ریشمی رومال سے پانی خریدنے تک کا سفر


“کچھ سمجھ نہیں آتا جی، آج کل تو کمائی سے برکت ہی ختم ہو گئی ہے، جتنا مرضی کما لو مہینے کے آخر میں دھیلا پلے نہیں ہوتا، خرچے ختم ہونے کا نام نہیں لیتے، آج بجلی کا بل، کل گیس کا بل، پرسوں فلاں کی شادی ہے، دو دن بعد فلاں مسئلہ ہے، پتہ نہیں پیسے جاتے کہاں ہیں، ایسے لگتا ہے جیسے ہتھیلی میں سوراخ ہو گئے ہیں۔” یہ سب باتیں ہر ماہ اکثر گھروں میں اور دوستوں کی بیٹھکوں میں ہوتی ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ برکت کمائی میں نہیں رہی یا گھر کے سامان میں برکت بہت زیادہ ہو گئی ہے؟ غیر محسوس طریقے سے روزمرہ زندگی میں بہت سی ایسی چیزیں شامل ہو گئی ہیں جو پندرہ بیس سال پہلے تک کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔

ٹشو پیپرز کو ہی دیکھ لیجیے، بیس برس پہلے ٹشو کلچر کتنا عام تھا؟ جن کو زکام ہوتا تھا وہ ساتھ رومال رکھتے تھے، جنہوں نے موٹر سائیکل چلانے کے بعد ہاتھ منہ پونچھنا ہوتا تھا وہ گھر ہی سے چلتے وقت یا سر پہ رومال باندھ لیتے یا جیب میں رکھ لیتے، شدید گرمیوں میں تولیے نما رومال رکھا جاتا تھا، لو چلی تو بھگو کے گردن پہ رکھ لیا، پسینہ آیا تو پونچھا، رومال دھویا اور پھر پوری قوت سے نچوڑ کر وہیں سکھا لیا۔ تھوڑا پیچھے جائیں تو ریشمی رومالوں کے ساتھ کیا رومانویت وابستہ ہوتی تھی، محبوب کو اس پر شعر کاڑھ کر دئیے جاتے تھے، شہر سے آنے والا فوجی گاؤں میں انتظار کرنے والی کے لیے رنگ برنگے رومال اور پراندے لے کر جاتا تھا، شوقین مزاج اسی رومال کو عطر میں بسا کر رکھتے تھے لیکن یہ ریشمی رومال بہرحال پریکٹیکل نہیں تھا، چونچلے بازی کی حد تک تو ٹھیک تھا، پسینہ اس سے خاک پونچھا جاتا۔

تو وہ فیشن بہرحال زوال پذیر ہوا اور اس کی آخری نشانی “آندا تیرے لئی ریشمی رومال / تے اتے تیرا ناں کڈیا / وے میں بڑیاں ای چاواں نال / آندا تیرے لئی!” جیسے پیارے بولوں والا ایک گانا تھا جو نور جہاں چالیس پینتالیس سال پہلے گا کے امر کر گئیں۔ ویسے ابھی پڑھتے پڑھتے یہ گانا آپ نے لے میں نہیں پڑھا؟ بس یہی کمال تھا۔ خدا بخشے کیا سٌن ہیرو ہوتے تھے اس زمانے کے، پورے گانے میں ایک رومال نہیں چھین سکے خاتون سے، وہ لہرا رہی ہیں، منہ کے آگے سے جٌھلا کے نکل جاتی ہیں، ادھر ڈوبتی ہیں، ادھر نکلتی ہیں یہ مکمل سکون میں ہیں، مجال ہے جو ہل جائیں۔ تو وہ رومال ختم ہوا اور ہاتھوں میں ٹشو آ گئے۔

