گرو جی، پیر صاحب!


پاکستان اور انڈیا میں صدیوں سے بہت سے لوگ جعلی گرو، پیر، بابے وغیرہ بن کر اپنے چیلوں اور مریدوں کی درگت بناتے چلے آ رہے ہیں۔ انڈیا میں آج کل شدید ہنگامے ہو رہے ہیں جن میں قیمتی جانوں کے ضیاع پہ جہاں افسوس ہے، وہیں ایک عجیب قسم کا احساس بھی ہو رہا ہے کہ ایک گرو جی کو مجرم قرار دینے پہ ایسے خوفناک ہنگامے ہو گئے جب کہ یہاں ایک وزیرِ اعظم کو قصوروار ٹھہرایا گیا لیکن لوگ اس طرح گھروں سے باہر نہیں نکلے۔

گرو گرمیت رام رحیم پہ یہ الزام قریب 15 سال پہلے لگایا گیا تھا مگر فیصلہ اب ہوا۔ گرو جی کنہیا بن کے گوپیوں کے ساتھ خوش وقتی فرما رہے تھے اور اگر آپ ان کے چیلوں سے پوچھیں گے تو ان کے پاس ایک ہزار ایک عذر موجود ہوں گے۔ پچھلے دنوں پاکستان میں ایک جعلی پیر نے اپنے کئی مریدوں کو قتل کر دیا تھا۔ مرید خواتین کے ساتھ بدسلوکی تو ایک عام بات بن چکی ہے۔ ہندوستان پاکستان کے چپے چپے پہ پھیلے ہوئے ان جعلی پیروں کے ڈیروں اور خانقاہوں میں اصلی تصوف کی رمق بھی باقی نہیں۔

ایسوں ڈیروں کی بڑی تعداد نشے اور بدفعلی کا مرکز بن چکی ہے لیکن دونوں ملکوں میں ان کی طرف سے کان اور آنکھیں بند کرنے کی پالیسی اپنائی گئی ہے۔ جو لوگ ان ڈبہ پیروں کے سجادہ نشین ہیں، ان کا تو مت ہی پوچھیں۔ میرے ساتھ سکول میں ایک نہایت میلا، بدتمیز، غبی اور احمق لڑکا پڑھتا تھا۔ پچھلے دنوں کسی تقریب میں ملاقات ہوئی۔ باقی حلیہ اور ذہنی معیار وہی تھا بلکہ مزید پست ہو چکا تھا، فر ق صرف اتنا تھا کہ اب موصوف ایک گدی پہ متمکن تھے۔ چونکہ نسبت بہت بڑی تھی اس لیے کوئی کچھ کہتا نہیں تھا۔ ورنہ پیر صاحب مدظلہ عقل سے آج بھی پیدل تھے۔

موصوف جس کسی کے لیے دعا کرتے ہیں اس کا منہ کھلوا کر اس میں تھوکتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جا اب نہ صرف تیرا مسئلہ حل ہو جائے گا بلکہ میں نے اپنی زبان تجھے دی تو بھی جس کے حق میں دعا کرے گا اس کا بیڑہ پار۔ یہ سن کر طبیعیت متلا گئی۔ ایک اور بزرگ کو لوگ پیر پھنبہ پکارتے تھے۔ وجۂ تسمیہ یہ تھی کہ حضرت دن رات کان میں پھیرنے کو پھریریاں بٹتے تھے اور پھر ان سے کانوں کا میل نکالتے تھے۔ یہ میلی پھریریاں حاصل کرنے کو مریدوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ لگے رہتے تھے۔ استعمال شدہ پھریری کو تبرکاً مرید اپنے گھر میں رکھتے تھے کہ اس سے گھر میں برکت ہو گی۔

بعض پیر ایسے بھی ہیں کہ اپنے مریدوں کو جلال میں آ کر بری طرح دھمکاتے ہیں، بعض تو ڈنڈے ونڈے بھی مارتے ہیں۔ کچھ پیر جھاڑو سے ٹھکائی لگاتے ہیں۔ جن نکالنے کے لیے مرچوں کی دھونی دینا ایک عام عمل ہے۔ کبھی یہ گرو اتنے بڑے نذرانے مانگتے ہیں کہ مریدوں کی کمریں دہری ہو جاتی ہیں لیکن وہ بخوشی پیر صاحب کی فرمائش پوری کرنے میں جت جاتے ہیں۔ گھر میں کھانے کو ہو نہ ہو مگر مزار کی شیرینی اور پیر صاحب کی نذر کا پیسہ کہیں نہ کہیں سے ضرور حاصل کیا جاتا ہے۔

دونوں ملکوں میں جماعت کا بھی رواج ہے۔ یہ ملنگوں کی پارٹی ہوتی ہے جو منت پوری ہونے پہ ہر سال عرس کے دنوں میں خود چیلے کے گھر پہنچ جاتی ہے۔ ناچتے کودتے بھی ہیں، کھانا بھی کھاتے ہیں اور مزار کے لنگر کے لیے کچا راشن بھی لے کر جاتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ یہ ڈبہ پیر ایسا کیوں کرتے ہیں اور مرید یا چیلے اپنی یہ گت کیوں بنواتے ہیں؟ انسان کے اندر ابتدائے آفرینش سے ہدایت کی خواہش چھپی ہوئی ہے۔ ہر شخص ایک رہنما، لیڈر یا ایسی ہستی کی تلاش میں رہتا ہے جسے کسی بھی مشکل وقت میں ہدایت و رہنمائی کے لیے پکارا جا سکے۔

قریباً تمام مذاہب کے ٹھیکیداروں نے خدا کو بندے کی پہنچ سے بہت دور کر دیا ہے۔ مالک اور بندے کے درمیان اس قدر دوریاں پیدا کر دی ہیں اور راستہ اتنا طویل کر دیا ہے کہ انسان یا تو گھبرا کے یہ راستہ ہی چھوڑ دیتا ہے یا کوئی شارٹ کٹ اختیار کرتا ہے۔ شارٹ کٹ پہ تمام ڈبہ پیروں اور جعلی گروؤں کا قبضہ ہے۔

مرید آنکھیں بند کر کے اپنے آپ کو ڈبہ پیر کے حوالے کرتا ہے اور پیر اس کی بےبسی سے تسکین پاتا ہے۔ ہوتے ہوتے نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ یہ پیر یا گرو اپنے بھگتوں کی تذلیل کرنے لگتے ہیں۔ جیسا کہ رام رحیم کے معاملے میں ہوا۔ ہمارے ہاں پنجاب میں کسی کو ‘بے مرشدا’ یا ‘ بے پیرا’ کہنا گالی ہے۔ یعنی ایک ایسا شخص جس کے لیے دعا کرنے والا اور اسے سیدھا راستہ دکھانے والا بھی کوئی نہیں۔ میری تو دعا یہ ہی کہ یا اللہ عمر بھر بے مرشدا رکھا، آگے بھی ایسا ہی رکھنا، اس وقت جس طرح کے پیر سامنے آ رہے ہیں، ان سے تو چوہا لنڈورا ہی بھلا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).