مصطفیٰ کمال کی نئی سیاسی پارٹی کیا عہد الطاف کا اختتام ہے؟


 محمد عاصم۔۔۔۔

\"Muhammad-Asim\"

بہت وقت لگا ایک نئی پارٹی کو لانے میں۔ کتنے ہی ماہ گزرے اور دن بیتے، جہاندیدہ لوگوں کو اس کا بخوبی علم ہے۔ سادہ الفاظ میں بس یہی کہنا باقی اور مناسب ہے ’الوداع الطاف بھائی‘ مہاجر قومی مومنٹ سے متحدہ قومی مومنٹ تک اور پھر اس سے آگے اس نومولود پارٹی کے اعلان تک کتنے ہی سال گزرے اس الطافی عہد کو مکمل ہونے میں۔ کتنے لاشے دیکھے روشنیوں کے اس شہر نے اور کتنے ڈاکے سہے اس کے باسیوں نے۔ تاریخ دان کسی دن اس باب سے بھی پردہ اُٹھائے گا۔

یہ بات تو بہت پہلے سے سیاسی حلقوں میں گردش کر رہی تھی کہ متحدہ قیادت کے دن گنے جا چکے ہیں اور نئی قیادت مشرف یا اس کے قبیلے کے کسی حواری کے ہاتھ میں آنے کو ہے۔ اس حوالے سے پنڈی کے کردار پر بھی انگلیاں اُٹھائی گئیں۔ پھر عمران خان صاحب کی سیاسی انٹری ڈالنے کی اپنی سی کوشش کی گئی۔ لندن سے وفاق تک سبھی راستوں پر قدموں کے نشانات ابھی بھی تازہ ہوں گے جن کا نتیجہ آج سامنے آیا ہے۔

کتنی ’خوش نصیبی‘ کا معاملہ ہے۔ جس کا سارا حاصل وصول دبئی کوجاتا ہے۔ ایک دم توڑتی پارٹی کا سربراہ دبئی سے بیٹھ کر اپنی حکومت چلا رہا ہے۔ اور آج ایک دوسرےدبئی بھاگے ہوئے ’عوامی‘ نمائندے نے کراچی واپس آ کر اپنی پارٹی کا اعلان کر دیا ہے۔ اور خوش بختی دیکھیے۔ پارٹی کا جھنڈا پاکستانی پرچم کے جیسا رکھا گیا ہے۔ ویسا ہی جیسا ق لیگ کا تھا۔ جبکہ اعلان کرنے والے نے صاف کہا کہ وہ اور انیس اس پارٹی کے ممبر ہیں۔ واہ کمال کردیا کمال صاحب آپ نے تو۔ یعنی اصل قیادت کسی اور کے ہاتھ میں ہے۔

سیاسی حلقوں میں یہ سوال گردش میں ہے کہ اس سے پہلے سابق چیف جسٹس کی پارٹی کس کی راہ ہموار کرنے کے لیے بنائی جا رہی تھی؟ پھر کراچی میں ہی موجود حقیقی کے لیڈر کو کیوں سامنے نہیں لایا گیا؟ اور بچارے فاروق ستار اینڈ پارٹی کیا کیا مستقبل ہے ؟ خیر عوام کو ایک نئی پارٹی مبارک ہو۔ یہ نئی پارٹی کچھ تو نیا کرے گی۔ کم از کم خون کی وہ پیاس تو نہیں دکھائے گی جو اس سے پہلے اہل کراچی دیکھتے آئے ہیں۔
44 سالہ مصطفیٰ کمال ابھی جوان ہے۔ مئیر شپ میں جہاں بہت سے منصوبوں کو مکمل کیا، وہیں بہت سے منصوبوں نے جلد ہی کوالٹی سے خالی ہونے کا اظہار بھی کردیا جس میں مشہور زمانہ بائی پاس کا پل بھی شامل ہے۔ جبکہ معتبر حلقوں کا کہنا ہے کہ کمال نے جو منصوبے مکمل کیےیا جن کا آغاز کیا ان میں بیشتر وہ ہیں جن کا آغاز نعمت اللہ خان نے کیا تھا۔ نعمت اللہ خان الخدمت گروپ (جماعت اسلامی) کی طرف سے کراچی کے مئیر منتخب ہوئے تھے۔

لیکن کہانی ابھی شروع ہوئی ہے۔ چند روز پہلے متحدہ کا بیان اخبارات کی زینت بنا تھا کہ لوگ چالیس روز کے لیے راشن سامان گھروں میں سٹاک کر لیں ۔ ایسا بیان کیوں دیا گیا تھا؟ کیا حالات کشیدگی کی طرف جائیں گے؟ بظاہر متحدہ اس نئے کھیل کو چوہدری نثار کی آخری چال سے تشبہ دے رہی ہے۔ جبکہ موضوعِ سخن جن کی طرف ہے وہ بخوبی جانتے ہیں۔ بات جو بھی ہو اگر یہ آخری وار ہے تو متحدہ اس کو کیسے ہینڈل کرے گی، یہی اظہاریہ اور ردعمل دراصل مستقبل کا پتہ دے گا۔

ہدایت کار نے بڑی صفائی سے نئے سیاسی آغاز کے پہلے قدم کا باب لکھا ہے۔ حکمت سے اس نے سفر کو بنا عنوان رکھ چھوڑا ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ مثلاً متحدہ کے پارٹی ورکر کے لیے اپنے آپ کو قابل قبول بنانا۔ نئے پنچھیوں کو نئی پارٹی کی ہر سطر میں شریک کرنے کے عزم کا اظہار کرنا۔ متحدہ ہی کو دوبارہ پارٹی منتخب کرنا۔ مائنس ون فارمولہ کی طرف جانا۔ فوری ری ایکشن کو کمزور بنانا ۔ پہلے سے طے شدہ صف بندی کو اپنا مسکن بنانے کا راستہ کھلا رکھنا وغیرہ وغیرہ۔

مصطفیٰ کمال نے ان سبھی الزامات کا صاف اقرار کیا ہے جن کو مختلف پارٹیز نے کئی بار دہرایا ہے۔ لیکن سچ یہ ہے کہ ان تمام جرائم میں اس سے پہلے پوری ہوشمندی کے ساتھ مصطفیٰ کمال شریک رہےہیں۔ کیا آج یوں بدل جانے سے ان کی ذہنیت بھی بدل جائے گی؟ کیایہ نئی پارٹی وہ سب کچھ نہیں کرے گی جس کا اقرار پریس کانفرنس میں کیا گیا ہے؟

نظریاتی سیاست کہیں مفقود ہوتی جارہی ہے۔ کمرشلائزیشن نے خدمت کے اس باب میں بھی اپنے لیے منافع بخش رجحانات کو تلاش کر لیا ہے۔ یوں غریب عوام کو نئے خوابوں کا جھانسہ دے کر کانٹوں کی سیج سجائی جاتی ہے۔ جس پر چل کر ننگے پاؤں لہولہان ہو جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments