تاریخ اور عورت کا مخمصہ


تاریخی حوالے سے عورت کی سماجی و معاشرتی حیثیت جاننے کے لیے جب مختلف تاریخی ادوار کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ عورت پر مرد کی حکمرانی زرعی انقلاب کے بعد شروع ہوئی۔ اس سے پہلے کا معاشرہ مادر سری کہلاتا تھا جس کا محور و مرکز عورت ہوا کرتی تھی۔ عورت نے فصلیں اگانے کا راز دریافت کیا تو دھرتی اور عورت میں بارآوری اور افزائش کی مماثلت سے زمین کو بھی دھرتی ماں کہا جانے لگا۔ عورت کے تصور کی وضاحت میں مختلف دیویوں کا جنم ہوا جن کی تصویر قدیم سُمیری، بابلی، یونان ایران اور ہندوستان کی بے شمار دیویوں کے روپ میں دیکھی جا سکتی ہیں۔

زرعی انقلاب کے بعد عورت آہستہ آہستہ اپنے مقام سے گر گئی اور ایک پدر سری معاشرہ وجود میں آتا گیا اور پدرسری تہذیب کے استحکام کے ساتھ ہی عورتوں کی برتری کا خاتمہ ہو گیا۔ سماج میں ذات پات کی تقسیم پیدا ہوئی تو عورتوں کو اچھوتوں کے زمرے میں شامل کر لیا گیا۔ ملکیت میں ان کا حصہ تو درکنار، وہ بنیادی حقوق سے بھی محروم کر دی گئیں۔ بیوی کا سماجی مرتبہ کسی بھی طرح ایک معزز خادمہ سے زیادہ نہ رہا۔ لہذاٰ تاریخ کی تعبیر و تشکیل کے لیے یہ نظریہ طے ہوا کہ ہر عظیم کام صرف مرد ہی انجام دے سکتے ہیں پیغمبروں سے لے کر فاتحین تک صرف مرد ہی مرد نظر آتے ہیں۔ اس لیے ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ہماری پوری تاریخ مردوں کی تاریخ ہے، عورتوں کی نہیں۔ تاریخ بیان کرنے کے لیے جو خاکہ بنایا گیا ہے اس میں عورت کے وجود کی گنجایش ہی نہیں۔ اگر کہیں کہیں جھانکتی دکھائی دیتی ہے تو صرف مردانہ کردار کو تقویت دینے کے لیے۔

عورت کے ایسے تصور سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ اس میں آزادیء فکر، بلند حوصلگی، حق گوئی اور ڈٹ جانے جیسی صفات پیدا ہوں گی۔ اگر کسی ایک عورت سے کوئی لغزش ہو جائے تو تمام عورتوں پر مکاری، بے وفائی اور نفس پرستی کے الزامات لگا دیے جاتے۔ ایک مرد کی غلطی صرف ایک مرد کی غلطی کہلاتی لیکن ایک عورت کی غلطی اس کی ساری نسل کے لیے باعث الزام ثابت ہوتی۔

ہماری قدیم شاعری، داستان، قصے، لوک کہانیوں میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔ عورت کا ایک ایسا امیج بنا دیا گیا جس سے یا تو نفرت محسوس ہوتی ہے یا رحم آنے لگتا ہے۔ ہماری پوری تاریخ میں عورت مرکزی کردار میں خال خال دکھائی دیتی ہے اور زیادہ تر سپورٹنگ رول نبھاتی دکھائی دیتی ہے۔ ابتداء ہی سے قبائل میں باہمی جنگ و جدل کے بعد صلح کے معاہدوں میں شادی بیاہ کے ذریعے تعلقات کو بہتر بنایا جاتا۔ جب بھی دشمنوں یا مخالفین سے دوستی کرنا ہو تو اپنی عورتوں کو ان کے حوالے کر کے حالات کو اپنے حق میں ہموار کر لیا جاتا اور ایسے معاہدوں کے سیاسی و سماجی ہر طرح کے ثمرات سے فائدہ اٹھایا جاتا۔ افسوس، کہ آج بھی کم و بیش یہی صورت حال ہے۔ اور ہماری تاریخ تو ایسے قصوں سے بھری پڑی ہے۔ مغلیہ دور میں ہی بابر کی بہن خانزادہ بیگم سے لے کر اکبر اور اس کے جانشینوں کی راجپوت لڑکیوں سے شادیوں تک، عورت کا کردار صرف غصہ ٹھنڈا کرنے کے کام آتا ہے۔ آپ چاہیں تو جودھا اکبر کے نام سے ایک سجی سجائی رنگدار پیشکش کر لیں مگر حقیقت میں جودھا کا کردار بھی صرف اکبر کی بیوی اور سلیم کی ماں تک کا ہے جہاں عورت صرف مفادات کے لے استعمال ہوتی نظر آتی ہے۔

