افغان مونا لیزا، امریکی ڈاونچی اور پاکستانی اسٹوڈیو


رشید سے بہت عرصے کے بعد اتفاقیہ ملاقات ہوئی۔ میں کسی کام سے بازار گیا تھا۔ ایک دکان سے نکلا تو وہ باہر کھڑا تھا۔ ہم دونوں گرم جوشی سے ملے۔ اس نے پوچھا کہ میں آج کل کیا کررہا ہوں۔ میں نے تفصیل سے بیان کیا۔ اپنی ہی باتیں کرتا رہا۔ یہ پوچھنا بھول گیا کہ وہ آج کل کیا کررہا ہے۔

رشید سے پہلی ملاقات 1986 میں ہوئی تھی۔ وہ کریم آباد پر پرانی کتابوں کا ٹھیلا لگاتا تھا۔ میں ساتویں کا طالب علم تھا لیکن کتابیں پڑھنے اور جمع کرنے کا جنون اس وقت بھی تھا۔ انھیں دنوں سے نئی اور پرانی کتابوں کی دکانوں کے پھیرے لگارہا ہوں۔

کراچی کے علاقے کریم آباد پر پرانی کتابوں کے کئی ٹھیلے ہوتے تھے۔ لیکن رشید کی خاص بات یہ تھی کہ اسے اچھی کتابوں کی پہچان تھی۔ اچھے گاہکوں کی بھی۔ میرے لیے کتابیں سنبھال کر رکھتا تھا۔ جھوٹ نہیں بولوں گا، میرے ذوق کی تشکیل میں اس کا بھی کردار ہے۔

ایک دن کتابیں الٹتے پلٹتے میں نے نیشنل جیوگرافک میگزین کے کئی پرانے شمارے خرید لیے۔ یہ 86 یا 87 کا ذکر ہے۔ گھر آکر ان کے ورق الٹتا رہا۔ پھر کہیں سنبھال کر رکھ دیے۔ میں عام طور پر کتابیں سامنے کے شیلف میں رکھتا ہوں۔ اخبار اور رسالے ڈبوں میں بند ہوجاتے ہیں۔ وہ ڈبے کبھی تخت کے نیچے اور کبھی دوچھتی پر رکھوادیے جاتے ہیں۔ برسوں کوئی ان کی خبر نہیں لیتا۔

میں نیشنل جیوگرافک کے میگزین جمع نہیں کرتا۔ اس کے بجائے اس ادارے کی منتخب کتابیں خریدتا ہوں۔ لیکن کوئی خاص شمارہ اچھا لگے یا اس کا کوئی مضمون پسند آئے تو اسے ضرور رکھ لیتا ہوں۔ اپریل 2002 میں اس میگزین میں ایک دلچسپ کہانی چھپی تھی۔ میں نے اس رسالے کو بھی سنبھال رکھا ہے۔

نیشنل جیوگرافک سوسائٹی کی خاص بات یہ ہے کہ دنیا کے بہت سے بڑے فوٹوگرافر اس کے لیے کام کرتے ہیں یا کرچکے ہیں۔ میں نے کسی موقع پر ایرانی فوٹوگرافر رضا دقتی کا ذکر کیا تھا۔ ان سے لاہور میں ملاقات ہوئی اور انھوں نے اپنا تعارفی کارڈ دیا تو پتا چلا کہ وہ بھی اس ادارے کے ملازم ہیں۔ میں نیشنل جیوگرافک کی جو کتابیں خریدتا رہتا ہوں، وہ بڑے فوٹوگرافروں کے شاہکاروں کا مجموعہ ہوتی ہیں۔ ایک باکمال فوٹوگرافر کا نام اسٹیو میک کری ہے۔

دنیا میں کسی بھی شخص کا سب سے زیادہ پہچانا جانے والا فوٹو ایک افغان لڑکی کا ہے، جو 6 جون 1985 کو نیشنل جیوگرافک میگزین کے سرورق پر شائع کیا گیا تھا۔ وہ تصویر اسٹیو میک کری نے پشاور کے ناصر باغ مہاجر کیمپ میں 1984 میں اتاری تھی۔ مجھے یہ بات 2002 تک معلوم نہیں تھی۔ اپریل 2002 کے نیشنل جیوگرافک میگزین نے اس بارے میں دلچسپ کہانی شائع کی تو میں اچھل پڑا۔

کیا اب یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ رشید کے ٹھیلے سے میں نے جو رسالے خریدے تھے، ان میں یادگار سرورق والا میگزین بھی شامل تھا۔

رشید سے کل ملاقات کے بعد میں نے گھر آکر دوچھتی پر رکھے ڈبے کھولے اور وہ دونوں رسالے ڈھونڈ نکالے۔ میں یہ جان کر حیران رہ گیا کہ جون 1985 والے میگزین میں افغان لڑکی کا نام ہے نہ کہانی، صرف ایک تصویر ہے جو سرورق پر شائع ہوئی۔ اس سرورق پر لکھا ہے، سہمی ہوئی آنکھیں افغان پناہ گزیں کے خوف بیان کرتے ہوئے! اندرونی صفحات پر صحافی ڈیبرا ڈینکر کی 26 صفحات کی رپورٹ میں اس لڑکی کی سرورق والی یا کوئی دوسری تصویر تک نہیں۔