اب کچن میں صافیوں کی جگہ ٹشو ہوتا ہے، باتھ روم میں تولیے کی جگہ ٹشو ہے، کھانے کی میز پر ٹشو ہے، زکام والے کے ہاتھ میں ٹشو ہے، ایک ڈبہ گاڑی میں ہے، ایک بیڈ روم میں ہے، ایک بیٹھک میں ہے، پورا گھر ٹشو سے بھرا ہے، تو یہ کہاں سے آتا ہے؟ یہ ان خرچوں میں ہے جو غیر محسوس طریقے سے اکٹھے ہو کر جیب پہ بھاری ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح بچوں کے پیمپرز کا تصور رومال والے دور میں دور دور تک نہیں تھا، آج بچے خیر سے آتے بعد میں ہیں پیمپر پہلے تیار ہوتے ہیں۔ کپڑے کے چوکور ٹکڑے ہوتے تھے، انہیں دو کونے ملا کر تکون کیا جاتا تھا، بچے کو باندھ دیا، جو بھی ہوا اسے دھویا شام تک پھر تیار، یقین کیجیے صحت کا کوئی مسئلہ کم از کم سوتی کپڑے کے نیپکینز سے نہیں ہوتا تھا، اردو میں یہ پوتڑے کہلاتے تھے۔ تو آج کل کا ہر بچہ دودھ کے ڈبوں اور پیمپرز کی مد میں جتنا خرچ کرواتا ہے ماشااللہ پوری قوم کے یہاں پوتڑوں کے رئیس پیدا ہوتے ہیں۔ ٹشو اور پیمپرز کا فائدہ اپنی جگہ لیکن ان کا بہت زیادہ عادی ہو جانا ہی “برکت” کو ڈسپوزیبل بنا دیتا ہے۔

خبر ملی ہے کہ پاکستان میں بہت سے علاقوں کا پانی سنکھیا سے آلودہ ہے۔ کبھی سنا تھا کہ پانی بھی بکے گا؟ گاؤں دیہاتوں میں گھر کے جانوروں کا دودھ جب ضرورت سے زیادہ ہوتا تھا تو آس پاس بانٹ دیا جاتا تھا، وضع دار لوگ دودھ کا دھندا کبھی نہیں کرتے تھے، گھر کے جانور کا دودھ قیمتاً بیچنا بہت معیوب سمجھا جاتا تھا۔ وقت بہرحال بدلتا ہے، زمانے کی ڈائنامکس ایسی ہیں کہ اب ہر چیز کمرشل ہے اور دودھ سرفہرست ہے۔ یہاں تک بات رہتی تو عین مناسب تھا لیکن پانی بکے گا؟ اب تو پانی کی بکری ایسی چلی ہے کہ جسے کچھ سمجھ نہیں آتی وہ پانی کا “پلانٹ” لگا لیتا ہے اور الحمدللہ اس کا پانی بکتا بھی ہے۔ کراچی میں بات سمجھ آتی ہے کہ پانی کھارا ہے، پیا نہیں جا سکتا لیکن پورے پنجاب اور سرحد میں بھی اتنا ہی پانی بکے جتنا سندھ میں بکتا ہے تو یہ کیسے ہوا؟ یہ ایسے ہوا کہ آپ کو بتلایا گیا کہ بھیا گھر کا پانی پئیو گے تو بھی فوت ہو جاؤ گے۔ اس میں جراثیم ہوتے ہیں، اس میں مٹی ہوتی ہے، بیکٹیریا ہوتے ہیں۔ اللہ غنی! دو سو روپے والا ایک فلٹر لگا لیجیے، مہینے بعد دھو کر دوبارہ لگا لیں سب چیزیں صاف ہو جائیں گی۔ یہ جو بوتل منہ سے لگتی ہے، دکان کے جس فریزر میں یہ پڑی تھی اسے کس نے کب صاف کیا تھا؟ جس ٹرک میں یہ پہنچی اس پر سڑک سے دھول مٹی بالکل نہیں آئی؟ پلانٹ کو آپ نے کتنی مرتبہ جا کے دیکھا کہ وہاں صفائی کی پوزیشن کیا ہے؟ پانی کی بوتل کا پلاسٹک کس گریڈ کا ہے؟ کیا وہ کھانے پینے کے برتنوں والا ہے یا ہسپتال کی ڈرپس پگھلا کر بوتلیں بنی ہیں؟ یعنی گھر کے پانی پر اعتبار نہیں ہے اور ہر روز انیس بیس لیٹر کے ڈرم یا ڈیڑھ لیٹر کی بوتلیں ایک کے بعد ایک چلی آ رہی ہیں، کیا خرید رہے ہیں، پانی؟

