امریکہ پاکستان میں جلد ہی فوجی کارروائی کر سکتا ہے


چند ماہ پہلے سے غلغلہ تھا کہ افغانستان سے متعلق امریکہ نئی پالیسی مرتب کر رہا ہے۔ اس دوران افغانستان کی حکومت، پاکستان پر الزم لگاتی رہی کہ وہ اس ملک کے معاملات میں مداخلت کر رہا ہے۔ افغانستان میں دہشت گردی کے واقعات بھی ہوئے جن کا الزام براہ راست نہیں تو بالواسطہ پاکستان پر لگایا گیا۔ ویسے ہی جیسے پاکستان میں ہوئی دہشت گردی کا سرا افغانستان میں تلاش کیا جاتا ہے اور اس کو منظم کیے جانے کا ذمہ دار ایک اور ہمسایہ ملک کو گردانا جاتا ہے۔

بین الاقوامی دہشت گردی کی ابتدا افغانستان سے ہوئی تھی یا نہیں اس سے قطع نظر اقوام عالم اس نتیجے پر پہنچ چکی ہیں کہ دہشت گردی میں ملوث 99۔99 فیصد افراد مسلمان ہیں اور دہشت گردی منظم کرنے والی تنظیموں میں مسلمان یا اسلام کے ناموں سے تنظیموں کی شرح بھی اتنی ہی ہے۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ دہشت گردی سے کوئی ایک ملک اپنے طور پر نبرد آزما نہیں ہو سکتا۔ اس کے باوجود دہشت گردوں کی معاونت میں سعودی عرب، قطر، لبنان، ایران، پاکستان، ترکی، امریکہ تا حتٰی غلط یا درست روس تک کا نام لیا جاتا ہے۔ ہندوستان اپنے ہاں ہوئے دہشت گردی کے واقعات کا ذمہ دار پاکستان کو گردانتا ہے اور کلبھوشن یادو کے گرفتار ہونے کے بعد پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کی ذمہ داری پاکستان کی جانب سے ہندوستان پر ڈالی جاتی ہے۔ اچھے برے طالبان کی تخصیص کا تعلق پاکستان سے سننے میں آتا رہا اور روس شام کے حوالے سے اچھے برے دہشت گردوں میں تخصیص کا ذمہ دار امریکہ کو گردانتا رہا اور گردانتا ہے۔ پاکستانیوں کی نظر میں دہشت گرد پہلے امریکہ کے ایجنٹ تھے اب انہیں ہندوستان کے کارندے کہا جانے لگا ہے۔

دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ بن چکی ہے جس کا بظاہر سبب اسلامی ملکوں جیسے افغانستان، عراق، لیبیا، شام وغیرہ میں مسلح غیر ملکی مداخلت، اس کے خلاف بڑھتی مزاحمت میں بنیاد پرست اسلامی مسلح تنظیموں کی شمولیت، پھر ان تنظیموں کی جانب سے مغربی اور ایسے ملکوں، جن کو وہ مغربی ملکوں کے حلیف خیال کرتے ہیں، میں دہشت گردی کرانے کی منصوبہ بندی، جب علاقے دہشت گردوں سے خالی کروا لیے جائیں تو ان کے جنگجووں کا لوٹ کر اپنے ملکوں میں آنا جہاں انہیں کوئی اور کام کرنا نہیں آتا اور اپنی طرز کی شریعت نافذ کرانے کا جذبہ اور مقصد ان کے دل سے محو نہیں ہوتا یوں وہ نہ صرف خود دہشت گردی کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے بلکہ دوسرے نوجوانوں کو بھی اس جانب راغب کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی ملکوں میں گاہے بگاہے دہشت گردی کے واقعات ہوتے رہتے ہیں اور ان واقعات میں ملوث اور مار دیے جانے والوں میں کم و بیش سبھی کسی نہ کسی مسلمان آبادی والے ملک سے آئے والدین کے بچے ہوتے ہیں یا خود ان ملکوں سے آئے ہوتے ہیں جہاں جنگ نے زندگی تلپٹ کرکے رکھ دی ہو۔ کہا جاتا ہے کہ دہشت گرد تنظیموں اور خاص طور پر داعش نے مہاجرین کے ریلوں میں شامل کرکے اپنے جنگجو، ہزاروں کی تعداد میں یورپ بھیج دیے ہیں اور انہیں اختیار ہے کہ جب، جہاں اور جیسے چاہیں دہشت گردی کریں۔

