ذیابیطس اور امید کی کرن


 آج سے چند ماہ پیشتر میں اپنے فیمیلی فزیشن ڈاکٹر کوپلینڈ DR COPELAND سے ملنے گیا۔ انہوں نے میرے خون کے ٹیسٹ کی رپورٹیں پڑھیں تو بہت فکرمند ہو گئے۔ کہنے لگے

’ڈاکٹر سہیل اگر آپ محتاط نہ ہوئے تو آپ کو ذیابیطس ہو جائے گا اور آپ کو دوا کھانی پڑے گی‘
’لیکن میں دوا کھانا پسند نہیں کرتا‘
’تو پھر آپ کو صحت کا خیال رکھنا پڑے گا اور اپنے لائف سٹائل کو بدلنا پڑے گا‘
’ آپ بلڈ شوگر کے کس لیول پر مریض کو دوا دیتے ہیں‘
’ جب اس کے سہ ماہی Hemoglobin AIC کا لیول 6.5 ہو جائے‘
’اور میرا کیا لیول ہے؟‘
’6.4 ‘
’یہ تو فکرمندی کی بات ہے‘

اس دن گھر آ کر میں سوچنے لگا کہ مجھے اپنی صحت کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔ ایسا نہ کیا تو ڈاکٹر خود مریض بن جائے گا۔ اتفاق سے انہی دنوں میں نے ’ہم سب‘ پر ڈاکٹر لبنیٰ مرزا کے کالم پڑھنے شروع کیے تھے۔ مجھے یہ معلوم ہوا تھا کہ وہ اینڈوکرائینولوجسٹ ENDOCRINOLOGIST ہیں ذیابیطس DIABETES میں تخصص رکھتی ہیں اور اس اہم موضوع پر ایک کتاب کی خالق ہیں جس کا نام ہے ’ وہ سب کچھ جو آپ کو ذیابیطس کے بارے میں جاننے کی ضرورت ہے‘۔ چنانچہ میں نے ان سے ان کی کتاب منگوائی اور پڑھنی شروع کی۔

اس کتاب کو پڑھنے سے مجھے بہت فائدہ ہوا۔ میرے لیے وہ کتاب امید کی ایک کرن ثابت ہوئی۔ مجھے یہ حوصلہ ہوا کہ اگر میں اپنی طرزِ زندگی میں کچھ تبدیلیاں کروں تو میں اپنی مدد آپ کر سکتا ہوں۔ چنانچہ میں نے مندرجہ ذیل تبدیلیاں کیں
ہفتے میں چار پانچ دفعہ آدھ گھنٹہ سیر کو جانے لگا
دن میں دو دفعہ دو چمچ چینی کے ساتھ چائے پینے کی بجائے ہفتے میں دو دفعہ چائے پینے لگا
دن میں دو دفعہ کوک پینے کی بجائے ہفتے میں دو دفعہ کوک پینے لگا
دن میں چائے اور کوک کی جگہ پانی پینے لگا
دن میں ایک دفعہ بہت زیادہ کھانا کھانے کی بجائے تین دفعہ مناسب مقدار کا کھانا اور ناشتے میں فروٹ یوگرٹ FRUIT YOGURT کھانے لگا۔

ڈاکٹر لبنیٰ مرزا کی کتاب نے یہ بھی بتایا کہ اگر میرا وزن پانچ یا دس فیصد کم ہو جائے تو جسم میں شوگر کم ہو جائے گی۔
چنانچہ ڈاکٹر لبنیٰ مرزا کی کتاب کے مشوروں پر عمل کرتے ہوئے میں نے جو اقدامات اٹھائے ان کا یہ فائدہ ہوا کہ چھ مہینوں میں
میرا وزن172 پونڈ سے 157 پونڈ ہو گیا
میرے سہ ماہی HEMOGLOBIN AIC کا لیول 6.4 سے 6.0 ہو گیا۔
میرا بلڈ پریشر 130/80 سے 120/70ہو گیا

