چُوسی ہوئی گنڈیریوں کو پھر چُوستے ہیں


بچپن میں گھروں کے باہر ایک آواز سنتے ہوتے تھے”بھانڈے قلعی کرا لو“۔ یہ آواز سنتے ہی گھروں میں موجود نانی، دادی یا اماں پرانے برتن قلعی کرانے کے لیے دے دیتیں، کچھ دیر بعد برتنوں میں نئی چمک دمک آجاتی۔ آپ سوچتے ہوں گے کہ قلعی کرانے کا یہ کام تو اب معدوم ہی ہو گیا ہے۔ جی نہیں آ پ غلط سمجھتے ہیں کیونکہ بھانڈے قلعی کرانے کا کام بے شک پرانا ہو چکا ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ”قلعی کرنے والا“ ہرگز معدوم نہیں ہوا۔ اب صرف بھانڈے ہی قلعی نہیں ہوتے بلکہ ہر چیز حتی کہ منہ اور قلم سے نکلی ہوئی ہر بات تک قلعی ہوتی ہے۔ فرق یہ ہے کہ بھانڈے قلعی کرانے کے لئے پیش کرنے پڑتے تھے جبکہ تحریرکا معاملہ یوں ہے کہ ایک دن آپ کچھ تحریر کریں دوسرے دن وہ تحریر”قلعی “ کی ہوئی فیس بک پر یا کسی مارکیٹ میں کسی کتاب، اخبار یا رسالے کی رونق بڑھاتی نظر آئے گی۔

 زمانے کی سمت بدل گئی، ترجیحات بدل گئیں۔ بدلے تو ہم نا بدلے۔ تاریخ کے صفحات جن بڑے بڑے ادیبوں اور دانشوروں سے بھرے پڑے ہیں تاریخ گواہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس فہرست میں شامل کرنا باعث شرمند گی سمجھتے تھے۔ اورایک زمانہ اب ہے کہ چبائے ہوئے لقموں کو پھر سے چبایا جا رہا ہے اور کلام یا پہلے سے لکھے ہوئے کو توڑ مروڑ کر بڑے فخر سے اپنے اوپر شاعر، ادیب اور دانشوری کا لیبل لگوانا باعث فخر سمجھا جاتا ہے۔ اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان میں ادبی یا تخلیقی کام صرف دس فیصد ہورہا ہے۔ باقی نوے فیصد اسی دس فیصد کا” قلعی “کیا ہوا ہوتا ہے۔ تاریخ کھول کر دیکھیں تو واضح ہوگا کہ ہر نامور، ادیب، شاعر، سائنسدان، آرٹسٹ کے پیچھے برسوں کی محنت اور اساتذہ کا بڑا ہاتھ ہوتا تھا۔ گویا ایک استاد تراش خراش کر ایک بڑا نام سامنے لے کر آتا تھا۔ ارسطو نے افلاطون جیسے استاد کی صحبت پائی تو اس نے سکندر اعظم جیسے شاگرد کو دنیا کے سامنے متعارف کرایا۔ پہلے پہل پی ایچ ڈی کرنا جان جوکھوں کا کام تھا۔ پی ایچ ڈی کرنے والا بیچارہ ملکوں ملکوں قریہ قریہ پھرتا، اپنا ریسرچ ورک مکمل کرنے میں دنیا بھر کی لائبریریوں کو چھان مارتا۔ سالہا سال کتابوں میں سر کھپا کر پی ایچ ڈی کی ڈگری کے پیچھے بوڑھا ہو جاتا تب کہیں جا کر اس کے نام کے ساتھ ڈاکٹر کا لیبل لگتا تھا۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں دنیا جہان کی کتابیں آپ کو انٹرنیٹ پر باآسانی دستیاب ہیں ان کو استعمال کرنے اور کرانے کے بجائے آج کے نام نہاد اساتذہ طالب علموں کے ساتھ ساتھ علم نہیں بلکہ کاروبار کو فروغ دے رہے ہیں۔ ہر جگہ استاد اپنا علم بیچتا ہوا نظر آتا ہے طالب علموں کے اندر کتب بینی، محنت اور لگن کے بجائے نقل اور علم خریدنے کے رجحان کو ترویج دے رہا ہے۔ اس کی واضح مثال ہمیں تعلیمی اداروں میں جا بجا ملتی ہے ڈگری حاصل کرنے کے لیے جو تحقیقی مقالے مطلوب ہوتے ہیں ان کو حاصل کرنے کے لئے طالب علم نے پیسے اور اساتذہ نے مقالے ہاتھ میں پکڑے ہوتے ہیں۔

علمی وادبی ادوار کے لحاظ سے ہم ترقی کرتے کرتے تخلیقی، تقلیدی اور اب نقالی دور میں آچکے ہیں۔ تاریخ لکھی جائے گی تو شاید ہم نقالیوں میں بھی آخری درجے میں جگہ بنا سکیں۔ کیونکہ ہم نقل بھی بہت چھوٹے درجے کی کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمارا مزاج یہ بن چکا ہے کہ کوئی بھی اچھا شعر یا تحریر دل کو بھائی تو فورا ً اس میں ”الف بے‘ کی ردوبدل کر کے پرکشش سا سرورق دے کر اپنے نام کے ساتھ سوشل میڈیا پر ڈال دی یا اسے اپنے حلقہ احباب میں داد کے لیے پیش کر دیا۔ پھر کیا دوسرے دن ہی ہمارا نام مختلف ادبی جریدوں، اخباروں اور کتابوں میں شائع ہونے لگ جائے گا۔

