغانیوں کو یہ باور کرایا تھا کہ ہم لوگ آپ کے مسلمان بھائی ہیں آپ پر جب بھی کوئی وقت آیا ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہوں اور افغانیوں کو اپنے ملک میں رہائش کیا شناختی کارڈ بھی عطا کر دیے گئے۔

پھر وقت گزرتا گیا کہ افغانیوں کے اندر جذبہ جہاد اور اسلام شدت اختیار کر چکا تھا تو امریکہ کو ملا عمر مرحوم کا نطام سیاست جو روایتی تھا لیکن کامیاب تھا پسند نہ آیا اور نہ ہی یہ پسند آیا کہ افغانستان دنیا بھر کے مجاہدین کے لیے ایک کیمپ کی حیثیت اختیار کر رہا ہے اور یہ نہ ہو کہ اسرائیل و دیگر کی حمایت کے بدلے امریکہ کو ہی عذاب نہ جھیلنا پڑے۔ پھر دوسری طرف سُپر پاور کا نشہ جو اترنے کا بھی بھی نام نہیں لے رہا اس شناخت کو بھی خطرہ ہونے لگا تو مشرف جیسا ایک اور جرنیل مل گیا جس سے دوبارہ اسی افغانستان پر حملہ کرایا کہ کہ جسے چند برس پہلے مجاہد بنا چکا تھا لیکن بدقسمتی یہاں بھی ہماری ہے کہ ہم ابھی بھی نہیں سمجھے۔

تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کو دوبارہ اپنے سُپور پاور وجود کا جھٹکا لگا اور اس نے حسب روایت پاکستان کی قربانیوں کو ایک ٹشو سمجھ کر پھینک دیا۔ اس پر ہم نے امیدیں باندھ لین کہ امریکی صدر کو ہمارے ارباب اختیار حضرات، حکومت، حزب اختلاف اور فوج ایک پیج پر جمع ہو کر ایک مشترکہ جواب دیں گے لیکن بدقسمتی ہماری رگوں میں افیون کی طرح گھس چکی ہے کہ ہمیں اب بھی چالیس سالہ قربانیوں کے ساتھ امریکی اعتماد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارا امریکہ سے رشتہ آقا اور غلام کا ہوچکا ہے۔ ہم ہر دور میں استعمال کیے جاتے رہے ہیں۔ عرض کیا ہے نا جس امریکہ نے جنرل ضیاء کی مجاہدانہ بصیرت کو پرکھتے ہوئے افغانستان کے لوگوں کو مجاہدین اسلام بنا دیا تھا پھر اسی امریکہ نے جنرل مشرف کی سیکولر بصیرت کو پہچانتے ہوئے انہی افغانیوں کو دہشت گرد بنا کر افغانستان کا بیڑہ تو غرق کرنا تھا ساتھ پاکستان کا بھی بیڑہ غرق کر دیا۔

اب تک 20، 25 ہزار افراد کے مختلف دھماکوں، ڈرونوں اور ادھر ادھر حملوں میں مرنے والے پاکستان کے بے گناہوں کی قربانیوں پر امریکہ پھر بھی تسلیم نہیں کرتا تو جناب کچھ تو لیول ہونا چاہئیے۔ فخر تب ہوا جب سینیٹر رضا ربانی نے دبنگ قسم کا امریکہ کو منہ توڑ جواب دیا کہ ’اگر ٹرمپ اپنی فوج کا قبرستان بنانا چاہتا ہے تو خوش آمدید کہیں گے‘۔ اگلا بیان جو پسند آیا وہ یہ عمران خان کا تھا جس سے سیاسی طور پر میرا ذاتی اختلاف ہوتے ہوئے بھی قوم کی ترجمانی کرتا رہا ہے اور عمران کی اس بات سے تو ہمیں سہمت ہونا پڑے گا کہ امریکی جنگ میں کود کو دھکیلنا ہی نہیں چاہئیے جتنی بھی قربانیاں ہم دیں گے وہ حمایت بھارت کی کرے گا۔ میں سوچ رہا تھا مندرجہ بالا دونوں بیانات اگر دفتر خارجہ اور فوج کی طرف سے دیے جاتے تو چودہ طبق روشن ہوجاتے۔

کوئی عقلمند اور دانشمند انسان ہی ہمارے ارباب اختیار اور دفاعی پالیسیاں بنانے والوں کو بتائے کے جناب امریکہ کے لئے ہمارے ہمسایہ ممالک بھی ویسے ہی ایک ٹشو سے زیادہ نہیں ہیں جیسے ہم استعمال ہوئے ہیں لیکن وہ ہمسائے ہمارے لے ٹشو نہیں بلکہ ایک مستقل لباس کی طرح ہیں جسے ہم نے پہننا اوڑھنا اور بچھونا ہے۔ اگر اس میں کسی نے کانٹے ڈال دیے یا ہمیں ہی اپنے ہمسایوں کے لیے کانٹے دار بنا دیا تو بھی دونوں صورتوں میں ہمارا نقصان ہے لیکن کاش کہ کوئی تو سمجھ جاتا۔ رواں حکومت نے جتنے بھی دوسرے کام کیے ہیں لیکن عالمی لیول پر خود کو گرانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ کیونکہ نہ ہی بہتر خارجہ پالیسی ترتیب دی جا سکی نہ ہی خارجی وزیر بنایا جا سکا اور نہ ہی بھارت کے لیے کوئی بہتر پالیسی بنی جس سے دنیا کو یہ محسوس ہو کہ ایک ایٹمی ٹیکنالوجی رکھنے والا ملک کسی لیول پر ٹھہرا ہے۔ لیکن کیا کریں جی حضوری اور جی حضوری کی روایت ہمارے خون میں پیوست ہوچکی ہے۔ ہم لڑنے مرنے کے لیے بھی ہر وقت تیار کھڑے ہیں لیکن حکم کرنے والا تو ہو جو ہمیں امداد بھی دے اور ہمیں میدان میں دالنے کا حکم بھی کرے۔ یقین کیجیے امداد نام کی چیز بھکاری، کاہل اور غلام بنا دیتی ہے جس نے نکلنا ناممکن ہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).