خیبر میل میں گزرے آٹھ گھنٹے


لاہور کی گرمی سے دل گھبرایا تو سوچا کہ خالہ کے پاس اٹک چلتے ہیں۔ ان کے پاس جانے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ وہ ہر آنے والے مہمان کو مری کی سیر پر لے جاتی ہیں۔ ہم بھی اسی آس میں اٹک کا ارادہ کر بیٹھے۔ انٹرنیٹ کا رُخ کیا تو پتہ لگا پاکستان ریلوے نے ای ٹکٹ کی سہولت بھی جاری کر دی ہے۔ یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ پاکستان میں بھی نیو میڈیا کا آغاز ہو چلا ہے۔ انسان کے بیشتر کام گھر بیٹھے سمارٹ فون کے ذریعے ہو جائیں تو زندگی کافی سہل ہو جاتی ہے۔

خیر لاہور سے اٹک کی ٹرینوں کا شیڈیول چیک کیا۔ لاہور سے اٹک روزانہ تین ٹرینیں جاتی ہیں۔ ہم نے خیبر میل کا انتخاب کیا۔ خیبر میل کراچی سے پشاور تک چلتی ہے۔ لاہور یہ رات کے پونے آٹھ پہنچتی ہے اور صبح کے چار بجے آپ کو اٹک پہنچا دیتی ہے۔ ہم نے رات کے سفر کی وجہ سے اس کا انتخاب کر لیا۔

سٹیشن پر پہنچے، سیکیورٹی چیک پوائنٹ سے گزرے، ٹکٹ خریدی اور پلیٹ فارم کی طرف چل پڑے۔ جہاں جہاں سے ہم گزر رہے تھے وہاں وہاں کھڑے مردوں کی نظریں ہمارے اوپر آ کر جم جاتی تھیں۔ میں نے 2017۔ 07۔ 20 کے اپنئی آرٹیکل ایچ ای سی لاہور ریجنل کیمپس۔ بلی کا بچہ اور ٹھرکی بوڑھا چوکیدار میں ذکر کیا تھا کہ کیسے ایچ ای سی کے گیٹ پر موجود بوڑھا چوکیدار مجھے گھور گھور کر دیکھ رہا تھا۔ اس آرٹیکل کے جواب میں کئی لوگوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے وہ آپ میں اپنی کوئی بچھڑی ہوئی بہن، بیٹی یا بیوی دیکھ رہا ہو۔ ان لوگوں کے یہ جواب میرے ذہن میں تازہ تھے۔ اس لئے سٹیشن پر جو مرد حضرات مجھے گھور رہے تھے ان کے لئے میرے دل میں بس ترحم ہی پیدا ہو سکا۔ ٹرین آنے میں کچھ ہی لمحے باقی تھے ورنہ میں ضرور ان مرد حضرات کو میری صورت میں اپنی گمشدہ بہن، بیٹی یا بیوی کو دیکھنے کا موقع دیتی۔ میری معذرت قبول کریں۔

پلیٹ فارم نمبر چار پر پہنچے تو پتا لگا کہ ٹرین پلیٹ فارم نمبر چار یا پانچ کسی پر بھی آ سکتی ہے۔ بڑی حیرانی ہوئی۔ ٹرین آنے میں دو تین منٹ ہی بچے تھے لیکن سٹاف کو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ ٹرین کس پلیٹ فارم پرآئے گی۔ ہم ایک قریبی بنچ پر بیٹھ گئے۔ بنچ کے اوپر پنجاب گورنمنٹ کے فری وائی فائی کا بورڈ لگا تھا۔


ہم نے جھٹ موبائل نکالا اور وائی فائی کنکٹ کیا۔ براؤسر پر ایک آٹو پیج کھل گیا۔ اپنا نمبر درج کیا۔ سینڈ کوڈ پر انگوٹھا دبایا بارہا دبایا مگر وہ کوڈ نہ آیا۔ ذرا فاصلے پر ایک چائے والی کی دکان تھی۔ اس سے جا کر پوچھا کہ یہ انٹرنیٹ کنیکٹ ہوتا ہے؟ اس نے کہا جی نہیں۔ ہم ابھی اسی پر افسوس کر رہے تھے کہ شور مچا پلیٹ فارم نمبر پانچ پر گاڑی آ رہی ہے۔ ہم بھاگم بھاگ وہاں آئے۔ اب کہاں کھڑے ہونا چاہیے؟ سب لوگ اسی سوچ کے ساتھ دائیں یا بائیں تیز تیز قدموں کے ساتھ چل رہے تھے۔ جہاں جس کا دل کیا وہاں جا کر کھڑا ہوگیا۔ ہم بھی ایک جگہ کھڑے ہو گئے۔ ٹرین آئی اور ہم اس میں سوار ہو گئے۔

