تاسیس کے 76برس، جماعت اسلامی کہاں کھڑی ہے؟


20ویں صدی کے عظیم مفکر و مجتہد مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی بپا کردہ اقامتِ دین کی تحریک ”جماعت اسلامی“ 26 اگست کو خیر سے اپنا 76واں یومِ تاسیس منا چکی ہے۔ ان برسوں میں جماعت نے بڑے سرد و گرم دیکھے، نشیب و فراز طے کیے، اس کے کارکنان و قائدین نے جانوں کا نذرانہ دیا، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، ہر طرح کی قربانیاں دیں، صرف اس مقصد کے لیے کہ بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر خدائے وحدہ لاشریک کی بندگی میں لایا جائے اور اللہ کی زمین پر اللہ اور اس کے رسولﷺ کے نظام کا نفاذ ممکن بنایا جاسکے۔ اس جدوجہد میں جماعت اسلامی کے افراد کی انتھک محنت اور بے لوث قربانیاں کسی شک و شبہ سے بالاتر ہیں۔ خاص کر نچلی سطح (یعنی حلقہ سرکل و یوسی وغیرہ) کے جوان و بزرگ اور خواتین کارکنان کے خلوص اور پاک دامنی کی قسم کھائی جاسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر و مشیر، ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور سینٹ، اور سٹی مئیرز جیسے بھاری بھرکم مناصب اور بجٹ رکھنے کے باوجود جماعت کے افراد پر آج تک کرپشن کا کوئی الزام نہیں لگایا جاسکا۔ حتیٰ کہ خود عدالت عظمیٰ کے معزز جج نے بھی جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق کی صداقت اور امانت و دیانت کی گواہی دی ہے۔ لہٰذا اس جماعت کے کرپشن جیسے موذی مرض سے پاک ہونے میں کوئی دو رائے نہیں پائی جاتی۔

ویسے بھی اللہ اور اس کے رسولﷺ کے نام پر برپا کی جانے والی تحریکوں کی بنیاد اور اثاثہ للٰہیت، خلوص اور ایثار و قربانی ہوا کرتی ہے، وہ اپنے، پرائے، حامی، مخالفین سب کو اپنے جلو میں لے کر چلتی ہیں۔ یہ خصوصیات اور صفات آپ میں ناپید ہو جائیں تو اللہ کا ہاتھ آپ سے اُٹھ جاتا ہے اور آپ دربدر بھٹکنے لگ جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے جماعت اسلامی کی اجتماعیت بالخصوص نظم میں ان صفات کا فقدان واضح جھلکنے لگا ہے۔

لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جماعت اسلامی چونکہ کوئی فرشتوں کی جماعت تو ہے نہیں، یہ بھی اسی معاشرے میں بسنے والے عام انسانوں پر مشتمل جماعت ہے۔ لہٰذا گاہے بگاہے معاشرتی برائیاں اور خامیاں اس میں بھی در آئی ہیں اور تیزی سے سرائیت کرتی جارہی ہیں۔ میں ان برائیوں، خامیوں اور خصلتوں کے تفصیلاً ذکر سے اجتناب کروں گا لیکن یہ ضرور سمجھتا ہوں کہ اسلامی تحریکوں کو ان معاشرتی برائیوں سے کافی حد تک پاک ہونا چاہیے، ورنہ آپ میں اور دیگر سیاسی جماعتوں میں کوئی خاص فرق نہیں رہ جاتا۔ اب یہ جماعت کے قائدین، ذمہ داران اور ارکان کو سوچنا ہے کہ وہ تیزی سے سرائیت کرتی ان برائیوں کے سدِباب کے لیے کیا حکمتِ عملی اپناتے ہیں۔ میری ناقص رائے میں سراج الحق جس طرح ملکی سطح پر سب کے بے رحمانہ احتساب کی تحریک چلا رہے ہیں، ویسا ہی ایک بے رحمانہ اور کڑا احتساب انہیں اپنی جماعت کے اندر بھی کرنا پڑے گا، اس بات کی پروا کیے بغیر کہ اس عمل سے کہیں آپ کے اپنے ہی آپ سے ناراض نہ ہونے لگیں۔ ویسے بھی تذکیہ، احتساب اور تطہیر کا عمل تو اسلامی تحریکوں کا ہی خاصہ ہے۔ اگر آپ یہ سخت اور مشکل کام کر گزریں تو سیاسی و انتخابی میدان میں بھلے آپ کوئی کامیابی حاصل نہ کر پائیں، لیکن آپ اپنی اور اپنے افراد و کارکنان جو کہ آپ کا کنبہ اور آپ کی رعایا ہیں، کی عاقبت تباہ ہونے سے ضرور بچا سکیں گے۔

لیکن جماعت سے وابستہ افراد کو مایوسی کو اپنے قریب ہرگز نہیں پھٹکنے دینا چاہیے۔ کیونکہ آپ کی بنیاد، آپ کا نظریہ اور آپ کی جدوجہد کا محور بہت واضح اور درست سمت میں ہے۔ وقتی مصائب اور مشکلات کا سامنا ضرور ہے، لیکن یہ جلد چھٹ جائیں گی انشاءاللہ۔ مایوس اور دل شکستہ ہونے کے بجائے ہر فرد اپنے حصے کا کام کرتا جائے اور ربِ ذوالجلال سے دعا کرے کہ وہ ہمارے دلوں کو اپنی جانب پھیر دے، ہمیں صراط مستقیم دکھا دے، راہِ حق پر استقامت اور ہمت و طاقت عطا فرما دے۔ تاکہ ہم غلبہ دین کے نبوی مشن کو منطقی انجام تک پہنچانے میں اپنا حصہ پوری طرح شامل کرسکیں۔
جماعت اسلامی کے کارکنان اور قائدین کو 76واں یومِ تاسیس مبارک ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).