تاریخ میں عورت کا ذکر تب بھی دیکھنے کو ملتا ہے جب جنگوں کے بعد مالِ غنیمت جمع کیا جاتا تھا اور خاص طور پر اس بات پر فخر کا اظہار کیا جاتا کہ کتنی عورتیں مالِ غنیمت میں پکڑی گئیں۔ ایسی عورتوں کی سماجی حیثیت اگر اس سے پہلے ہوتی بھی تھی تو جنگ میں پکڑے جانے کے فوری بعد ختم ہو جاتی۔ وہ مکمل طور پر فاتحین کے رحم و کرم پر ہوتیں، چاہے ان سے کچھ بھی سلوک کیا جائے ان کے پاس احتجاج کا کوئی حق نہیں تھا۔ جنگ ہو یا جنگ کے بعد کی صورتِ حال سب سے زیادہ قابلِ رحم طبقہ عورتوں کا ہی ہے۔ کئی جنگیں تو صرف عورتوں کے حصول کے لیے ہی لڑی گئیں جن میں کسی حکمران نے کسی خوب صورت عورت کا تذکرہ سن کر دوسری قوم پر چڑھائی کر دی۔ بے شمار وسائل خرچ کر دیے، ہزاروں لوگ مروا دیے۔ مگر یہاں بھی عورت کو موردِ الزام ٹھہرایا گیا۔ رانی پدمنی ایک مثال ہے۔

ہماری تاریخ میں ایک بہت بڑا کردار اس لڑکی کا بھی ہے جس نے حجاج بن یوسف کو مدد کے لیے پکارا تھا اور اس نے فوراٌ لبیک کہتے ہوئے محمد بن قاسم کو سندھ پر حملہ کرنے بھیج دیا۔ حالانکہ یہ حملہ پہلے سے اس کے منصوبے میں شامل تھا اور اس سے کیا کیا سیاسی و معاشی مفادات حاصل ہوئے، یہ کہنے کی بات نہیں۔ مگر مزے کی بات تو یہ ہے کہ بعد میں اس لڑکی کا کیا بنا، وہ کہاں گئی اس سے بارے میں تاریخ خاموش ہے۔ سندھ کی فتح میں پکڑی گئی لڑکیوں میں سے تیس لڑکیاں راجاؤں کی تھیں، یہ بھی تاریخ سے غائب ہو گئیں۔

ہماری تاریخ میں جن عورتوں کو حکمرانی کرنا نصیب ہوا تو چاہے وہ رضیہ سلطانہ ہو یا ملکہ نور جہاں، اگر تو انہوں نے کوئی اچھا فیصلہ کیا تو اس کی وجہ ان کے عقلمند وزراء اور مشیروں کو قرار دیا گیا اور اگر ان سے غلط فیصلے ہوئے تو ان کے عورت ہونے کے باعث ان پر لعن طعن کی گئی، برا بھلا کہا گیا، اس کی عقل کو کوسا گیا کہ ایک بے وقوف عورت نے ملک و قوم کو تباہ کر دیا۔

اس طرح تاریخ میں عورت کا جو ایک مجموعی تاثر بنتا ہے وہ وہی ہے جو اس کے لیے متعین کر دیا گیا ہے۔ جس میں عورت کی بطور ذات کوئی اہمیت نہیں۔ وہ مختلف النوع مفادات کے لیے استعمال ہوتی نظر آتی ہے۔ اس کی اہمیت وہاں ملے گی جہاں وہ اپنے شوہر، باپ یا بیٹے کے زیرِ سایہ ہو، اپنے حال پر صابر رہے، قسمت پہ شاکر رہے اور اپنا کردار ادا کر کے منظر سے غائب ہو جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).