اعزاز کے ساتھ تدفین کا غیرضروری اعلان


ڈاکٹر روتھ فائو نے مجھے ایک بار پھر حیران کر دیا۔

یہ پہلی بار نہیں تھی۔ ان کی وجہ سے میں کئی بار حیران ہوا۔

بات یہ ہے کہ کوڑھی اب تو مشکل سے نظر آتے ہیں۔ جب میں چھوٹا تھا تو سڑکوں پر بھیک مانگتے ہوئے نظر آتے تھے اور باقی لوگ ان کو دیکھ کر نفرت سے مُنھ پھیر لیا کرتے تھے۔ بچپن میں وہ مشہور فلم ’’بین حر‘‘ دیکھی تھی (ایک بار سے زیادہ!) اور اس خوف ناک بیماری کے بارے میں پتہ چلا تھا کہ لوگ اس طرح گھن کھاتے ہیں جیسے یہ آسمان سے آنے والا خدائی عذاب ہو۔ پھر فلم کے ایک ناقابل فراموش منظر میں خداوندی رحم و نور کی بارش کے اثر سے کوڑھ کے آثار ختم ہو جاتے ہیں کیونکہ مسیحا کوڑھیوں کی بستی میں آ گیا ہے۔

معجزے چاہے فلم کے کیوں نہ ہوں، دیکھنے میں زیادہ اچھے لگتے ہیں مگر مجھے ان پر اعتبار کم آتا ہے۔ ایسے ہی کسی وقت میں اس سفید فام خاتون ڈاکٹر کے بارے میں سنا تھا جو ان کوڑھیوں سے گھن نہیں کھاتی۔ ان کا علاج کرتی ہیں۔

باقی لوگ کوڑھ کے مریضوں سے کس قدر گھن کھاتے ہیں، یہ بھی انھوں نے خود ہی بتایا تھا۔ کراچی کے ایک علاقے میں کسی مخیّر شخص نے ایک مکان عطیے کے طور پر دے دیا کہ مریضوں کی بحالی کے لیے کلینک بنائیں اور ان کے کھانے پینے، رہنے سہنے کا بندوبست کریں۔ علاقے کے مکینوں نے سُنا تو آگ بگولہ ہوگئے۔ یہ کوڑھی تو ہمیں بیمار کر ڈالیں گے، انھوں نے اس مکان کے باہر احتجاج شروع کر دیا۔ پھر جلد ہی پتھرائو اور توڑ پھوڑ پر آ گئے۔ چند سہمے ہوئے کوڑھی مکان کے اندر چھپے بیٹھے رہے۔ ڈاکٹر روتھ فائو کو خبر ہوئی تو ان کو وہاں سے لے گئیں۔ کسی اور جگہ ان کی رہائش کا بندوبست کردیا۔

میڈیکل کالج کے پہلے یا دوسرے سال میں پڑھتا تھا۔ میں نے یہ واقعہ سن کر کالج میگزین کے لیے ایک جذباتی سا افسانہ لکھ مارا۔

جذباتی تاثر اپنی جگہ مگر ان کے کام کی سمجھ بعد میں آئی جب تفصیل کے ساتھ ان کا لیپروسی سنٹر دیکھا، ان سے بات چیت اور ان کی ٹیم کے ساتھ ملاقات کا موقع ملا۔ مجھے یاد ہے وہ آرام سے بیٹھی بات کررہی تھیں اور ان کے اردگرد کتنے کوڑھی تھے۔ ایک وہ بوڑھی عورت جس کی ناک گل سڑ کر گر چکی تھی اور ناک کے بغیر اس کا چہرہ ایسا تاثر دیتا تھا جس کو الفاظ میں بیان کرنا میرے لیے آج بھی ممکن نہیں۔ وہ آدمی جس کے چہرے کے اعصاب اس طرح تنے ہوئے تھے جیسے طنز کے ساتھ دانت نکال رہا ہو۔ وہ شخص جس کے ہاتھ کام نہیں کرتے تھے تو پائوں کی انگلیوں میں روٹی پھنسا کر نوالہ کھاتا تھا۔

ان سب کے درمیان ڈاکٹر روتھ فائو اس طرح بیٹھی ہوئی تھیں جیسے یہ سب معمول کے مطابق ہو۔ ان کے اطمینان اور ان لوگوں کی بیماری، معذوری کے لیے ااپنائیت نے مجھے حیران کردیا۔