17 سال تک کوئی اس لڑکی کا نام نہیں جانتا تھا۔ اسٹیو میک کری بھی نہیں۔ 1984 میں انھوں نے بے شمار افغان پناہ گزینوں کے فوٹو کھینچے تھے۔ وہ بھلا سب کے نام اور پتے کیسے جان سکتے تھے۔ انھیں بس اتنا یاد ہے کہ سبز آنکھوں والی لڑکی پناہ گزیں کیمپ کے عارضی اسکول والے شامیانے میں دکھائی  دی تھی۔ وہ بہت شرمیلی تھی اس لیے انھوں نے سب سے آخر میں اس کا فوٹو اتارا۔ اس سے پہلے کسی نے اس لڑکی کی تصویر نہیں بنائی تھی۔

2002 میں نیشنل جیوگرافک ٹیلی وژن کے پروگرام ایکسپلورر کی ٹیم نے اسٹیو میک کری سے رابطہ کیا اور انھیں افغان مونا لیزا کی تلاش پر راضی کیا۔ ظاہر ہے کہ وہ ٹیم سب سے پہلے ناصر باغ کیمپ پہنچی۔ وہاں اس وقت موجود پناہ گزینوں کو لڑکی کی تصویر دکھائی گئی۔ کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ انھیں اصلی خاتون تک پہنچنے سے پہلے کئی دوسری خواتین سے ملوایا گیا۔ بارہ تیرہ سال کی لڑکی کو سترہ سال بعد دیکھ کر پہچاننا مشکل کام ہے۔ لیکن اسٹیو میک کری اس وقت تک امیدواروں کو مسترد کرتے رہے جب تک کہ اصلی لڑکی نہیں مل گئی۔

اس لڑکی کا نام، جیسا کہ اب سب جانتے ہیں، شربت گل ہے۔ وہ 2002 میں ناصر باغ کیمپ میں نہیں تھی، افغانستان کے علاقے تورابورا منقتل ہوچکی تھی۔ ہرکارے دوڑائے گئے اور وہ تین دن کا سفر کرکے اس فوٹوگرافر سے ملنے پہنچی، جس نے اسے پوری دنیا میں مشہور کردیا تھا۔

سب سے دل چسپ بات یہ ہے کہ ان 17 برسوں میں کسی نے شربت گل کی تصویر نہیں بنائی۔

اسٹیو میک کری نے 1984 میں شربت گل کی کم از کم ایک تصویر اور اتاری تھی۔ منہ چھپاتی ہوئی لڑکی کی وہ تصویر، اور 2002 میں کھینچی گئی مزید تصاویر انھوں نے بعد میں اپنی کتاب ’’ان ٹولڈ، اسٹوریز بی ہائنڈ دی فوٹوگرافس‘‘ میں شامل کیں۔ اتفاق سے یہ کتاب بھی میری ذاتی لائبریری میں موجود ہے۔

اس کتاب میں اسٹیو میک کری نے وہ حیران کن واقعہ بھی لکھا ہے کہ تبت کے دورے کے بعد وہ تیس گھنٹے کا تھکا دینے والا سفر کرکے اپنے گھر نیویارک پہنچے اور ان کی نیند پوری ہونے سے  پہلے دو طیارے ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے ٹکرا گئے۔ پورا شہر ان عمارتوں سے دور بھاگا اور اسٹیو میک گری مخالف سمت میں دوڑے۔ پولیس نے انھیں بار بار روکا اور وہ چکمہ دے کر آگے بڑھتے رہے۔ انھوں نے جو یادگار تصاویر بنائیں، وہ پوری دنیا کے اخبارات اور رسالوں میں چھپیں۔ بلکہ فوٹوگرافروں کی عالمی تنظیم میگنم نے نائن الیون پر جو کتاب چھاپی، اس کے ٹائٹل پر اسٹیو میک کری کی کھینچی ہوئی تصویر تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ کوئی اور فوٹوگرافر ان کی طرح جذباتی لیکن تخلیقی تصاویر نہیں کھینچ سکا تھا۔

میں اس بڑے فوٹوگرافر کا ذکر کرتے ہوئے کہیں کا کہیں نکل گیا۔ بس یہ بتاکر کہانی ختم کرنا چاہتا ہوں کہ کل صبح رشید سے بازار میں ملاقات ہوئی۔ شام کو دوبارہ گیا تو وہ وہیں موجود تھا۔ میں نے کہا، ’’رشید! میں صبح تصویر کھنچوانے آیا تھا تو تم اس دکان کے باہر کھڑے تھے۔ اب فوٹو لینے آیا ہوں تو اندر کھڑے ہو۔ خیریت؟‘‘ رشید نے کہا، ’’مبشر صاحب! یہ میرے بیٹے کا اسٹوڈیو ہے۔ وہ فوٹوگرافر بن گیا ہے۔ صبح آپ کی تصویر اسی نے تو اتاری تھی۔‘‘۔

مبشر علی زیدی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مبشر علی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریر میں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

mubashar-zaidi has 194 posts and counting.See all posts by mubashar-zaidi

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments