مہر ستار اور نواز شریف


آج کل نواز شریف کو گالیاں، طعنے اور مشورے دینے کا ماحول ہے، اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شہر اوکاڑہ کے ایک مقامی لیڈر کے عبرتناک انجام کو یاد کرتے ہیں اور سبق سیکھتے ہیں جب ہمارے ادارے (اور آج کل اداروں سے مراد صرف فوج اور عدلیہ ہے، باقی ادارے جیسے پولیس، یونیورسٹیاں، پارلیمان ان بس سٹاپوں کی طرح ہیں جہاں بس روکنا یا نہ روکنا ڈرائیور کی مرضی ہے) ایک صفحے پر آ جائیں تو محمود و ایاز تو کیا اوکاڑہ کے مزارعین کا رہنما مہر ستار اور ملک کا وزیراعظم نواز شریف سب ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔

مہر ستار اوکاڑہ کے نواحی گاؤں میں مزارعے کا بیٹا جس کے باپ دادا ایک سو برس سے پنجاب حکومت کے مزارعے، اوکاڑہ چھاؤنی کے ہمسائے میں زرخیز زمین، یہ سب مزارعے دو سے دس ایکڑ تک کے کاشتکار لیکن محنتی اتنے اور زمین اتنی اچھی کہ دو ایکڑ والا بھی بچے کو یونیورسٹی میں پڑھا سکے جیسا کہ مہر ستار کے باپ نے اسے پڑھایا۔ زرعی یونیورسٹی سے نیا نیا ایم اے کر کے واپس گھر لوٹا تو چھاؤنی کے بڑوں نے مزارعوں سے زمین چھڑوانے کا منصوبہ بنایا اور پہلے مرحلے میں کہا گیا کہ ان زمینوں کا ٹھیکہ دینا پڑے گا۔

یہی اعلانات پنجاب کے دوسرے ملٹری فارمز میں بھی کیے گئے۔ مہر ستار نے موٹرسائیکل دوڑا دوڑا کر مزارعوں کے نمائندوں کو اکٹھا کیا، انجمن مزارعین پاکستان کو متحرک کیا اور تحریک کو نعرہ دیا، یا مالکی یا موت۔ کہا کہ ہم سو سال سے یہ زمین کاشت کر رہے ہیں، ہمیں مالکانہ حقوق دو ورنہ ہم یہ زمین چھوڑیں گے نہ گھر چھوڑیں اور نہ ٹھیکہ دیں گے۔

وسطی پنجاب کے لیے مالکی یا موت کا نعرہ کچھ زیادہ ہی انقلابی تھا لیکن مزارعین کی مجبوری اور اس مجبوری کی وجہ سے بھڑکے ہوئے جذبات کا اندازہ اس وقت ہوا جب ایک میلی دھوتی اور صافے میں ملبوس 85 سالہ مزارعے نے بتایا کہ کہ وہ جب بچہ تھا تو یہ زمین جنگل تھی اور اس نے اپنے باپ دادا کے ساتھ مل کر اپنے ہاتھوں سے اسے قابلِ کاشت بنایا تھا۔ اب ایک میجر ریٹائر ہوتا ہے تو اسے پلاٹ مل جاتا ہے اور یہ مجھے میرے کچے گھر سے نکالنا چاہتے ہیں۔

دورانِ گفتگو اس بزرگ نے ہماری مادری زبان میں جتنی گالیاں دیں میں نے اس سے پہلے کسی بزرگ کے منہ سے نہیں سنی تھیں اور گالیاں جس مقدس ادارے کو دی گئیں اس کے نام پر تو پنجاب میں سلام بھیجا جاتا تھا۔

فوج نے مزارعوں کے تیور دیکھے تو پرچے، ناکے، چھاپے شروع ہوگئے۔ کچھ گاؤں مسیحی مزارعوں کے تھے، سو تفرقہ ڈالنے کی کوشش ہوئی۔ تحریک آہستہ آہستہ دوسرے ملٹری فارمز تک بھی پھیل گئی۔

شروع شروع میں لگتا تھا کہ پاک فوج کی طاقت کے سامنے مزارعے کب تک کھڑے رہیں گے۔ تنازعے کے شروع میں ایک مقامی سیانے نے پیش گوئی کی کہ یہ مزارعوں کے مطالبات ایسے ہی ہیں جیسے ایک بچہ تھانے کے دروازے پر کھڑا ہو کر پتھراؤ کرے اور پھر انتظار کرے کہ اب کیا ہوتا ہے۔ 50 ہزار فوج تو چھاؤنی میں بیٹھی ہے، باہر سے بندے بلوانے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔
اسی انتظار میں 17 برس گزر گئے۔ مہر ستار ایک دبلے پتلے نوجوان سے ایک فربہ مائل لیڈر بن گیا۔ موٹرسائیکل کی جگہ گاڑی آئی، بلدیاتی الیکشن میں کامیابیاں، اسمبلی کے الیکشن میں ایسا باعزت امیدوار مزارعے جس کے پیچھے تھے، 25 سے 30 ہزار ووٹ نکال لیتا تھا، اس لیے مقامی سیاست میں ڈیل ڈول بنتا گیا۔ باقی سیاستدانوں کی طرح ولیمے اور قلوں کے کھانے کھا کھا کر کافی صحتمند بھی ہوگیا۔