ان کے معمولات اور ٹیم کے حالات کے بارے میں جب بھی سنتا ہر بار نئے سرے سے حیرت ہوتی۔ صدر میں ریگل کے قریب اسپتال کی عمارت میں حیرت کے کتنے اسباب تھے۔ ان کی ٹیم کے ایک ڈاکٹر صاحب کچھ عرصے میرے شعبے میں کام کرتے رہے۔ ان کی زبانی کتنی تفصیلات معلوم ہوئیں۔ بیماری کوئی بھی ہو، ایسے مریضوں کے ساتھ کام کرنا ایک بات ہے لیکن کسی جگہ کے انتظام کو دیکھنا بھالنا، چلانا اور طرح کا کام ہے۔ اس کے لیے بہت صبروتحمل کی ضرورت ہوتی ہے۔ حد سے زیادہ یقین کی اور اپنی بات پر قائم رہنے کی ضرورت۔ مریضوں کے ساتھ ہم دردی اور شفقت کا برتائو وہ کرتی تھیں مگر اپنے نجی اسپتال کے معاملات کی دیکھ بھال عقابی نظروں سے کرتی تھیں۔ یہ معاملات بہت سے لوگوں کو معلوم بھی نہیں ہوتے تھے۔

میرے وہ دوست کچھ عرصے کے بعد ڈاکٹر روتھ کے اسپتال میں کام کرنے کے لیے دوبارہ وہاں چلے گئے۔ مجھے اندازہ ہوگیا کہ وہ اپنے ساتھ کام کرنے والوں میں اپنی لگن اور احساس ذمہ داری بھی اجاگر کر دیتی ہیں اور یہ وابستگی دیر تک باقی رہتی ہے۔

مگر اس بات پر میں حیران نہیں ہوا۔ وہ اس وجہ سے کہ اس شہر ناپرساں میں دو ایک شخصیات کو دیکھنے کا اتفاق ہوا جو اپنے ساتھ کام کرنے والوں میں اسی قسم کا شدید تعلق پیدا کردیتے تھے جو زندگی سے بالاتر عقیدہ بن جاتا۔ اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کے اختر حمید خاں۔ آغا خان یونیورسٹی میں ڈاکٹر برائنٹ۔ کراچی کے نگراں فرشتے عبدالستار ایدھی۔ ایسے ہی گنے چُنے لوگوں میں میرے لیے ڈاکٹر روتھ فائو کا نام بھی شامل ہو گیا۔

اس کے بعد وہ مجھے حیران کر دینے کے لیے ایک بار پھر سامنے آگئیں۔ آغا خان یونیورسٹی سے رخصت ہونے کے بعد میں بچوں کے حقوق کے عالمی ادارے میں کام کررہا تھا کہ ان کا پیغام ملا۔ منگھوپیر کے علاقے میں ان کے کلینک کے لیے حفاظتی ٹیکوں کے لیے ایک فریج چاہئے۔ ہمارا ادارہ حفاظتی ٹیکوں کے سرکاری پروگرام کو اس طرح کا ساز وسامان فراہم کرتا تھا۔ میں نے اس علاقے کے ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسر سے کہہ دیا کہ جو کہہ رہی ہیں، ان کی بات پوری کردو۔ سرکاری ڈاکٹر صاحب کہا ں کسی کی بات سُنتے۔ تھوڑے دن کے بعد ڈاکٹر روتھ فائو کا میرے نام خط آیا۔ باقاعدگی سے ٹائپ کیا ہوا اور اس پر دستخط۔ مگر خط کے بعد وہ خود میرے دفتر پہنچ گئیں۔ ان کی جگہ کوئی اور ہوتا تو مجھے طلب کرتا۔ ان کو معلوم تھا کہ ان کا نام سن کر میں فوراً چلا آئوں گا۔ اس لیے وہ خود آگئیں۔ میرا کمرہ پہلی منزل پر تھا، تمام تر مشکلات کے باوجود وہ سیڑھیاں چڑھنے کے لیے تیار۔ جس کام کے لیے آئی تھیں، وہ کام کروا لیا تو ہاتھ ہلا کر اسی طرح واپس جیسے کوئی بات نہیں۔

کوڑھ میں مبتلا افراد کا علاج کرتے کرتے انھوں نے اس مرض کے انسداد کا پروگرام بنایا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ بیماری پاکستان سے اس طرح غائب ہوگئی جیسے بن حر والی فلم میں کوڑھیوں کے چہرے سے داغ۔ صحت عامہ کے مختلف شعبوں میں پاکستان کی کارکردگی عموماً حوصلہ افزا نہیں رہی۔ لیکن یہاں پوری کامیابی حاصل ہوئی۔ یہ کامیابی ان کے بغیر ممکن نہیں تھی۔

ان کی اس کارکردگی کا عقیدت کی حد تک قائل ہونے اور ان کا بے حد احترام کرنے کے باوجود میں ان کے جنازے میں نہیں گیا۔ اگر جانے کا ارادہ بھی کر لیتا تو جاتا کیسے؟ وہاں غضب کی سیکیورٹی تھی۔ ڈاکٹر روتھ فائو کے جسدِ خاکی کے لیے نہیں۔ ان وردی پوشوں کے لیے جنہوں نے جنازے کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔

عبدالستار ایدھی کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔ ان کا جنازہ ایک فوجی تقریب بن گیا۔ میرے اور ڈاکٹر روتھ فائو کے درمیان اُنیس توپوں کی سلامی آ گئی۔

ٹیلی وژن کی چھوٹی سی اسکرین پرزندگی کے حجم سے بڑی اس عورت کے آخری سفر کی تفصیلات دیکھتا رہا۔ چلیے بہت اچھا ہوا اس موقع پر اتنے سرکاری حکام شریک ہوئے۔ ان میں سے کوئی بھی کبھی ڈاکٹر صاحبہ کی زندگی میں ان کے اسپتال کیوں نہیں آیا۔ میری طرح وہ بھی دیکھتے کہ روز روز ان معاملات سے نمٹنا کس قدر صبر آزما کام ہے۔ فرشتہ ہونے سے زیادہ محنت انسان ہونے میں لگتی ہے۔

سینٹ پیٹرکس کی پُر شکوہ کلیسا سے میں ان کے جنازے کو اس قبرستان کی طرف جاتے ہوئے دیکھتا رہا جسے کراچی کے اکثر لوگ گورا قبرستان کہتے ہیں۔ حالاںکہ یہ نام کراچی میں بعض دوسری جگہوں کو بھی دیا جاسکتا ہے۔ اگر آپ ان کو بھی قبرستان سجھیں۔

بہرحال میں اس بار پھر حیران رہ گیا جب میں نے سنا کہ سندھ حکومت کے ایک اہل کار نے سول اسپتال کا نام بدل کر ڈاکٹر روتھ فائو کے نام پر رکھ دیا۔ یہ کیا بات ہوئی؟ پرائی دکان پر نانا جی کی فاتحہ۔ آپ کو نام رکھنے کی ایسی فکر تھی تو کسی نئے ادارے کی بنیاد ڈالتے، اس مرض کے لیے کوئی نیا مرکز بناتے۔ یہ بھی نہیں تو کسی پرانے اسپتال میں نیا شعبہ کھول دیتے۔ ان میں کچھ ہوا نہیں، بنے بنائے اسپتال پر سے نام کی تختی اتار کر نئی تختی لگوا دی۔ اور خود ہی واہ واہ بھی کرلی۔ جاتے جاتے ڈاکٹر روتھ فائو کے نام کو بھی استعمال کر لیا۔

انگریزوں کے دور میں قائم ہونے والا یہ اسپتال آج بھی مریضوں کی تعداد کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے سرکاری اسپتالوں میں سے ایک ہے۔ پھر میری مادر علمی بھی ہے۔ وہاں جانا ہوتا رہتا ہے۔ اگلی بار جائوں گا تو باہر ڈاکٹر روتھ فائو کے نام کی تختی لگی دیکھ کر میں حیران نہیں ہوں گا۔

ڈاکٹر روتھ فائو اس سے زیادہ اعزاز کی مستحق تھیں۔ اگر عالمِ بالا سے کچھ دیر کے لیے وہ یہاں آئیں تو اس عمارت پر اپنے نام کی تختی لگی دیکھ کر حیران ضرور ہوں گی۔

اب حیران ہونے کی ان کی باری ہے۔

بعض لوگوں نے ڈاکٹر روتھ فائو کو پاکستان کی مدر ٹریزا کہنا شروع کر دیا ہے۔ میرے خیال میں یہ بہت غیرضروری ہے۔ وہ پاکستان کی ڈاکٹر روتھ فائو ہیں اور اتنی بات کافی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).