البتہ گیارہ ستمبر 2001 کی مبینہ منظم دہشت گردی کے بعد امریکہ میں دہشت گردی کا ایک بھی قابل ذکر واقعہ نہیں ہوا ہے مگر امریکہ نے اس کے بعد کتنے ہی ملکوں کو تاخت و تاراج کرکے رکھ دیا ہے جہاں بنیاد پرست اسلامی دہشت گرد تنظیمیں فعال ہو چکی ہیں اور کم از کم ایک واقعہ ایسا بھی ہو چکا ہے جب امریکہ نے بشار الاسد کی حکومت کے خلاف مسلح جنگجووں کو جن کو وہ دہشت گرد خیال نہیں کرتا جو اسلحہ فراہم کرتا تھا اس کی ایک کھیپ داعش کے ہاتھ لگتی دکھائی گئی تھی۔ کہا یہ گیا کہ طیارے سے گرایا گیا اسلحہ غلطی سے اس علاقے میں جا گرا جس پر داعش قابض تھی۔

امریکہ نے افغانستان سے متعلق پالیسی بدل کر جس انداز میں پاکستان کو متنبہ کیا ہے اس کا مقصد عالمی دہشت گردی کا خاتمہ کرنا نہیں کیونکہ اچھے دہشت گرد امریکہ کا بھی اثاثہ ہیں، بلکہ اس کا مقصد پاکستان میں مبینہ طور پر موجود بنیاد پرست تنظیموں کا قلع قمع کرنا ہے جو افغانستان کے ساتھ ساتھ کشمیر میں مداخلت کی ذمہ دار گرادانی جاتی ہیں۔ یہ تنظیمیں یا گروہ جن میں حقانی گروپ تو معروف ہے لیکن امریکہ نے مزید انیس تنظیموں کے دفاتر یا ٹریننگ گراؤنڈز پاکستان میں ہونے کا الزام لگایا ہے، خود امریکہ اور امریکہ کے نئے حلیف ہندوستان کے مطابق افغانستان اور کشمیر کے علاوہ دنیا میں کہیں اور جنگی یا دہشت گردانہ کارروائیاں نہیں کرتیں مگر ان کو داعش کی طرح بین الاقوامی دہشت گرد اس لیے کہا جاتا ہے کہ ان کی کارروائیوں میں کم از کم تین ملک شامل ہیں اور ایک چوتھے ہمسایہ ملک کی خفیہ شمولیت کا بھی ذکر کیا جاتا ہے۔ ان انیس تنظیموں میں واضح طور پر لشکر طیبہ شامل ہے جو قانونی طور پر کالعدم تنظیم ہے مگر اس سے وابستہ لوگوں نے حال ہی میں ملی مسلم لیگ کے نام سے ایک سیاسی پارٹی بنا لی ہے۔ کالعدم لشکر طیبہ کے سربراہ حافظ سعید، جو نظر بند ہیں کے بارے میں اطلاع دیے جانے پر بھی امریکہ نے انعام رکھا ہوا ہے جبکہ حافظ صاحب یہ یہ کہہ کر گھومتے پھرتے رہے کہ بگاڑ لو اگر بگاڑ سکتے ہو، یوں انہیں حفاظتی نظر بندی میں لے لیا گیا۔

یہ بات دہرائی جانی چاہیے کہ امریکہ ہر طرح کی صورت حالات سے عہدہ برآ ہونے کی منصوبہ بندی بہت پہلے سے کر لیتا ہے۔ ایک امریکی نژاد روسی یہودی کی کمپنی نے 2004 میں ماسکو میں پنٹاگان کے لیے مختصر دورانیے کی تعلیمی ڈاکومنٹری فلمیں بنائی تھیں۔ یہ کئی زبانوں میں تھیں۔ ان میں اردو، پشتو اور پنجابی بھی شامل تھی۔ ان فلموں میں منظر یوں تھے جیسے ان علاقوں میں جہاں یہ زبانیں بولی جاتی ہیں، اسلامی جنگجوو جزوی طور پر قابض ہو چکے ہیں۔ امریکی فوج ان سے نمٹنے کی خاطر ان علاقوں میں پہنچی ہوئی ہے اور مختلف لوگوں سے مل کر انہیں تسلی دے رہی ہے کہ وہ دہشت گردوں کی سرکوبی کے لیے پہنچے ہوئے ہیں۔ ان زبانوں میں پنٹاگان کی ایجوکیشنل ڈاکومینٹریز کا روس میں تیار کیا جانا اچنبھا نہیں تھا کیونکہ ایک تو یہاں کا میڈیا جوشیلا نہیں ہے، دوسرے یہاں اخراجات نہ ہونے کے برابر تھے۔ اگر امریکہ یا یورپ کے کسی اور ملک میں بیٹھ کر یہ کام کیا جاتا تو کم سے کم بیس گنا زیادہ اخراجات آتے۔ یہودی کاروباری نے منفعت پیش نظر رکھی۔

اس سے ایک بات تو واضح ہوتی ہے کہ امریکہ کی فوج میں ان زبانوں میں ہلکی پھلکی تربیت دیے جانے کا عمل جاری ہے۔ ایبٹ آباد کے واقعے میں امریکی فوجی ہندکو اور پشتو بولتے سنے گئے تھے۔

امریکہ افغانستان پر اخراجات کر کر کے تھک چکا ہے۔ ادھر ہمارے ارباب افغانستان کو برطانوی نوآبادکاروں کی طرح ”بفر سٹیٹ“ بنائے رکھنے سے نجانے کیوں باز نہیں آ رہے اگرچہ وسط ایشیا میں نہ تو سوویت یونین باقی رہی اور نہ ہی کمیونزم روکنے کا کوئی بہانہ ہے، ایک ادارے کے لوگ تو کھلے عام کہتے ہیں کہ کابل میں وہی ہوگا جیسا ہم چاہیں گے، حالانکہ اب ایسا نہیں ہو رہا مگر تگ و دو جاری ہے۔ امریکہ نے واضح طور پر بتا دیا ہے کہ اب پاکستان کے نان سٹیٹ ایکٹرز کے ساتھ اس کی بے اصول جنگ ہے۔ مقامی کمانڈ طے کرے گی کہ کیا کرنا ہے۔ امریکہ کی ریاست کو، یاد رہے ٹرمپ حکومت کو نہیں بلکہ ریاست کو اب اپنی فوج سے نتیجہ چاہیے اس لیے اس نے فوج کی مان کر کمان کو اپنی مرضی کرنے کا اختیار دے دیا ہے۔

اگر معروضی حالات کے مطابق عملیت پسندی سے کام نہ لیا گیا تو یہ کوئی مہینوں کی بات نہیں ہوگی بلکہ ہفتوں میں پاکستان میں امریکہ کسی نوع کی عسکری کارروائی کرتا دکھائی دے جائے گا۔ یہ کارروائی کسی بڑے شہر میں ڈرون حملے کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے اور ایبٹ آباد جیسے واقعے سے ملتے جلتے کسی عمل کی شکل میں بھی۔ پھر کڑاہی کے ابال والی حب الوطنی کے حامل محض احتجاج کرتے دکھائی دیں گے اور بس۔ مگر توقع رکھنی چاہیے کہ پاکستان کی ہئیت مقتدرہ بالخصوص اس کا قوی ترین حصہ فوج مہم جوئی سے باز رہے گی۔ ویسے بھی امریکی سفیر کی جنرل باجوہ سے ملاقات کی تصویر میں دونوں مطمئن دکھائی دے رہے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).