سوار ہونے کی بھی الگ کہانی ہے۔ سوار ہونے والوں کو اترنے والوں سے زیادہ جلدی تھے۔ کچھ مرد حضرات نے رضاکارانہ طور پر یہ ڈیوٹی سنبھال لی۔ باجی آپ رکیں۔ او بابا جی جلدی اترو۔ خالہ جان پہلے انہیں اترنے دیو۔ خدا خدا کر کے ہماری باری آئی تو ہم بھی ٹرین میں سوار ہوئی۔ والدہ محترمہ پہلے ہی سیٹ سنبھال چکی تھیں۔ میں نے ایک فخریہ مسکراہٹ ان کی طرف اچھالی۔ نشست پر بیٹھ کر فراغت سے ٹرین کا جائزہ لیا۔ پوری ٹرین دھول اور مٹی سے اٹی پڑی تھی۔ سیٹوں کے نیچے خالی ریپر اور سافٹ ڈرنک کی بوتلیں لڑھک رہی تھیں۔
جو لوگ کراچی سے سفر کر رہے تھے انہوں نے اپنے کیبن کے باہر دوپٹوں کے مدد سے پردے کا مناسب انتظام کیا ہوا تھا۔ اس پردے دار فیملی کے مرد حضرات سے سے اوپر والی برتھ پر لیٹ کر دوسری فیملیز کے پردے کا بغور جائزہ لے رہے تھے۔

ہمارے ساتھ والی سیٹ پر ایک بوڑھی عورت بیٹھی تھی۔ انہوں نے بھی اپنی نظروں سے ہمارا خوب جائزہ لیا۔ جب ہم نے کوئی لفٹ نہ کرائی تو انہوں نے فٹ اپنے سامان میں سے سفری تکیہ نکالا۔ سیٹ پر رکھا اور سونے لیٹ گئیں۔

اتنے میں تین چار لمبے تڑنگے آدمی کندھوں پر بندوقیں لٹکائی ہمارے ڈبے میں داخل ہوئے۔ وہ خالی برتھوں پر چڑھ کر لیٹ گئے۔ ہم ڈر گئے۔ والدہ کو چپکے سے کہا کہ ان سےپوچھیں یہ کون ہیں۔ وہ بھی پریشان ہوئیں مگر چپکی بیٹھی رہیں۔ اتنے میں ٹرین چل پڑی۔ کچھ دیر بعد ٹکٹ چیکر آیا تو ہم نے ان سے پوچھا کہ یہ حضرات کون ہیں۔ اس نے بتایا کہ یہ پولیس والے ہیں۔ فکر نہ کریں۔ ڈیوٹی پر پنڈی جا رہے ہیں۔ اوہ۔ ہم نے شکر کا سانس لیا اور آرام سے بیٹھ گئے۔
خیبر میل کے ڈبوں کا حال تو دیکھ ہی چکے تھے۔ مکمل تبصرے کے لئے بیت الخلاء کا چکر بھی لگا لیا جو کہ گندگی کی ایک الگ داستان بنا ہوا تھا۔

پانی کے پائپ میں سے پانی ٹپک رہا تھا۔ نہ ٹشو پیپر، نہ صابن، نہ ہی لوٹا۔ یہ تھا خیبر میل کا بیت الخلاء۔ ایک ایسی قوم کی ٹرین کا بیت الخلاء جس کے مذہب میں صفائی کو نصف ایمان قرار دیا گیا ہے۔ ٹرین اپنے مقررہ وقت سے آدھا گھنٹا لیٹ تھی۔ اٹک کے قریب ہم نے اپنا سامان اٹھایا اور دروازے کی طرف چل پڑے۔ ڈبے کے دونوں دروازے کھلے پڑے تھے۔ سٹاف نام کی کوئی بلا ارد گرد موجود نہ تھی۔ مانا کہ ہم ایک بہادر قوم ہیں لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ حکومت ہمیں قدم قدم پر مرنے کے مواقع فراہم کرے۔
اٹک کا سٹیشن آیا تو ہم فوری اترے اور آئندہ کے لئے ٹرین کے سفر سے توبہ کر لی۔(ختم شد)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).