پاکستان میں مرد ہونا آسان نہیں


پاکستان میں عورت ہونا ایک مشکل کام ہے۔ یہ تو آپ نے کئی بار پڑھا اور سنا ہو گا۔ ویسے بھی عورتوں کی جو حالت پچھلے ستر برسوں میں رہی ہے، اس کے بعد اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے کہ سب لوگ اسی بات پر شور مچاتے ہیں۔ لیکن اس سارے شور میں ایک اور مظلوم مخلوق اکثر نظر انداز ہو جاتی ہے۔ میں نے سوچا آج ذرا اس بات پر خامہ فرسائی کی جائے کہ پاکستان میں مرد ہونا بھی ہر گز آسان کام نہیں ہے۔

مرد ہونے کی ایک بنیادی شرط ہے غیرت مند ہونا۔ اس غیرت مندی کا عمومی شکار عورتوں کو ہونا چاہیے۔ اگر آپ خدا نخواستہ ایسے مرد ہیں جو کہ اپنی بہنوں یا بیوی پر دوپٹہ نہ لینے، بغیر اجازت گھر سے نکلنے، اور اعلی تعلیم حاصل کرنے پر آگ بگولہ نہیں ہو تے ہیں تو معاشرے کے معیار کے حساب سے آپ سخت بے غیرت ہیں۔ اگر آپ شادی شدہ ہیں تو آپ کو زن مرید کے لقب سے بھی بلایا جا سکتا ہے۔ اگر آپ اس بات پر ذرا سا بھی یقین رکھتے ہیں کہ آپ کی بہنوں یا بیوی کو معاشرے میں مردوں کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا چاہیے تو پیٹھ پیچھے آپ کے بارے میں کئی باتیں کی جائے گے جیسے کہ یہ تو تھلے (نیچے) لگا ہوا ہے، یا نامرد کہیں کا وغیرہ وغیرہ۔

غیرت مند ہونے کے علاوہ ایک پاکستانی مرد کو ہر قسم کی بہادری دکھانا ضروری ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ کو جانوروں کو کاٹنا اور خون دیکھنا پسند نہیں ہے اور آپ کسی کے سامنے یہ بات بتا دیں تو آپ پر لڑکیوں کی طرح کمزور دل ہونے کا لیبل لگ جائے گا (آج کل ویسے ایسے لوگوں کو برگر بھی کہ کر بلایا جاتا ہے)۔

ایک اور امتحان جس سے تقریباً ہر مرد کو گزرنا پڑتا ہے (جب وہ محض ایک معصوم لڑکا ہوتا ہے ) وہ ہے پڑھائی میں آگے نکلنے کا زور۔ اگر پڑھائی میں بچہ ٹھیک طرح سے نہ پڑھ پائے تو اس کو اکثر کہا جاتا ہے کہ بہن کو دیکھو پڑھائی میں کتنی اچھی ہے۔ اس کی تو شادی ہو جانی ہے تم نے تو کما کر لانا ہے۔ چھوٹی سی عمر میں معصوم بچے کے اوپر توقعات اور ذمہ داریوں کا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے۔ بیچارہ اس ہاتھی کے بچے کی طرح ہو جاتا ہے جو بڑا ہو کر بھی مہاوت سے اپنی رسی نہیں تڑواتا کیوں کہ اپنے حساب سے وہ ہمیشہ کے لئے قید ہو چکا ہوتا ہے۔

جو مرد حضرت شادی شدہ ہیں ان کو اچھی طرح سے اندازہ ہے کہ چکی کے دو پاٹوں کے بیچ جتنا کوئی شادی شدہ مرد پستا ہے اتنی گندم بھی نہیں پستی۔ بیچارہ پہلے تو اپنی مرضی سے شادی نہیں کر سکتا۔ شادی وہ ویسے بھی گھر والوں کے لئے کرتا ہے۔ اب اس کا دل ہو یا نہ ہو۔ اپنے بیوی بچوں کو سپورٹ کر سکتا ہو یا نہیں۔ کیوں کہ مرتی دادی یا جذباتی ماں کی خوشی ہے تو شادی تو کرنی ہے۔ اب کس قسم کی لڑکی سے کرنی ہے یہ فیصلہ کرنا اس کا کام نہیں۔ اگر ہمت ہے تو پسند کی شادی کر کے دکھا دے۔ گھر کی ہی عورتیں ایسا جینا حرام کریں گی کہ وہ کانوں کو ہاتھ لگائے گا۔ بہرحال اگر خیر و عافیت سے بغیر کسی بڑے ڈرامے کے شادی ہو جائے تو اگلا کام ہے بیوی اور ماں میں توازن رکھنا۔ ماں کی زیادہ طرفداری کر لی تو بیوی کہے گے مرد ہو یا اماں کا لاڈلا۔ اگر بیوی کی طرف داری کر دی تو ماں کہے گے ہائے زن مرید بیٹا۔ بھول گیا کہ جنم کس نے دیا تھا۔ اسی لئے اکثر آپ کو شادی شدہ مرد خاموش نظر آئیں گے۔ بیچارے مسئلہ کشمیر اور فلسطین سلجھاتے سلجھاتے تھک چکے ہوتے ہیں۔ بس ایک دن خاموشی سے دل پر ہاتھ رکھ کر الله کو پیارے ہو جاتے ہیں۔

جہاں تک رونے کا سوال ہے تو پاکستان میں یہ کام محض عورتیں کرتی ہیں۔ اگر آپ کو آنکھوں کسی بات پر آنسو آ جاتے ہیں تو بتایا جاتا ہے کہ آپ عورتوں کی طرح چھوٹے دل کے مالک ہیں۔ بات محض یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ آپ کو ضرورت کے تحت گلی، محلے، آفس، یا سڑک پر لڑنا اور گریبان پکڑنا بھی آنا چاہیے۔ اس کے علاوہ آپ کو کافی ساری موٹی موٹی گلیاں بھی آنی چاہییں اور دوستوں کی محفل میں بیٹھے ان گالیوں کا بے محابا استعمال بھی بے حد ضروری ہے۔ یہ صفت آپ کی مردانگی کو اچھے طریقے سے ثابت کرتی ہے۔

اب آپ خود سوچئے کہ کیا مرد بھی اتنے ہی مظلوم نہیں جتنی کہ عورتیں؟ یہ اور بات ہے کہ ان پر نہ رونے کا اتنا زیادہ زور ہے کہ وہ اس بات پر شور نہیں مچا سکتے ہیں اور کسی سے مدد بھی نہیں مانگ سکتے ہیں۔

یہ مرد ہونا نہیں آسان بس اتنا سمجھ لیجیے
ایک ڈرامے کا دریا ہے اور روز ڈوب کے جانا ہے

اگر آپ ایک مرد ہیں اور ان میں سے کسی بھی صورت حال سے گزر چکے ہیں تو ہم آپ کا دکھ سمجھتے ہیں۔ معاشرے کے حساب سے آپ ایک شریف مرد (یعنی کہ بیکار انسان ) ہیں۔ ہماری پوری ہمدردیاں آپ کے ساتھ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
5 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments