کیا سعودی عرب خانہ جنگی کا شکار ہونے جارہا ہے؟


سعودی عرب اس وقت کئی مسائل کا شکار ہے۔ عرب وعجم جنگ، علاقائی بالادستی، ہمسایہ ملکوں سے خراب تعلقات ہوں یا تیل کی کم ہوتی عالمی قیمتیں۔ ان سب مسائل نے سعودی عرب کے مفادات کو بری طرح سے متاثر کیا ہے۔

سعودی عرب تیل پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے یہ اوسطاً 11.75 ملین بیرل تیل روزانہ پیداکرتاہے جودنیا بھر میں پیدا ہونے والے تیل کا تقریبا 13.24 فی صد بنتا ہے۔ پچھلے کچھ عرصے میں عالمی سطح پر کم ہوئی قیمتوں نے سعودی معیشت کو جھنجوڑ ڈالا ہے۔ جدہ جو سعودی معاشی سرگرمیوں کا محور تھا اور جہاں پہلے ہر طرف چہل پہل نظر آتی تھی اب ایک ایسے شہر کا منظر پیش کررہا ہے جہاں اب ’’بھوتوں کا بسیرا ‘‘ ہو۔ صرف جدہ شہر ہی نہیں بلکہ سعودی عرب کے اکثر شہر اس معاشی بدحالی کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ بہت سے بڑے بڑے بزنس ہاوسز اپنے روزانہ کے اخراجات مشکل سے پورے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ سونے پہ سہاگہ یہ اپنی آمدن کو بڑھانے کے لئے سعودی حکومت نے ان بزنس ہاوسز میں کام کرنے والے غیر ملکی شہریوں پر ’’سو ریال ‘‘ فی کس مہینہ کے حساب سے ایک نیا ٹیکس لگا دیا ہے۔ خیال رہے کہ اس وقت سعودی عرب میں غیر ملکیوں کی تعداد تقریبا 11.7 ملین ہے۔ جن میں سے تقریبا 7.4 ملین ورکرز ہیں اور تقریبا 4.3 ان کے خاندان کے افراد ہیں۔ بظاہر یہ ٹیکس بزنس ہاوسز پر لگایا گیا ہے لیکن ان بزنس ہاوسز نے کسی نہ کسی شکل میں یہ ٹیکس اپنے ملازمین پر منتقل کر دیا ہے جس کی وجہ سے بہت سے غیر ملکی سعودی عرب چھوڑ چکے ہیں۔ مہارت یافتہ افراد کی کمی کی وجہ سے ان بزنس ہاوسز کو اپنا کاروبار چلانے کے لئے کافی مشکلات کا سامنا ہے۔

معاشی تنگ دستی نے درمیانے اور چھوٹے کاروباروں کو بے حد نقصان پہنچایا ہے جس کی وجہ سے لوگوں کی قوت خرید بے حد متاثر ہوئی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت سعودی شہریوں کی قوت خرید تاریخ کی کم تر سطح پر ہے۔

کچھ عرصے پہلے حکومت نے نئی سرکاری بھرتیوں پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اب افواہیں سرگرم ہیں کہ ’’خرچ میں بچت ‘‘ کے نام پر حکومت ہزاروں لوگوں کو سرکاری ملازمت سے برطرف کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہے۔ حکومت کا یہ قدم نفسیاتی اور مالی تنگی کا شکار لوگوں میں مزید بے روزگاری کا باعث بنے گا۔

امریکی صدر ٹرمپ کے حالیہ دورہ سعودی عرب جس میں دونوں ملکوں نے350 ملین ڈالرز کے معاہدوں پر دستخط کیے اور جس طرح سعودی حکومت نے صدر ٹرمپ کی آؤ بھگت کی، سعودی عوام کی اکژیت نے اسے اپنے ملک کی بے عزتی تصور کیا۔ لوگوں کی ناپسندیدگی کے باوجود سعودی حکومت نے امریکی حکومت کو اسی طرح کے مزید پرکشش معاہدات کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
سعودی شہریوں کا اپنی حکومت پر اعتماد بھی کافی حد تک متزلزل ہو ا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کی حکومت ان کی فلاح وبہبود کی بجائے ان کا گلا کاٹنے پر تلی ہوئی ہے۔ لوگوں کا مطالبہ ہے کہ فضول منصوبوں پر رقم خرچ کرنے کی بجائے حکومت کو عوام کی صحت، ہاوسنگ اور روزگار کے لئے زیادہ خرچ کرنا چاہیے۔

عوام کی بے چینی کے باوجود سعودی حکمرانوں کا رویہ اپنے شہریوں کے ساتھ فاتحین اور رعایا والا ہے۔ حکمران بڑے فخر سے اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ انہوں نے اس علاقے کو تلوار کے زور پر فتح کیا ہے۔ حکومتی دباؤ کی وجہ سے لوگ کسی بھی معاملے پر سرکاری موقف سے ہٹ کر اپنا نقطہ نظر بیان نہیں کر سکتے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شہری قطر کے معاملے پر قطر سے ہمدردی کرتا پایا جاتا ہے تو اس کو 15 سال کی قید اور 5 لاکھ ڈالرز جرمانے کی سزا دی جاسکتی ہے۔ دنیا کے کسی اور ملک میں شاید ہی ایسا ہو کہ آپ کو ’’سرکاری موقف ‘‘ سے ہٹ کر اتنی سخت سزا سنائی جائے۔ اگرچہ ان قوانین کا سوشل میڈیا پر کافی مذاق اڑایا جا رہا ہے لیکن حکومت کو اس سے کوئی پرواہ نہیں۔

ان سختیوں کے علاوہ حکومت پچھلے کئی برسوں سے اس بات کی کوشش کر رہی ہے کہ لوگوں کو ان کی مقامی ثقافت سے الگ کیا جائے۔ اس بات کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے کہ لوگ حکمرانوں کے پسندیدہ علاقے ’’نجد‘‘ کی ثقافت کو اپنائیں۔ لوگوں کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ اپنا علاقائی لباس چھوڑ کر ’’نجد ‘‘ کا لباس پہنیں۔ اگر کوئی شہری نجد کے لباس کے علاوہ کسی اور لباس میں تصویر بنواتا ہے تو اس کو شناختی کارڈ اور پاسپورٹ جاری نہیں کیا جاتا۔

کچھ مبصرین کا یہ ماننا ہے کہ صرف معاشی جبر واحد وجہ نہیں جو لوگوں کو حکومت کے خلاٖف صف آرا کر دے افریقہ اور لاطینی امریکہ کے کئی ممالک کی اقتصادی حالت سعودی عرب سے کہیں زیادہ خراب ہے لیکن ان ملکوں کے عوام اپنی حکومتوں کے خلاف اٹھ کھڑے نہیں ہوئے۔ اس کی وجہ ان ممالک میں ان کے عوام کی شخصی آزادی ہے جس کا سعودی عرب میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔

حقیقت تو یہ ہے کہ معاشی سے زیادہ یہ مسئلہ سیاسی ہے اور اس کی وجہ عوام کی حکومت پر بد اعتمادی ہے لوگ حکومت پر بھروسہ کرنے کو تیا ر نہیں۔
سوال یہ ہے کہ حکومت اور عام لوگوں کے تعلق کو کیسے مضبوط کیا جائے۔ ؟

لگتا ہے اب وہ وقت آگیا ہے کہ سعودی حکومت اب اپنا دل بڑا کرے اور اپنے لوگوں کو سیاسی آزادی دیے۔ لوگوں کو اپنے ووٹ کے ذریعے اپنے نمائندے چننے کا اختیار دینا ہوگا۔ لوگوں کو آزادانہ سوچ اور اختلاف رائے رکھنے کا حق دینا ہوگا تاکہ ان میں یقین پیدا ہو کہ حکومت ان کی رائے کا احترام کرتی ہے اور فیصلہ سازی میں ان کی رائے کو اہمیت دیتی ہے۔
اگر حکومت لوگوں کی رائے کو ملحوظ خاطر نہیں رکھتی تو کیا حکومت اور عوام کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی خانہ جنگی کی شکل میں تبدیل ہوجائے گی؟
اگرچہ یہ بات ابھی قبل ازوقت ہے لیکن مبصرین کا یہ ماننا ہے کہ خانہ جنگی کے لئے ماحول تیار ہے، بس ایک چنگاری کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).