 افسوس صد افسوس کہ ہماری زندگی کے ہر شعبے میں نقل ہی نقل اور نقالوں کی ایک بڑی تعداد ہے۔ ہمارا ہمسایہ ملک ہر فلم ایران، برازیل، برطانیہ، فرانس، امریکہ اور کوریاکی فلموں کی نقل کر کے مارکیٹ میں لاتا ہے اور ہم پھر انہی فلموں کے آئیڈیاز مختلف طریقوں سے استعمال کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں یعنی چوسی ہوئی گنڈیریوں کو پھر چوستے ہیں۔ بڑے بڑے ریالٹی شوز، ٹاک شوز، مارننگ شوز سب دوسروں کی تخلیق اور بنیاد ہے ہم صرف” قلعی“ کرکے نام کمائے جا رہے ہیں۔ لکھاری اور ادیب بننے کی ایک دوڑ بلکہ ایک منڈی سی لگی ہوئی ہے جس میں ہر بندہ اپنا اپنا” نقالی آئیڈیا“ ہاتھ میں لیکر بیٹھا ہے اور اسی زعم میں ہے کہ اس سے بڑا تیس مار خان شاید ہی یہاں کوئی دوسرا ہو۔ جو جتنا بڑا نقال ہوگا اتنے ہی زیادہ اس کے دام ہوں گے۔ آپ کو ایک اینٹ چھوڑ کے دوسری اینٹ نہیں بلکہ ہر اینٹ کے نیچے یہاں نام نہاد شاعر، ادیب اور لکھاری ملیں گے جو دن رات دوسروں کی لکھی ہوئی چیزیں چوری کرکے اپنا نام چمکا رہے ہوتے ہیں۔ انٹر نیٹ اور خاص کر سوشل میڈیا نے تو ان کی ہر مشکل ہی آسان کر دی ہے اور وہ اسی کے ذریعے سستی شہرت حاصل کرنے میں مگن ہیں۔ بیٹھے بیٹھے کسی کی کوئی چیز پڑھی اور” کاپی پیسٹ“ کرکے سینہ چوڑا کر لیا۔ بڑی بڑی کرسیوں اور بڑے بڑے اداروں میں بیٹھ کر بڑے لیول پہ یہ کام کیا جا رہا ہے اور اپنے نام کے ساتھ ساتھ علم وادب کے نام پہ بھی دن رات کالک ملی جا رہی ہے۔ دراصل اس پریشان کن صورت حال کی وجہ ناقص تعلیمی نظام اور معیار ہے۔ ناقص تعلیمی معیار ناقص شاعر، ناقص ادیب، ناقص لکھاری اور ناقص لیڈر ہی جنم دے گا ناکہ نئی سوچ اور نئی تخلیق۔

 ہندوستان میں برطانوی طرز کے تعلیمی نظام کی بنیاد رکھنے والے ” لارڈ میکالے” نے برطانیہ کی پارلیمنٹ سے 2 فروری 1835 عیسوی کے خطاب میں کہا تھا کہ میں نے ہندوستان کے طول و عرض میں سفر کیا ہے۔ مجھے کوئی بھی شخص بھکاری یا چور نظر نہیں آیا۔ اس ملک میں میں نے بہت دولت دیکھی ہے، لوگوں کی اخلاقی اقدار بلند ہیں اور سمجھ بوجھ اتنی اچھی ہے کہ میرے خیال میں ہم اس وقت تک اس ملک کو فتح نہیں کر سکتے جب تک کہ ہم ان کی دینی اور ثقافتی اقدار کو توڑ نہ دیں جو ان کی یڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لیے میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ ہم ان کا قدیم نظام تعلیم اور تہذیب تبدیل کریں اور وہ حقیقتاً ویسی ہی مغلوب قوم بن جائیں گے جیسا کہ ہم انہیں بنانا چاہتے ہیں۔ اس تقریر کے بعد لارڈ میکالے کو ہندوستان کے لیے نظام تعلیم مرتب کرنے کا کام سونپا گیا اوراس نظام کے اثرات آج تک دیکھے جا سکتے ہیں۔

 گو کہ تخلیق کا براہ راست تعلق تعلیم سے نہیں لیکن اچھی اور معیاری تعلیم نہ صرف آپ کی شخصیت کو نکھار دیتی ہے بلکہ آپ کے اندر موجود خداداد تخلیقی صلاحیتوں کو بھی سنوار دیتی ہے۔ تعلیمی نظام کو بہترکر دینے سے مراد ہم نے یہ لی ہے کہ تعلیمی مواد اور نصاب کو بڑھا کر بہت مشکل بنا دیا جائے۔ اسی لیے ہمارے تعلیمی اداروں نے بچے کی ابتدائی تعلیم ”الف بے“ کو ہی اتنا مشکل اور گھما پھرا دیا ہے کہ بیچار ہ طالب علم اسی میں پریشان رہتا ہے کہ میرے قاعدے میں تو الف سے اللہ ہے جبکہ ہمسایوں کے بچے کے قاعدے میں الف سے انار ہوتا ہے۔

جس ملک میں علم وا ادب کے ماہرین ہی نقال ہوں انہوں نے علم کو کیا خاک فروغ دینا ہے۔ علم وادب کا وسیع ذخیرہ، گہرا مطالعہ اور مضبوط مشاہدہ نہ ہونے کے باعث ہمارے ملک میں ان دانشور نقالوں کی دال خوب گلی ہوئی ہے۔ ان کو دیکھنے سننے اور پڑھنے والے بیچارے علم وادب سے درست معنوں میں آشنا ہی نہیں۔ لیکن نقال چاہے جتنا بھی نام چمکا لیں تاریخ بڑی سفاکی سے ان کے نام صفحہ قرطاس سے مٹا دے گی۔ کاش کہ ہم ”قلعی“کرنے والے نہیں بلکہ تخلیق کرنے والے بن جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).