ناکے لگتے رہے، چھاپے بھی پڑتے رہے، مقدمے بھی بنتے گئے لیکن جب بھی مہر ستار کی گرفتاری کی کوشش ہوتی تو سینکڑوں مزارعین، مرد اور عورتیں اکٹھے ہو جاتے۔ اگرچہ قانونی طور پر فوج کا زمین پر کوئی دعویٰ نہیں بنتا لیکن نیت صاف ظاہر تھی۔
پنجاب میں اچھی زمینوں کا کال ہے۔ افسران کی اگلی نسلوں کو دیے جانے والے پلاٹوں اور مربعوں کے لیے یہ زمین بہت ضروری تھی۔ پھر فوج 17 سال کی کوششوں کے باوجود مزارعوں سے قبضہ کیوں نہیں چھڑوا سکی؟

ایک مقامی بزرگ نے سمجھایا کہ بیٹا یہ تمہارا سندھ یا بلوچستان نہیں ہے جہاں فوج ٹینک گھسا دے یا ہیلی کاپٹر سے گولیاں چلا سکے۔ قبضے کے لیے دو، ڈھائی سو بندہ مارنا پڑے گا اور فوج اتنے پنجابی مارنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتی۔
لیکن ادارے اوکاڑہ کے مقامی سیانوں سے زیادہ سیانے نکلے۔ گذشتہ برس انجمن مزارعین نے کسانوں کے عالمی دن کے موقع پر ایک اجتماع کا اعلان کیا۔ مقامی انتظامیہ نے اجازت نہیں دی اور پھر ایک مشترکہ آپریشن جس کی تیاری برسوں سے جاری تھی، کر کے مہر ستار اور اس کے ساتھیوں کو گرفتار کر لیا گیا۔

اب مزارعے کے بیٹے کو اس کی اوقات یاد دلوانے کا وقت تھا۔ چہرے پر نقاب، ہاتھوں میں ہتھکڑیاں، 35 سے زیادہ مقدمے اور اداروں نے ہمیں بتایا کہ اس مزارعے کی اولاد کے القاعدہ سے تعلقات تھے، یہ را کا ایجنٹ تھا، فوجی تنصیبات پر حملے کرتا رہا۔ اس بندی کا ٹھکانہ کوئی عام جیل نہیں بلکہ ساہیوال کی وہ ہائی سکیورٹی جیل تھی جس میں ملک کے سب سے خطرناک دہشت گردوں کو رکھا جاتا ہے۔

پنجاب کے کسی محبِ وطن جج کی کیا مجال جو اس شخص کی ضمانت لے سکے یا یہ کہہ سکے کہ اس کی بیڑیاں اتار دو۔ گذشتہ برس اوکاڑہ کی ایک گلی میں ایک مزارعے نے مجھے روکا اور ادھر اُدھر دیکھ کر بولا کہ آپ کو ایک چیز دکھانی ہے۔ پھر اس نے مجھے اپنے موبائل فون پر مہر ستار کی تصویر دکھائی تو میں بالکل نہیں پہچان سکا۔ ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ جس کے چہرے سے کچھ لمحوں کے لیے نقاب ہٹایا گیا تھا۔ پچکے ہوئے گال، ایسی تصویر جس پر یہ کیپشن لگانے کی بھی ضرورت نہیں کہ دیکھو چھاؤنی کے دروازے پر بیٹھ کر اپنا حق مانگنے والوں کا یہ حشر کیا جائے گا۔

میں نے مزارعے سے کہا، بیٹا دعا کرو اور قانونی جنگ لڑو، خدا خیر کرے گا۔

قانونی جنگ اس ہفتے سپریم کورٹ میں پہنچی۔ ادارے کے سب سے بڑے جج نے حکم صادر فرمایا کہ مہر ستار کی بیڑیاں اتاری جائیں۔ ضمانت تو ابھی کوئی مانگ بھی نہیں رہا، عام جیل میں منتقلی اور خاندان سے ملاقات کی اجازت کے لیے قانونی جنگ جاری ہے۔
عدالتی سماعت کے دوران دوسرے جج صاحب نے فرمایا کہ کیس کی فائل دیکھ کر تو لگتا ہے کہ یہ بندہ سوشلسٹ ہے۔ مجھے عدالتِ عظمیٰ کے حسِ مزاح پر ہنسی بھی آئی کہ مہر ستار پر فوج پر الزام لگا چکی ہے مگر سوشلسٹ انھوں نے بھی نہیں کہا۔
اس کہانی سے اگر کوئی سبق سیکھا جا سکتا ہے تو وہ یہ کہ مہر ستار اپنے اور دیگر مزارعین کے گھر اور رقبے بچانے کے لیے نکلا تھا، دہشت گرد قرار دے دیا گیا۔ نواز شریف تو ملک بچانے کے لیے نکلا تھا، پہلے ہی اتنی جائیدادیں موجود تھیں آخر میں لندن کے فلیٹس کی محبت میں مارا گیا۔

اداروں سے جو بھی ٹکرائے گا، پاش پاش ہو جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).