جب ڈاکٹر کوپلینڈ نے چند ماہ میں اتنے اچھے نتائج دیکھے تو بہت خوش ہوئے۔ میں نے انہیں بتایا کہ یہ ڈاکٹر لبنیٰ مرزا کی ذیابیطس کی کتاب کی کرامت ہے جو عام فہم زبان میں لکھی گئی ہے۔ میں نے انہیں مشورہ دیا کہ ان کے وہ تمام مریض جو پاکستان اور ہندوستان سے تعلق رکھتے ہیں اور اردو پڑھ سکتے ہیں انہیں یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے۔

ڈاکٹر لبنیٰ مرزا کی کتاب ہزاروں لاکھوں انسانوں کی مدد کر سکتی ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے صحت کی بہت اعلیٰ تعلیم دی ہے اور عام فہم زبان میں بتایا ہے کہ کیسے ورزش اور مناسب خوارک سے ‘جس میں سبزیاں اور پھل زیادہ اور مٹھائیاں کم ہوں‘ ذیابیطس کی بیماری کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ اگر خوراک اور ورزش سے ذیابیطس کنٹرول نہ ہو تو کون سی گولیاں مدد کر سکتی ہیں۔ انہوں نے انسولین کے بارے میں بھی حوصلہ افزا معلومات فراہم کی ہیں تا کہ لوگوں کے دلوں سے بڑی بڑی سوئیوں کا خوف ختم ہو جائے۔

ڈاکٹر لبنیٰ مرزا نے اپنی کتاب میں نہ صرف طبی مشورے اور صحتمند زندگی گزارنے کے اصول بتائے ہیں بلکہ ذیابیطس کی تشخیص اور علاج کے تاریخی پس منظر پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ وہ ہمیں بتاتی ہیں کہ آج سے سینکڑوں سال پہلے یونانی طبیبوں نے ایک ایسی بیماری کو پہچان لیا تھا جس کے مریض کے پیشاب کے گرد چیونٹیاں جمع ہو جاتی تھیں (یہ شاید واحد بیماری ہے جس میں چیونٹیاں مرض کی تشخیص میں طبیب کی مدد کرتی ہیں) کیونکہ وہ پیشاب میٹھا ہوتا ہے۔ ان طبیبوں نے دو طرح کی ذیابیطس معلوم کر لی تھی
پہلی قسم جس کے مریض کم عمر اور دبلے ہوتے تھے۔ یہ قسم اب TYPE ONE DIABETES کہلاتی ہے۔
دوسری قسم جس کے مریض بڑی عمر کے موٹے انسان ہوتے ہیں۔ یہ قسم اب TYPE TWO DIABETES کہلاتی ہے۔

وہ ہمیں بتاتی ہیں کہ DIABETES کی اصطلاح 1425 میں اور MELLITUS کی اصطلاح 1675 میں طب کی تاریخ میں داخل ہوئی۔ 1925 میں پہلی دفعہ انسولین کے ٹیکے اور 1942 میں پہلی دفعہ منہ سے کھانے والی دوا سے ذیابیطس کے مریض کا علاج کیا گیا۔
انسانی جسم میں شوگر کو کنٹرول کرنے کے لیے لبلبے PANCEAS کے BETA CELLS انسولین بناتے ہیں اور انسولین ’ایک چابی ہے جو کلوکوز کے لیے خلیے کا دروازہ کھولتی ہے‘۔ جب لبلبہ انسولین بنانا بند کر دیتا ہے تو انسان ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

ڈاکٹر لبنیٰ مرزا کی کتاب پڑھتے ہوئے مجھے اپنے خٰیبر میڈیکل کالج کا وہ لیکچر یاد آیا جس میں ہمارے پروفیسر نے ہمیں بتایا تھا کہ ذیابیطس کے مریض کو تین باتوں سے جانا جا سکتا ہے
اسے پیاس بہت لگتی ہے اور وہ بار بار بار پانی پیتا ہے POLYDYPSIA
اسے بھوک بہت لگتی ہے اور وہ بار بار کھانا کھاتا ہے POLYPHAGIA
اسے بار بار پیشاب آتا ہے POLYUREA

ڈاکٹر لبنیٰ مرزا ہماری رہنمائی کرتی ہیں کہ اب ایسا آلہ بن گیا ہے جو خون میں شوگر کا لیول بتا سکتا ہے ایسا آلہ گلوکومیٹرGLUCOMETER کہلاتا ہے۔ اس میٹر سے جب کسی انسان کا بلڈ شوگر ٹیسٹ کیا جاتا ہے تو اگر وہ 200 ملی گرام فی ڈیسی لیٹر سے ایک دفعہ زیادہ ہو یا 126 ملی گرام سے دو دفعہ زیادہ ہو تو اس شخص کو ذیابیطس کی بیماری ہے۔ اب ایسے ٹیسٹ بھی آ گئے ہیں جو تین مہنے کی اوسط نکالتے ہیں یہ ٹیسٹ HEMOGLOBIN A1C کہلاتا ہے اس ٹیسٹ کے نتائج میں
HIC 6% [125 MG /RC] اور
HIC 7% [ 154 MG /DC] کے برابر ہوتی ہے۔ یہی وہ لیول ہے جس کی طرف میرے فیمیل فزیشن ڈاکٹر کوپلینڈ کا اشارہ تھا۔

ڈاکٹر لبنی مرزا کا مشورہ ہے کہ جسمانی صحت کے لیے ہمیں ہفتے میں پانچ دن آدھ گھنٹہ سیر کو جانا چاہیے اور متوازن غذا کھانی چاہیے۔ متوازن غذا کی ایک مثال انہوں نے
50 فیصد سبزیاں
25 فی صد مچھلی یا چکن کا گوشت
25 فیصد پورے آٹے والی روٹی یا بھورے چاول بتائی ہے۔

ڈاکٹر لبنیٰ مرزا کے مشورے پڑھتے ہوئے مجھے بقراط HIPPOCRATES یاد آ گئے جو بابائے طب کہلاتے ہیں۔ انہوں نے 500 قبل مسیح میں انسانی صحت کے تین راز بتائے تھے۔ ورزش‘ متوازن خوارک اور گہری نیند۔ گہری نیند سے تو انسان ذہنی طور پر بھی صحتممند رہتا ہے۔
ڈاکٹر لبنیٰ مرزا نے کتاب میں چند مریضوں کی کہانیاں بھی رقم کی ہیں جو کتاب کو دلچسپ بناتی ہیں۔ ان سے قارئین استفادہ کر سکتے ہیں۔ انہوں نے اپنے مریضوں اور ان کے رشتہ داروں کے لیے ایک فیس بک پیج بھی بنایا ہے تا کہ وہ ذیابیطس کے بارے میں جدید معلومات سے استفادہ کر سکیں۔

چونکہ پاکستان اور ہندوستان میں لاکھوں لوگ ایسے ہیں جو ذیابیطس کی بیماری میں مبتلا ہیں اس لیے وہ اس کتاب سے استفادہ کر سکتے ہیں اور ذیابیطس کی پیچیدگیوں اور COMPLICATIONS سے بچ سکتے ہیں کیونکہ ذیابیطس سے دھیرے دھیرے خاموشی سے کئی اور بیماریاں بھی پیدا ہو سکتی ہیں۔

ایک وہ دور تھا جب بچپن کی TYPE ONE DIABETES سے سینکڑوں بچے وقت سے پہلے فوت ہو جاتے تھے لیکن انسولین کی دریافت کے بعد اب ان کا تسلی بخش علاج ہو سکتا ہے۔ اسی طرح جوانی اور بڑھاپے کی TYPE TWO DIABETES بھی ادویہ ‘ورزش اور متوازن خوراک سے کنٹرول کی جا سکتی ہے۔ بعض دفعہ ہم بھول جاتے ہیں کہ طب اور سائنس کے انسانیت پر کتنے احسانات ہیں۔ اس کتاب کو پڑھنے سے مریض اپنی مدد آپ اور اپنے ڈاکٹر کے ساتھ مل کر اپنا علاج کر سکتے ہیں۔

ڈاکٹر لبنی مرزا کی کتاب ذیابیطس کے مریضوں اور ان کے رشتہ داروں کے لیے امید کی ایک کرن ہے۔ میں انہیں اردو میں ایسی معیاری کتاب لکھنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ یہ ان کی انسانیت کے لیے انمول خدمت ہے۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail