کیا والدین ہمیشہ صحیح فیصلہ کرتے ہیں؟


”دیکھیں جی والدین نے دنیا دیکھی ہوتی ہے وہ برا بھلا خوب سمجھتے ہیں۔ اور سب والدین اپنی اولاد کا بھلا چاہتے ہیں۔ وہ اپنی اولاد کے بارے میں جو فیصلہ کرتے ہیں وہ ٹھیک ہوتا ہے۔ بچے تو ناسمجھ ہوتے ہیں انہیں کیا پتہ کون اچھا ہے کون برا۔ اس لئے بچوں کے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق والدین کا ہی ہوتا ہے“۔

یہ وہ دلیل ہے جو بچوں اور نوجوانوں کے حقوق کے بارے میں گفت و شنید کرتے ہوئے مجھے اکثر سننی پڑتی ہے۔ مگر کیا یہ واقعی سچ ہے؟ پاکستان میں کی جانے والی بہت سی جذباتی باتوں کی طرح یہ بات بادی النظر میں لوگوں کو شاید اتنی غلط نہیں دکھائی دیتی مگر ذرا سا بھی غور و فکر کیا جائے اور حقائق کی کسوٹی پر اس خیال کو پرکھا جائے تو بہت جلد اس ڈھول کا پول کھل جاتا ہے۔
پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں بچوں کی اور کم عمریوں کی شادی کی شرح خطرناک حد تک زیادہ ہے۔ ان کم عمری کی شادیوں کی وجہ سے پاکستان میں ماؤں اور بچوں کی اموات کی شرح میں اس حد تک اضافہ ہو چکا ہے کہ اب بھوٹان اور مالدیپ جیسے ممالک بھی ماں اور بچے کی صحت کے معاملے میں ہم سے آگے نکل چکے ہیں۔

اگر یہ کم عمر بچیاں خوش قسمتی سے بچے کی پیدائش کے دوران مرنے سے بچ بھی جائیں تو اکثر اوقات ساری زندگی کا تشدد اور گھٹن کی زنگی ان کا مقدر ہوتی ہے۔ وہ اپنے تعلیم جیسے بنیادی حق سے محروم رہنے کی وجہ سے ساری زندگی بے بسی کا شکار اور دوسروں کے سہارے پر زندہ رہنے لئے مجبور ہوتی ہیں۔ اور یقیناً یہ سب ان کے والدین کے ہی ” درست فیصلے“ ہوتے ہیں جن کا خمیازہ وہ ساری زندگی بھگتتی ہیں۔ آپ کہ سکتے ہیں ان کے والدین بھی مجبور ہوتے ہیں۔ کبھی ان کے معاشی مجبوریاں ہوتی ہیں اور کبھی ان کی سماجی مجبوریاں ان کو ایسا کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔ تو جناب بات یہ ہے کہ یقیناً ان کی مجبوریاں ہوتی ہیں مگر ان کی مجبوریوں کی سزا ان کے بچوں کو کیوں ملے۔ اگر اتنے مجبور تھے کہ اپنے بچوں کی بنیادی ضروریات ہی پوری نہیں کر سکتے تھے تو بچے پیدا کیوںکیے۔ اور اکر کر دیے ہیں تو پھر مجبوریوں کا رونا کیوں۔ اچھے مسلماںوں اور اچھے انسانوں کی اپنی ذمہ دایوں کو پورا کریں۔ اپنی غلطیوں کوتاہیوں اور نالائقیوں کی بلّی اپنے بچوں کو چڑھا کر یہ دعویٰ نہ کریں کہ والدین ہمیشہ اپنے بچوں کے لئے صحیح فیصلہ کرتے ہیں۔

پاکستان میں ہر سال ہزاروں نوجوان جن میں اکثریت لڑکیوں کی ہوتی ہے وٹہ سٹہ، ونی، سوارا، پیٹ لکھائی اور غیرت کے قتل جیسی رسومات کی بھینٹ چڑھتے ہیں۔ یا تو زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں یا پھر ساری زندگی کی بربادی اپنا مقدر بنا بیٹھتے ہیں۔ یہ ساری زندگیاں بھی والدین کے ” صحیح اور دانشمندانہ ٍفیصلوں “ کے نتیجے میں برباد ہوتی ہیں۔ کہیں پر زمین بچانی ہوتی ہے اور کہیں پر ناک۔ کہیں تعلقات کا مسئلہ ہوتا ہے اور کہیں پر مفادات۔ مگر والدین کے ان مسائل اور مفادات کے چکر میں قربانی کا بکرا ہمیشہ ان کا اولاد کو بننا پڑتا ہے۔ کیا آپ ان تمام مسائل کو بھی بچوں کے حق میں والدین کا صحیح فیصلہ قرار دے سکتے ہیں؟

ابھی بھی نوجواںوں کی ایک کافی بڑی تعداد کافی خوش قسمت ہوتی ہے اور بچپن کی شادیوں اور فرسودہ اور نقصان دہ رسومات اور رواجوں سے بچ نکل کر اپنی تعلیم مکمل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ پھر ان کو معلوم ہوتا ہے خالہ کی بیٹی اور پھپھو کا بیٹا ان کا انتظار کر رہے ہیں۔ کیوں کہ دونوں خاندانوں کے تعلقات کو مضبوط اور مستحکم کرنے کا یہی طریقہ والدین کو مناسب معلوم ہوتا ہے۔ یہ کیسے خونی رشتے اور تعلقات ہیں جو ایک اور شادی کے محتاج ہیں؟ اگر میں اپنی بہن سے اس لئے محبت نہیں کرتا کہ وہ میری بہن ہے بلکہ اس لئے محبت کرتا ہوں کہ وہ میری بیٹی سے اپنے بیٹے کی شادی کروا دے تو میں ایک بھائی نہیں بینکر ہوں جو لوگوں سے صرف اس لئے تعلقات رکھتا ہے کہ وہ اس کے بینک میں اپنا اکاؤنٹ کھلوائیں۔ اور اگر میری والدہ محترمہ کو اپنی بہن سے بہت محبت ہے تو انہیں کوئی اور چیز تحفے میں دیں۔ میری زندگی وہ کسی کواپنی محبت کے ثبوت میں تحفے کے لئے کیسے دے سکتی ہیں۔ مگر ایسا ہوتا ہے اور بچے ایک بار پھر ساری زندگی کے لئے ایسے بندھنوں میں جکڑے جاتے ہیں جس میں نہ ان کی خوشی ہوتی ہے اور نہ ہی رضا مندی۔ کیوں کہ ان کے والدین نے ان کے لئے“ صحیح فیصلہ “ کیا ہوتا ہے۔

جب یہ باتیں کی جائیں تو اکثر آگے سے جواب ملتا ہے دیکھیں والدین نے اپنی مرضی کی تو کیا ہوا۔ شادی اچھی خاصی کامیاب رہی۔ اکثر جوڑے چل رہے ہیں اور کامیاب زندگی گزار رہے ہیں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت طلاق کا نہ ہونا کامیاب شادی اور اچھی زندگی کی دلیل ہرگز نہیں۔ ہمارے اور ہمارے پڑوسی تمام ممالک کے سماجوں میں جو شادیاں چل رہی ہیں ان میں سے اکثر کو سمجھوتے تو کہا جا سکتا ہے مگر کامیاب شادیاں ہر گز نہیں۔ ان میں سے اکثر کو حقیقی ازدواجی خوشی کبھی نصیب نہیں ہوتی۔ اور خدارا ان کے آٹھ بچوں کو ان کی محبت کی دلیل نہ سمجھیں۔ انسان کو جس طرح پانی اور خوراک کی ضروریات ہوتی ہیں اسی طرح جنسی عمل بھی ان کی ایک بنیادی انسانی ضرورت ہے اور بچے نہ صرف اس کا ناگزیر نتیجہ ہیں بلکہ والدین اور معاشرے کی طرف پڑے ہوئے دباؤ کا بھی جواب۔ اور ہاں بچے ہمارے ہاں ایک انشورنس پالیسی بھی تو ہیں کیوں کہ وہ ہمارے بڑھاپے کا سہارا ہیں۔ وہ اس لئے نہیں پیدا پوتے کہ وہ اپنی زندگی گزاریں۔ وہ اس لئے پیدا ہوتے ہیں کہ وہ ہمارے لئے بڑھاپے کا سہارا بنیں۔

والدین کے صحیح فیصلوں کا دائرہ کار صرف شادی بیاہ کے معاملات تک محدود نہیں۔ بچوں کی تعلیم بھی چوں کہ والدین کی ذمہ داری ہوتی ہے اس لئے ان کے لئے شعبے کا انتخاب بھی والدین اکثر اپنا حق سمجھتے ہیں۔ یہ فیصلے اکثر بچوں کے رجحان اور پسند نا پسند کو مدِ نظر رکھ کر نہیں بلکہ ذاتی میلان، تشنہ خواہشات اوربچے کو بھی اپنے شعبے میں لانے کی خواہش کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ میں ایسے بچوں کو جانتا ہوں جو کہ میڈیکل اور انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کررہے ہیں یا کر چکے ہیں مگر ان کا ذاتی رجحان اور میلان ہرگز اس جانب نہیں تھا مگر وہ صرف والدین کے اصرار اور ان کی خواہش کے احترام میں ان شعبوں میں موجود ہیں۔ مالی طور پر وہ کامیاب بھی ہوں گے مگر ان کو وہ دلی خوشی اور اطمینان کبھی نصیب نہیں ہو گا جو کہ اپنی پسند کے شعبوں میں جانے والوں کو ہوتا ہے۔

اوپر کی گئی تمام باتوں کو ہرگز یہ مطلب نہیں کہ والدین کبھی صحیح فیصلہ نہیں کرتے یا یہ کہ ان کی اکثریت بچوں کی خیرخواہ نہیں۔ یقیناِ اکثر والدین بچوں کی بھلائی کے خواہاں ہوتے ہیں اور ان کے لئے بہتر سوچتے اور کرتے ہیں۔ ان کے فیصلے ان کے تجربات کی وجہ سے بعض اوقات عقلمندانہ بھی ہوتے ہیں۔ عرض صرف یہ ہے کہ ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔ کئی بار بلکہ بہت بار والدین کے فیصلے غلط بھی ہوتے ہیں۔ کئی بار ان فیصلوں کے پیچھے بچوں کی بھلائی نہیں بلکہ والدین کا ذاتی مفاد بھی ہوتا ہے جو کہ بچوں کی زندگیوں کو برباد بلکہ بسا اوقات ختم بھی کر دیتا ہے۔ دوسری جانب یہ بھی خیال رکھیں کہ بچے ہمیشہ غلط فیصلے نہیں کرتے۔ اکثر اوقات ان کے رائے درست بھی ہوتی ہے۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ زندگی ان کی ہے جسم ان کا ہے اس لئے ان دونوں چیزوں کا بارے میں فیصلہ کرنے کا حق بھی ان کا یعنی بچوں کا ہے۔ اگر آپ اپنے غلط فیصلے کو قسمت کا لکھا سمجھ کر آگے بڑھ جاتے ہیں تو ان کی غلط فیصلوں کو بھی ان کی حماقت نہ قرارد دیں۔ اس کو بھی اسی طرح قبول کریں جس طرح اپنے فیصلے کے غلط نتائج کو کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).