گھاٹ گھاٹ کا پانی پینا صرف محاورہ نہیں تھا اس میں بھی ایک حکمت تھی۔ آپ گلی محلے گاؤں شہر کہیں بھی نکلتے تھے بے دھڑک پانی پیتے تھے، تھوڑے بہت جراثیم جاتے بھی تھے تو امیون سسٹم انہیں پہچان کر مدافعتی لسٹ میں شامل کر لیتا تھا۔ جسم کو باہر کے جراثیم کی پہچان زیادہ ہوتی تھی، کہیں بھی جا کر کھانا پینا آسان ہوتا تھا، معدہ سب کچھ قبول کرتا تھا۔ اب کیا ہے کہ جو بوتل کا پانی پئیے گا وہ ریڑھی سے کھانا بھی نہیں کھا سکتا، وہ تنور کنارے بیٹھ کے گرم روٹی اور سالن بھی نہیں کھائے گا، وہ غریب عام پانی سے دھلی سلاد بھی نہیں کھا سکتا، ٹیکنیکلی ہر بازاری چیز اس کے لیے حرام ہے۔ وجہ سادہ ہے، جسم کے مدافعتی نظام کو گنتی کے چند جراثیم کی پہچان ہے باقی چھٹی۔ ویسے اگر یہاں کے بوتل بند پانی اتنے ہی اچھے ہوتے تو ہر ولایت پلٹ کا پیٹ نہ خراب ہوتا۔ سب مایا ہے بابا، سب چھل کپٹ ہے!

تو یہ جو سنکھیا وغیرہ ہے، یہ آپ کے بچپن میں بھی ہوتا تھا، جب نلکا چلا کر یا ٹونٹیوں سے ڈائریکٹ منہ لگا کر پیاس بجھائی جاتی تھی۔ اس وقت تو نلکے کے اندر جمی کائی بھی نظر آتی تھی، لیکن خدا اب تک چلا رہا ہے تو اب بھی کچھ نہیں ہونے والا۔ اس وقت کے مشہور اخباروں میں بھی ہر دوسرے مہینے یہی سنکھیے کا شور مچتا تھا لیکن لوگوں کی توجہ اس کاروبار کی طرف نہیں گئی تھی تو دیسی طریقوں سے پانی فلٹر کر لیتے تھے۔ جسے بہت مسئلہ ہوتا وہ کسی اور علاقے سے پانی بھر لاتا تھا۔ اب تو بہت سے علاقوں میں واٹر فلٹریشن پلانٹ موجود ہیں، اعلی سے اعلی فلٹر آ گئے ہیں، ایک بار لگایا اور بے فکر ہو گئے۔ پانی کی بوتلیں، ٹشو، ڈسپوزیبل اشیا، پیکٹ بند دودھ دہی، فروزن کھانے یہ سب چیزیں غیر محسوس طریقے سے بجٹ آؤٹ کرتی ہیں۔ ابھی اس میں انٹرنیٹ کا اندھا خرچہ شامل نہیں ہے، ہر دوسرے دن پڑنے والا فون کارڈ کون لسٹ میں ڈالے گا؟ تو بس یہی ہے، تھوڑا کنٹرول ہو جائے تو آہستہ آہستہ ہتھیلی کا سوراخ چھوٹا محسوس ہونے لگے گا۔ ہمت کیجیے، کم از کم پانی تو بندہ خرید کر نہ پئیے یا تھوڑا کم ہی کر لے۔ باقی پھر مولا برکتیں دے گا، رنگ لگائے گا!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain